Urwatul-Wusqaa - Al-Qasas : 41
وَ جَعَلْنٰهُمْ اَئِمَّةً یَّدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ١ۚ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ لَا یُنْصَرُوْنَ
وَ : اور جَعَلْنٰهُمْ : ہم نے بنایا انہیں اَئِمَّةً : سردار يَّدْعُوْنَ : وہ بلاتے ہیں اِلَى النَّارِ : جہنم کی طرف وَ : اور يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت لَا يُنْصَرُوْنَ : وہ مدد نہ دئیے جائیں گے
اور ہم نے ان کو پیشوا بنایا تھا ، وہ (لوگوں کو) دوزخ کی طرف بلاتے تھے اور قیامت کے روز ان کا کوئی مددگار نہ ہو گا
فرعون اور اس کے دریاری ایسے لیڈر تھے جو قوم کو آگ کی طرف لے گئے : 41۔ (وجعلنھم) اور ہم نے ان کو یعنی فرعون اور اس کے اعوان وانصار کو ایسے لوگ بنایا تھا (ائمۃ یدعون الی النار) جہنم کی طرف دعوت دینے والے پیشوا ، قانون مشیت کے خلاف نہیں ہے اس لئے ان کی اس برائی کی نسبت بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف کی یعنی ہم نے ان کو ایسا بنایا تھا کیوں ؟ اس لئے کہ کوئی شخص جو کچھ بننا چاہتا ہے تو ہم اسکو اپنے قانون کے مطابق وہی کچھ بنا دیتے ہیں ہمارے قانون میں طے شدہ بات ہے کہ ہم نے جب انسان کو ایک حد تک اختیار دیا ہے تو اب جو کچھ بھی وہ ہمارے دیئے ہوئے اختیار کے باعث بنا اس کو ہم ہی نے وہ کچھ بنایا اور بلاشبہ فرعون کو بھی اختیار اللہ تعالیٰ ہی کا دیا ہوا تھا اور اس کے اعوان وانصار کو بھی اور اس وقت جو فرعونیت سے کام لے کر فرعون بنے ہوئے ہیں وہ بھی اللہ رب ذوالجلال والاکرام ہی کے اختیار سے بنے ہوئے ہیں ۔ اگر یہ اختیار انسان سے واپس لے لیا جائے تو پھر وہ مجبور محض ہوگیا اور مجبور محض کبھی مکلف نہیں ہوسکتا اور پھر جو مکلف ہی نہ رہا اس پر کسی طرح کی آخر گرفت ہوگی تو کیوں ؟ اور اگر اس کو کوئی کام کرنے پر انعام ملے گا تو کیوں ؟ یہی وہ راز ہے جس کو نہ سمجھنے کے باعث لوگوں نے بڑی بڑی ٹھوکریں کھائی ہیں ، فرمایا فرعون اور اس کے درباری جنہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کی مخالفت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی قیامت کے روز کسی طرح کی مدد نہیں دیئے جائیں گے اور اس طرح وہ سب لوگ جو اپنے اپنے وقت میں فرعون بنے رہے اور جو اس وقت بنے ہوئے ہیں سب ہی اس کے مستحق ہیں کہ قیامت کے روز انکی مدد نہ کی جائے ۔
Top