Maarif-ul-Quran - Al-Maaida : 55
اِنَّمَا وَلِیُّكُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ هُمْ رٰكِعُوْنَ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں (صرف) وَلِيُّكُمُ : تمہارا رفیق اللّٰهُ : اللہ وَرَسُوْلُهٗ : اور اس کا رسول وَ : اور الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے الَّذِيْنَ : جو لوگ يُقِيْمُوْنَ : قائم کرتے ہیں الصَّلٰوةَ : نماز وَيُؤْتُوْنَ : اور دیتے ہیں الزَّكٰوةَ : زکوۃ وَهُمْ : اور وہ رٰكِعُوْنَ : رکوع کرنیوالے
تمہارا رفیق تو وہی اللہ ہے اور اس کا رسول ﷺ اور جو ایمان والے ہیں جو کہ قائم ہیں نماز پر اور دیتے ہیں زکوٰة اور عاجزی کرنے والے ہیں
سابقہ چار آیات میں مسلمانوں کو کافروں کے ساتھ گہری دوستی رکھنے سے منع فرمایا گیا پانچویں آیت میں مثبت طور پر یہ بتلایا گیا کہ مسلمانوں کو گہری دوستی اور رفاقت خاص کا تعلق جن سے ہوسکتا ہے وہ کون ہیں۔ ان میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ اور پھر اس کے رسول ﷺ کا ذکر ہے کہ درحقیقت مومن کا ولی و رفیق ہر وقت ہر حال میں اللہ تعالیٰ ہی ہے اور وہی ہوسکتا ہے۔ اور اس کے تعلق کے سوا ہر تعلق اور ہر دوستی فانی ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ کا تعلق بھی درحقیقت اللہ تعالیٰ کا تعلق ہے اس سے الگ نہیں۔ تیسرے نمبر میں مسلمانوں کے رفیق اور مخلص دوست ان مسلمانوں کو قرار دیا ہے جو صرف نام کے مسلمان نہیں، بلکہ سچے مسلمان ہیں جن کی تین صفات اور علامات یہ بتلائی ہیں
(آیت) الذین یقیمون الصلوة الخ۔
اول یہ کہ وہ نماز کو اس کے پورے آداب و شرائط کے ساتھ پابندی سے ادا کرتے ہیں۔ دوسری یہ کہ اپنے مال میں سے زکوٰة ادا کرتے ہیں۔ تیسرے یہ کہ وہ لوگ متواضع اور فروتنی کرنے والے ہیں اپنے اعمال خیر پر ناز اور تکبر نہیں کرتے۔
اس آیت کا تیسرا جملہ (آیت) وہم راکعون، میں لفظ رکوع کے کئی مفہوم ہو سکتے ہیں۔ اسی لئے ائمہ تفسیر میں سے بعض نے فرمایا کہ رکوع سے مراد اس جگہ اصطلاحی رکوع ہے جو نماز کا ایک رکن ہے۔ اور یقیمون الصلوة کے بعد وھم راکعون کا جملہ اس مقصد سے لایا گیا کہ مسلمانوں کی نماز کو دوسرے فرقوں کی نماز سے ممتاز کردینا مقصود ہے۔ کیونکہ نماز تو یہود و نصاریٰ بھی پڑھتے ہیں، مگر اس میں رکوع نہیں ہوتا، رکوع صرف اسلامی نماز کا امتیازی وصف ہے (مظہری)۔
مگر جمہور مفسرین نے فرمایا کہ لفظ رکوع سے اس جگہ اصطلاحی رکوع مراد نہیں۔ بلکہ اس کے لغوی معنی مراد ہیں۔ یعنی جھکنا، تواضع اور عاجزی و انکساری کرنا، تفسیر بحر محیط میں ابوحیان نے اور تفسیر کشاف میں زمخشری نے اسی کو اختیار کیا ہے اور تفسیر مظہری وبیان القرآن وغیرہ میں بھی اسی کو لیا گیا ہے، تو معنی اس جملہ کے یہ ہوگئے کہ ان لوگوں کو اپنے اعمال صالحہ پر ناز نہیں بلکہ تواضع اور انکساری ان کی خصلت ہے۔
اور بعض روایات میں ہے کہ یہ جملہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں ایک خاص واقعہ کے متعلق نازل ہوا ہے۔ وہ یہ کہ ایک روز حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نماز میں مشغول تھے۔ جب آپ رکوع میں گئے تو کسی سائل نے آ کر سوال کیا، آپ کرم اللہ وجہہ نے اسی حالت رکوع میں اپنی ایک انگلی سے انگوٹھی نکال کر اس کی طرف پھینک دی، غریب فقیر کی حاجت روائی میں اتنی دیر کرنا بھی پسند نہیں فرمایا کہ نماز سے فارغ ہو کر اس کی ضرورت پوری کریں۔ یہ مسابقت فی الخیرات اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسند آئی۔ اور اس جملہ کے ذریعہ اس کی قدر افزائی فرمائی گئی۔
اس روایت کی سند میں علماء و محدثین کو کلام ہے لیکن روایت کو صحیح قرار دیا جائے تو اس کا حاصل یہ ہوگا کہ مسلمانوں کی گہری دوستی کے لائق نماز و زکوٰة کے پابند عام مسلمان ہیں اور ان میں خصوصیت کیساتھ حضرت علی کرم اللہ وجہہ۔ اس دوستی کے زیادہ مستحق ہیں۔ جیسا کہ ایک دوسری صحیح حدیث میں رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہےمن کنت مولاہ فعلی مولاہ، (رواہ احمد از مظہری) ”یعنی میں جس کا دوست ہوں تو علی کرم اللہ وجہہ بھی اس کے دوست ہیں“۔
اور ایک حدیث میں رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہےاللھم وال من والاہ وعاد من عاداہ، ”یعنی یا اللہ آپ محبوب بنالیں اس شخص کو جو محبت رکھتا ہو علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے، اور دشمن قرار دیں اس شخص کو جو دشمنی کرے علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے“۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اس خاص شرف کے ساتھ غالباً اس لئے نوازا گیا ہے کہ رسول کریم ﷺ پر آئندہ پیش آنے والا فتنہ منکشف ہوگیا تھا، کہ کچھ لوگ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے عداوت و دشمنی رکھیں گے، اور ان کے مقابلہ پر علم بغاوت اٹھائیں گے، جیسا کہ خوارج کے فتنہ میں اس کا ظہور ہوا۔
بہر حال آیت مذکورہ کا نزول خواہ اسی واقعہ کے متعلق ہوا ہو مگر الفاظ آیت کے عام ہیں، جو تمام صحابہ کرام اور سب مسلمانوں کو شامل ہیں، ازروئے حکم کسی فرد کی خصوصیت نہیں۔ اسی لئے جب کسی نے حضرت امام باقر رحمة اللہ علیہ سے پوچھا کہ اس آیت میں والَّذِيْنَ اٰمَنُوْا سے کیا حضرت علی کرم اللہ وجہہ مراد ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا کہ وہ بھی مومنین میں داخل ہونے کی حیثیت سے اس آیت کا مصداق ہیں۔
اس کے بعد دوسری آیت میں ان لوگوں کو فتح و نصرت اور دنیا پر غالب آنے کی بشارت دی گئی ہے جو مذکورہ آیات قرآنی کے احکام کی تعمیل کرکے غیروں کی گہری دوستی سے باز آجائیں اور صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ اور ایمان والوں کو اپنا دوست بنائیں۔
Top