Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 55
اِنَّمَا وَلِیُّكُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ هُمْ رٰكِعُوْنَ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں (صرف) وَلِيُّكُمُ : تمہارا رفیق اللّٰهُ : اللہ وَرَسُوْلُهٗ : اور اس کا رسول وَ : اور الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے الَّذِيْنَ : جو لوگ يُقِيْمُوْنَ : قائم کرتے ہیں الصَّلٰوةَ : نماز وَيُؤْتُوْنَ : اور دیتے ہیں الزَّكٰوةَ : زکوۃ وَهُمْ : اور وہ رٰكِعُوْنَ : رکوع کرنیوالے
تمہارا رفیق و مددگار اگر کوئی ہے تو اللہ ہے اس کا رسول ہے اور وہ لوگ ہیں جو ایمان والے ہیں جن لوگوں کا شیوہ یہ ہے کہ نماز قائم رکھتے ہیں ، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہیں
ایمان والوں کا رفیق ومدد گار اللہ اور اس کا رسول (a) اور ایمان والے لوگ ہی ہیں : 161: پچھلی آیات میں مسلمانوں کو کافروں کے ساتھ گہری راز دارانہ دوستی سے منع فرمایا گیا تھا پھر اس ” حکم نہی “ پر عمل نہ کرنے والوں کو وعیدیں سنائی گئیں اور زیر نظر آیت میں مثبت طور پر یہ بتایا گیا کہ مسلمانوں کی گہری دوستی اور رفاقت خاص کا تعلق جن لوگوں سے ہو سکتا ہے وہ کون سے لوگ ہیں ؟ پھر خود ہی اسکی وضاحت فرما دی کہ سب سے پہلے تو اللہ تعالیٰ ہے اور پھر اس کا رسول ﷺ ہے اور ظاہر ہے کہ حقیقت بھی یہی ہے کہ مومن کا دلی رفیق ہر وقت اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ ہی ہے اور وہی ہو سکتا ہے کاش کہ مسلمان بھی یہ بات سمجھیں ۔ یاد رہے کہ اللہ کے تعلق کے سوا ہر تعلق اور ہر دوستی فانی ہے اور رسول اللہ ﷺ کا تعلق بھی درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کا تعلق ہے اس سے الگ نہیں اور ازیں بعد مسلمانوں کے رفیق اور مخلص دوست مسلمانوں ہی کو قرار دیا جاسکتا ہے اور وہ بھی وہ مسلمان جو صرف نام کے مسلمان نہیں بلکہ کردار اور عمل کے مسلمان ہیں۔ ہائے قوم مسلم ! کہ تم نے آج اس قرآن کریم کو مردوں کو ثواب پہنچانے کے لئے مخصوص کردیا ۔ ہائے علمائے قوم ! کہ تم نے قرآن کریم کا رشتہ زندوں سے توڑ کر مردوں کے ساتھ جوڑ دیا۔ ہائے پیروان دین اسلام ! کہ تم یہ سب کچھ دیکھ کر خاموش ہوگئے اور تم نے چپ سادھ لی ۔ ہائے صوفیان ملت ! کہ تم نے تعویذ ، گنڈے اور جھاڑ پھونک کو جو کفر کا شیوہ تھا اسلام بنا کر رکھ دیا۔ ہائے پیشوایان اسلام ! کہ تم اسلام کو مختلف گروہ بندیوں میں تقسیم کر کے خوش ہونے لگے اور اپنی اپنی گروہ بندی کو اسلام کہنا شروع کردیا۔ ہائے قوم مسلم ! تم کیا تھے ؟ اور کیا ہو کر رہ گئے ؟ ایمان والوں کی پہچان کہ وہ کون لوگ ہیں تاکہ ہم سب اپنے آپ کو پہچان لیں : 162: فرمایا ایمان والے وہ لوگ ہیں ” جن لوگوں کا شیوہ یہ ہے کہ نماز قائم کرتے ہیں۔ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہیں۔ “ آپ ﷺ کے اس حصہ میں ایمان والوں کی پہچان کے لئے تین باتوں کا ذکر کیا گیا کہ وہ ” نماز کو قائم کرتے ہیں ۔ “ اور یہ اس وقت ہی ممکن ہے جب نماز کے پڑھنے اور نماز قائم کرنے کا فرق معلوم ہو۔ وہ ” زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ “ یہ اس وقت ہی ممکن ہے جب معلوم ہو کہ مال کس طرح کمانے اور کس طرح خرچ کرنے کا حکم ہے اور یہ کہ مال کا اصل مالک کون ہے اور عارض ملکیت کب تک قائم رہتی ہے ۔ وہ ” اللہ ‘ کے آگے جھکے ہوئے ہیں۔ یہ بات تب ہی میسر آسکتی ہے جب جھکنے کے مفہوم کی سمجھ ہو کہ جھکنا کیا ہے ؟ جھکنا تواضع ، عاجزی اور انکساری کو کہا جاتا ہے کہ ان کو اپنے اعمال صالحہ پر ناز نہیں ہوتا بلکہ تواضع و انکساری ان کی خصلت ہے۔ یعنی وہ کرتے ہیں جس کے کرنے کا حکم خداوندی موجود ہے اور رکتے ہیں جہاں رک جانا ضروری بتایا گیا ہے گویا نہ چلنا ان کی اپنی مرضی کے مطابق ہے اور نہ رکنا ان کی اپنی مرضی سے ہوتا ہے اور تینوں باتوں میں اتنی وسعت ہے کہ دین کی کوئی بات وہ عقائد سے متعلق ہو یا عمل کے متعلق باقی نہیں رہتی سب اس میں آجاتی ہیں۔ آج ہم من حیث القوم کن کے سامنے جھکے ہوئے ہیں ؟ اس سوال پر خودغور کرلو اور یہ بھی یاد رکھو کہ اس جگہ جھکنے سے مراد متعارف رکوع نہیں جو نماز کے اندر کیا جاتا ہے اس لئے کہ وہ رکوع کرنے والا باربار رکوع کرتا رہتا ہے اور یہی اس کے لئے حکم ہے اور جس رکوع کا اس جگہ حکم دیا گیا ہے وہ صرف اور صرف ایک ہی بار ہوتا ہے اور اسی جھکنے پر موت آتی ہے تب ہی وہ جھکنا جھکنا سمجھا جاتا ہے ۔ پہلا رکوع نقل ہے اور دوسرا اصل پہلا رکوع عمل ہے اور دوسرا اس کا نتیجہ۔ پہلا رکوع جسم ہے اور دوسرا اس کی روح پھر یہ سب کو معلوم ہے کہ نقل اصل کے مقابلہ میں ہیچ ہے ، عمل کے صحیح اور غلط کا پتہ اس کے نتیجہ ہی سے چلتا ہے اور جسم بغیر روح کے ایک بےکار اور ناکارہ شے ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اس آیت کے شان نزول میں کیا کچھ بیان ہوا اور پھر اسکی روشنی میں اس سے کیا کیا مسائل نکالے گئے اور قرآن کریم کی اس آیت مفہوم کو کس طرح مسخ کر کے رکھ دیا گیا اور ہمارے مفسرین کہاں سے کہاں نکل گئے لیکن ان سب باتوں کو چھوڑ دینا ذکر کرنے سے زیادہ بہتر سمجھ کر چھوڑاجا رہا ہے۔
Top