Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Maaida : 55
اِنَّمَا وَلِیُّكُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ هُمْ رٰكِعُوْنَ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں (صرف) وَلِيُّكُمُ : تمہارا رفیق اللّٰهُ : اللہ وَرَسُوْلُهٗ : اور اس کا رسول وَ : اور الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے الَّذِيْنَ : جو لوگ يُقِيْمُوْنَ : قائم کرتے ہیں الصَّلٰوةَ : نماز وَيُؤْتُوْنَ : اور دیتے ہیں الزَّكٰوةَ : زکوۃ وَهُمْ : اور وہ رٰكِعُوْنَ : رکوع کرنیوالے
تمہارے دوست تو خدا اور اس کے پیغمبر اور مومن لوگ ہی ہیں جو نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے اور (خدا کے آگے) جھکتے ہیں
(55 ۔ 56) ۔ اگرچہ طبرانی عبد الرزاق ابن جریر ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے اس آیت کا شان نزول اس قصہ کو قرار دیا ہے جس میں حضرت علی ؓ کا رکوع کی حالت میں ایک فقیر کو انگوٹھی خیرات کرنے کا ذکر ہے مگر یہ قصہ ذرا تردد طلب ہے اس لئے اولیٰ یہ ہے کہ اوپر کی حدیث کے موافق آیت کے اس ٹکڑے کی شان نزول بھی حضرت عبادہ بن صامت ؓ کا قصہ قرار دیا جاوے اور حضرت علی ؓ کو بھی آیت کا مصداق ٹھیرایا جاوے 2 ؎۔ عبادہ بن صامت ؓ کا یہ وہی قصہ ہے جس کو حافظ ابو جعفر ابن جریر 3 ؎ نے اپنی تفسیر میں اور محمد بن اسحاق نے اپنی مغازی میں معتبر سند سے خود عبادہ بن صامت ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے حاصل اس قصہ کا اوپر بیان ہوچکا ہے کہ عبادہ بن صامت ؓ نے تو آئندہ اسی دوستی سے اپنی بیزاری ظاہر کی اور عبد اللہ بن ابی نے آئندہ یہود سے دوستی قائم رکھنے کی ترغیب کی باتیں کی۔ حاصل مطلب آیت کا یہ ہے کہ عبادہ بن صامت ؓ کی طرح جو شخص مخالف اسلام لوگوں کی دوستی سے بیزار ہے اللہ اور اللہ کے رسول نماز اور زکوٰۃ پر قائم رہنے والے پکے مسلمان سب ایسے شخص کے دوست اور رفیق ہیں اور ایسے لوگ اللہ کا گروہ کہلاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اپنے گروہ سے یہ وعدہ کیا ہے کہ یہ گروہ مخالفوں پر غالب رہے گا۔ اللہ سچا ہے اللہ کا وعدہ بھی سچا ہے مدینہ کے گردونواح میں جو یہود رہتے تھے ان پر اور جو لوگ اسلام سے پھرگئے تھے ان پر اللہ تعالیٰ کے گروہ کا جو غلب ہوا اس کا حال اوپر گزرچکا ہے۔ تاریخ کی کتابوں کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک مسلمانوں میں اس قدر اسلام کی پابندی باقی رہی جس سے ان میں اللہ کا گروہ بننے کی صلاحیت رہی اس وقت تک اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے غلبہ کا جو وعدہ کیا تھا اس کا ظہور ہوتا رہا۔ جب اس طرح کے لوگ بھی دنیا سے اٹھتے گئے تو اس وعدہ کا ظہور بھی دنیا سے اٹھتا گیا مثلاً عمر ؓ کی خلافت میں جو حال لوگوں کا تھا وہ حال عثمان ؓ کی خلافت میں نہ رہا اسی طرح مثلاً ہشام بن عبد الملک کی سلطنت کا جو حال تھا وہ ولید بن یزید بن عبد الملک کی سلطنت کا نہ رہا اور پھر اس کے بعد اور ابتری پیدا ہوگئی۔ رکوع کے معنی یہاں خدا کا خوف دل میں رکھ کر نیک کام کرنے کے ہیں کیونکہ رکوع کے معنی اگر یہاں نماز میں کے رکوع ہوتے تو زکوٰ ۃ کا رکوع کی حالت میں ادا کرنا فضل ہوتا حالانکہ اس کا ثبوت شریعت میں کہیں پایا نہیں جاتا ترجمہ میں وھم راکعون کا ترجمہ ” اور وہ نوے ہوئے ہیں “ جو کیا ہے اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ باوجود نیک کام کرنے کے وہ لوگ جھکے رہتے ہیں اپنی عبادت کی کچھ فوقیت ان کے دل میں نہیں خدا کا خوف دل میں رکھ کر جو کام کیا جاوے تو وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بہت پسند ہے چناچہ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابو سعید خدری ؓ کی حدیث پہلے گزرچکی ہے کہ ایک شخص نے اللہ تعالیٰ کے سامنے جانے کے خوف سے اپنی لاش کے جلادینے اور اس خاک کو ہوا میں اڑا دینے کی وصیت کی تھی لیکن یہ وصیت اس کی محض خدا کے خوف کے سبب سے تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی مغفرت فرما دی 1 ؎۔ حاصل مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں کا آیت میں ذکر ہے وہ ہر ایک کام اللہ کو حاضر ناظر جان کر کرتے ہیں اس واسطے ان کی یہ عادت اللہ تعالیٰ کے نزدیک اچھی اور قابل تعریف ہے اور اس کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے۔
Top