Baseerat-e-Quran - Al-Maaida : 55
اِنَّمَا وَلِیُّكُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ هُمْ رٰكِعُوْنَ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں (صرف) وَلِيُّكُمُ : تمہارا رفیق اللّٰهُ : اللہ وَرَسُوْلُهٗ : اور اس کا رسول وَ : اور الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے الَّذِيْنَ : جو لوگ يُقِيْمُوْنَ : قائم کرتے ہیں الصَّلٰوةَ : نماز وَيُؤْتُوْنَ : اور دیتے ہیں الزَّكٰوةَ : زکوۃ وَهُمْ : اور وہ رٰكِعُوْنَ : رکوع کرنیوالے
کوئی شک نہیں کہ تمہارے اصلی دوست اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہیں۔ اور وہ لوگ ہیں جو ایمان والے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور رکوع کرتے ہیں
آیت نمبر 55 تا 56 لغات القرآن : راکعون (رکوع کرنے والے۔ جھکنے والے) ۔ حزب (جماعت۔ گروہ۔ فریق) تشریح : پچھلی آیت میں اللہ کی جماعت (حضرت صدیق اکبر ؓ اور ان کے رفقا مجاہدین ؓ کی پانچ علامتیں بتائی گئیں تھیں۔ ان آیات میں مزید پانچ علامتیں بتائی گئی ہیں اس وعدہ کے ساتھ کہ اللہ کی جماعت ہی غالب رہنے والی ہے۔ (1) وہ ایمان والے ہیں۔ (2) وہ نماز قائم کرتے ہیں۔ (3) وہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں (اور مانعین زکوٰۃ سے جہاد کرتے ہیں) (4) وہ رکوع اور سجود میں (نوافل) میں مشغول رہتے ہیں) (5) اللہ، اس کے رسول ﷺ اور ایمان والوں کو اپنا پکا دوست بناتے ہیں۔ یہاں پر جو لفظ ” راکعون “ آیا ہے اس کے معنی اور ہیں یعنی نہ صرف اللہ کے سامنے جھکنے والے بلکہ اس کے بندوں سے عاجزی اختیار کرنے والے ہیں۔ تکبر اور شان شیخی سے دور عاجزی اور انکساری میل محبت سے قریب۔ اپنے گناہوں سے ہر وقت ڈرتے رہتے ہیں۔ اگر ان آیات کو حضرت صدیق اکبر ؓ اور ان کے رفقا مجاہدین پر چسپاں نہ بھی کیا جائے اور کھلے کھلے عام معنی لئے جائیں تو ظاہر ہے کہ لافانی اور لازوال دوستی دنیا میں بھی اور جنت میں بھی اللہ، رسول ﷺ اور اہل ایمان کی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی حقیقی دوستی نہیں کیونکہ پچھلی آیات میں دوست کے انتخاب کا معیار مقرر ہوچکا ہے۔ اور اہل ایمان کون ہیں۔ ان کی پہچان یہاں دی گئی ہے۔ تاکہ دھوکا دینے والے جعلی لوگوں یعنی منافقین سے امتیاز واضح ہوجائے۔
Top