Tadabbur-e-Quran - Al-Maaida : 55
اِنَّمَا وَلِیُّكُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ هُمْ رٰكِعُوْنَ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں (صرف) وَلِيُّكُمُ : تمہارا رفیق اللّٰهُ : اللہ وَرَسُوْلُهٗ : اور اس کا رسول وَ : اور الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے الَّذِيْنَ : جو لوگ يُقِيْمُوْنَ : قائم کرتے ہیں الصَّلٰوةَ : نماز وَيُؤْتُوْنَ : اور دیتے ہیں الزَّكٰوةَ : زکوۃ وَهُمْ : اور وہ رٰكِعُوْنَ : رکوع کرنیوالے
تمہارے دوست اور معتمد تو بس اللہ، اس کا رسول اور وہ اہل ایمان ہیں جو نماز کا اہتمام کرتے
تفسیر آیت 55۔ 56:۔ اِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوا الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَهُمْ رٰكِعُوْنَ۔ وَمَنْ يَّتَوَلَّ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْغٰلِبُوْنَ۔ آیت 51 میں جو بات منفی اسلوب سے فرمائی گئی تھی وہی بات اب مثبت پہلو سے کہی جا رہی ہے۔ یہی یہود و نصاری کو اپنا دوست اور معتمد نہ بناؤ بلکہ اللہ، اس کے رسول اور اہل ایمان کو دوست اور معتمد بناؤ۔ تمہارا ایمان (اگر وہ موجود ہے) تم کو ان سے جوڑتا ہے نہ کہ ان سے۔ " والذین امنوا " یہاں اپنے حقیق مفہوم میں ہے، یعنی مومنین مخلصین۔ ایمان کی عملی تعبیر نماز اور زکوۃ ہے۔ الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَهُمْ رٰكِعُوْنَ۔ یہ للذین امنوا، سے بدل ہے جس سے یہ بات نکلتی ہے کہ ایمان کی عملی تعبیر اقامت صلوۃ اور ایتائے زکوۃ ہے۔ عطف کے بجائے بدلیت کے اسلوب سے اس کو تعبیر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ حکمت شریعت کے پہلو سے ایمان اور نماز و زکوۃ میں کوئی فاصلہ نہیں ہے۔ دونوں بالکل لازم و ملزوم ہیں۔ جہاں ایمان موجود ہے نماز اور زکوہ لازماً موجود ہوں گی۔ اگر یہ غائب ہیں تو یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ ایمان بھی غائب ہے۔ اگر اس کا دعوی ہے تو یہ محض دعوی ہے جس کا حقیقت کی میزان میں کوئی وزن نہیں ہے۔ نماز اور زکوہ کی اصلی روح : وھم راکعون، رکوع یہاں اپنے اصطلاح مفہوم میں نہیں بلکہ اپنے عام لغوی مفہوم میں ہے۔ رکع الرجل، کے معنی ہوتے ہیں اقتفروا نحطت حالہ، اس وجہ سے فروتنی، افتقار، نیاز مندی، عاجزی اور دل شکستگی اس لفظ کی اصل روح ہے۔ نماز میں رکوع، درحقیقت آدمی کے دل کی اسی حالت کی تعبیر کی ایک عملی شکل ہے۔ یہاں اس قید کے لگانے سے مقصود نماز اور زکوۃ کی اصل روح کی طرف اشارہ کرنا ہے اس لیے کہ جس طرح نماز اور زکوۃ کے بغیر ایمان بےمعنی اور بےروح کے ہو کے رہ جاتا ہے اسی طرح دل کی فروتنی اور خستگی کے بغیر نماز اور زکوۃ بالکل بےمقصد ہو کے رہ جاتے ہیں۔ اسلام کے دور اول میں منافقین کو نماز بھی پڑھنی پڑتی تھی اور زکوۃ بھی ادا کرنی ہوتی تھی۔ اس کے بغیر اس عہد مبارک میں کوئی شخص اپنے آپ کو مسلمانوں میں شمار کرا ہی نہیں سکتا تھا لیکن سورة نساء میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوچکا ہے کہ ان کی نمازیں مارے باندھے کی ہوتی تھیں، قرآن میں ان کے لیے " کسالی " کا لفظ آیا ہے۔ اسی طرح ان کا انفاق محض نمائش کے لیے ہوتا تھا۔ ہم راکعون کی قید نے یہ واضح کیا کہ دین میں جو نماز و زکوۃ مطلوب ہے وہ دل کی خستگی اور فروتنی کے ساتھ مطلوب ہے، ریا، تکبر اور کراہت کے ساتھ نہیں۔ حزب اللہ سے مراد : وَمَنْ يَّتَوَلَّ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْغٰلِبُوْن۔ میں ایجاز کلام کے تقاضے سے ایک ٹکڑا محذوف ہے۔ پوری بات گویا یوں ہے کہ جو اللہ اور اس کے رسول اور اہل ایمان کو اپنا دوست بناتے ہیں وہ اللہ کی جماعت ہیں اور اللہ کی جماعت ہے جو غالب ہونے والی ہے۔ چونکہ آخر کا ٹکڑا خود محذوف پر دلیل تھا اس وجہ سے پہلے کو حذف کردیا۔ اوپر فرمایا تھا کہ جو لوگ یہودونصاری کو اپنا دوست بنا رہے ہیں وہ ایک دن اپنے کیے پر پچھتائیں گے، ان کے اعمال ڈھے جائیں گے، وہ نامراد ہوں گے۔ اب یہ اللہ و رسول اور اہل ایمان کو دوست بنانے والوں کے روشن انجام کو واضح فرما دیا اور ان کو حزب اللہ کے لقب سے ملقب کر کے یہ اشارہ بھی فرما دیا کہ یہ منافقین جو یہود و نصاری کو اپنا دوست بنا رہے ہیں یہ حزب الشیطان ہیں اور شیطان کا کید چونکہ ضعیف اور بودا ہوتا ہے اس وجہ سے ان کی ناکامی و نامرادی ان کی تعمیر ہی کے اندر مضمر ہے۔
Top