بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - Maryam : 1
كٓهٰیٰعٓصٓ۫ۚ
كٓهٰيٰعٓصٓ : کاف۔ ہا۔ یا۔ عین۔ صاد
کھیعص
قصہء اول حضرت زکریا و حضرت یحییٰ (علیہما السلام) قال اللہ تعالیٰٰ ۔ کٓھٰیٰعٓصٓ، ذکر رحمت ربک عبدہ زکریا۔۔۔ الیٰ ۔۔۔ ویوم یبعث حیا۔ (ربط) حضرت زکریا (علیہ السلام) انبیاء بنی اسرائیل میں سے ہیں۔ صحیح بخاری میں ہے کہ وہ نجار (یعنی بڑھئی) کا پیشہ کرتے تھے اور اپنے ہاتھ کی محنت سے کما کر کھاتے تھے۔ ان کے کوئی فرزند نہ تھا اور اعزاء اوراقرباء کی طرف سے یہ کھٹکا تھا کہ میرے بعد دین حق میں تغیر و تبدل کر ڈالیں گے۔ جیسا کہ بنی اسرائیل میں ہوتا رہا۔ اس لیے انہوں نے پچھلی رات میں نہایت عجز وزاری کے ساتھ ایک فرزند کی دعا مانگی کہ جو میرے بعد تیرے دین کی حفاظت کرسکے اور دعا کا آغاز اپنے ضعف اور ناتوانی سے کیا۔ رب انی وھن العظم منی الخ۔ اے میرے پروردگار میں بوڑھا ہوگیا ہوں ہڈیاں کمزور ہوگئیں اور سر کے بال سپید ہوگئے وغیرہ وغیرہ۔ کیونکہ بارگاہ خداوندی میں ضعف اور لاچارگی کا اظہار اجابت دعا کا بہترین ذریعہ اور وسیلہ ہے۔ چناچہ فرماتے ہیں کٓھٰیٰعٓصٓ اللہ تعالیٰ کو ہی اس کے معنی معلوم ہیں۔ یہ تذکرہ ہے تیرے پروردگار کی خاص رحمت و عنایت کا اپنے خاص بندے زکریہ پر جس وقت انہوں نے اپنے پروردگار کو آہستہ آواز کے ساتھ پکارا جو درد مندی اور نیاز مندی اور اخلاص سے معمور تھی۔ اس وقت جو اللہ کی خاص رحمت اور عنایت ان پر مبذول ہوئی ان آیات میں اس کا ذکر فرماتے ہیں اور پست آواز سے دعا اس لیے فرمائی کہ دعا کا ادب یہی ہے کہ وہ پست آواز سے ہو۔ کما قال تعالیٰ ۔ ادعوا ربکم تضرعا و خفیۃ کیونکہ خدا تعالیٰ کے ہاں جہر اور اخفاء سب برابر ہیں۔ کما قال تعالیٰ ۔ و ان تجھربالقول فانہ یعلم السر و اخفٰی اور شاید لوگوں سے اس دعا کا چھپانا مقصود ہو کہ لوگ یہ دعا سن کر مجھ کو احمق نہ بتلائیں کہ بڑھاپے میں کیا ہوگیا کہ اولاد کی دعا مانگ رہے ہیں اور وہ دعا یہ کی کہ اے میرے پروردگار بڑھاپے کی وجہ سے میری ہڈیاں کمزور اور سست ہوگئیں اور سر بڑھاپے کی وجہ سے آگ کی طرح چمک اٹھا اور میری یہ حالت اگرچہ اولاد کی دعا سے مانع ہے۔ مگر اے پروردگار آپ سے دعا مانگنے میں کبھی محروم اور بےبہرہ نہیں رہا۔ آپ کی یہ گزشتہ الطاف و عنایات باوجود ظاہری اسباب کے فقدان کے مجھے دعا پر آمادہ کرتی ہیں اور میری یہ دعا کسی دنیوی غرض کے لیے نہیں جس میں یہ امکان اور احتمال ہو کہ انبیاء اور اصفیاء کی جو دعا کسی دنیاوی غرض کے لیے ہو وہ بعض مرتبہ قبول نہیں ہوتی بلکہ میری یہ دعا خالص دینی غرض کے لیے ہے اور اس درخواست کی اصل وجہ یہ ہے کہ تحقیق میں اپنے مرنے کے بعد اپنے وارثوں اور رشتہ داروں سے ڈرتا ہوں کہ وہ دین کی حفاظت میں اور اس کے قائم رکھنے میں سستی کریں یا دنیا میں پھنس کر دین کو خراب کریں اور تیری مرضی کے مطابق دین کی خدمت نہ بجا لاسکیں۔ اے پروردگار تیرے دین کی خدمت اور حفاظت کا خیال مجھے اسی دعا پر آمادہ کر رہا ہے اور میری بیوی تو شروع جوانی ہی سے بانجھ ہے۔ اور اب تو اٹھانوے برس کی بڑھیا ہے۔ ظاہر اسباب میں اولاد کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ پس اے پروردگار ایسی حالت میں تو آپ مجھ کو خاص اپنے پاس سے بلا اسباب عادیہ کے ایک ایسا وارث یعنی ایسا بیٹا عطا کر جو علم و حکمت میں میرا بھی وارث ہو اور مرنے کے بعد میرا قائم مقام ہو اور میرے طریقۂ ہدایت و ارشاد کو جاری رکھ سکے۔ اور اولاد یعقوب کا بھی وارث ہو یعنی خاندان یعقوب کا سچا جانشین ہو اور تیرے دین کا پاسبان اور نگہبان ہو۔ مطلب یہ ہے کہ اے پروردگار ایسا فرزند عطا فرما جو میرے علم کا اور آباء و اجداد کے علم کا وارث ہو اور اے پروردگار میرے اس فرزند کو مقبول اور پسندیدہ بنا لے۔ جس سے تو بھی راضی ہو اور مخلوق بھی اس سے راضی ہو۔ یعنی ایسا فرزند عطا فرما کہ جو علم و حکمت کے ساتھ اخلاق فاضلہ اور اعمال صالحہ کے ساتھ بھی موصوف ہو تاکہ وہ تیرے نزدیک مقبول اور پسندیدہ ہو سکے۔ اور اولاد یعقوب کے لیے تو نے جس کرامت اور برکت کا وعدہ کیا ہے وہ اس کا وارث ہو سکے۔ اے پروردگار اہل دنیا کی طرح مطلق فرزند کا طلب گار نہیں بلکہ ایسے وارث کا آرزو مند ہوں جو تیرے نزدیک پسندیدہ اور برگزیدہ ہو اور تیرے دین کی حفاظت کرے۔ شیعہ اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے ترکہ میں وراثت جاری ہوتی ہے مگر ان کا یہ استدلال بالکل غلط ہے اس لیے کہ اس آیت میں مال کی وراثت مراد نہیں بلکہ علم و حکمت کی وراثت مراد ہے۔ 1۔ کیونکہ اس وقت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد لاکھوں کی تعداد میں موجود تھی۔ لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) کے ایک فرزند تن تنہا تمام اولاد یعقوب کے اموال و املاک کے وارث بن جائیں۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو انتقال کیے ہوئے دو ہزار برس سے زیادہ گزر چکے تھے۔ کیا وہ مال اب بجنسہ غیر منقسم رکھا ہوا تھا۔ 2۔ نیز مال کی وراثت کی دعا کرنا فضول ہے ہر لڑکا اپنے باپ کے مال کا وارث ہوتا ہی ہے۔ لہٰذا یرثنی کہنا بےکار اور لغو ہوا۔ معلوم ہوا کہ مال کی وراثت مراد نہیں۔ 3۔ نیز زکریا (علیہ السلام) تو نجار تھے جیسا کہ حدیث میں صراحۃ مذکور ہے کہ وہ بڑھئی کا کام کرتے تھے۔ جس سے وہ محنت کر کے روزانہ اپنی قوت لا یموت حاصل کرتے تھے۔ ان کے پاس کون سا مال و دولت رکھا تھا جس کی وہ فکر میں تھے کہ میرے بعد اس دولت کا کون وارث ہوگا۔ یہ فکر تو دنیا داروں کو ہوتی ہے کہ مرنے کے بعد میرے مال کا کیا ہوگا۔ 4۔ مال کے وارث ہونے کے لیے اللہ سے بیٹا مانگنا شان نبوت کے بالکل منافی ہے مالی وراثت کی فکر تو دنیا داروں کو ہوتی ہے کہ ہمارے مرنے کے بعد ہمارا مال و دولت فرزند کو مل جائے۔ اور انی خفت الموالی کمال بیقراری و بےتابی پر دلالت کرتا ہے کہ تولد فرزند کے لیے اس لیے بیتاب ہیں کہ بنی اعمام ان کے مال کے وارث نہ ہوجائیں۔ تو یہ شان تو دنیا داروں کی ہے نہ کہ انبیاء (علیہ السلام) کی۔ 5۔ نیز احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ انبیاء (علیہ السلام) کے مال میں میراث جاری نہیں ہوئی بلکہ انبیاء کرام (علیہ السلام) جو چھوڑتے ہیں وہ سب صدقہ اور وقف ہوتا ہے اور اس قسم کی روایت شیعوں کی کلینی میں بھی موجود ہے۔ پس معلوم ہوا کہ آیت میں میراث نبوت مراد ہے مال کی وراثت مراد نہیں جیسا کہ و ورث سلیمان داود میں میراث سے میراث نبوت مراد ہے کہ جو داؤد (علیہ السلام) کی اولاد میں سے صرف سلیمان (علیہ السلام) کو ملی کیونکہ اگر میراث مالی مراد ہوتی تو تمام اولاد میں سے سلیمان (علیہ السلام) کی کیا خصوصیت تھی۔ نیز اس خبر دینے سے کوئی فائدہ نہ ہوتا اس لیے کہ تمام ملتوں اور شریعتوں میں یہ بات معلوم اور مقرر ہے کہ مال میں بیٹا باپ کا وارث ہوتا ہے۔ پس اگر وراثت مالی مراد ہوتی تو اس خبر دینے کی ضرورت نہ تھی اس کی خبر دینا لغو ہے اور کلام الہٰی لغو سے پاک ہے۔ وراثت انبیاء (علیہ السلام) کے مسئلہ کی تفصیل سورة نساء کے شروع میں گزر چکی ہے۔ وہاں دیکھ لی جائے اور لفظ وراثت اور میراث مالی وراثت کے ساتھ مخصوص نہیں۔ کتاب و سنت میں میراث علمی پر بھی اس لفظ کا اطلاق بکثرت آیا ہے۔ جیسے آیت فخلف من م بعدھم خلف و رثوا الکتٰب اور آیت ثم اور ثنا الکتٰب الذین اصطفینا میں وراثت علمی مراد ہے۔ وراثت کے اصل معنی قائم مقام اور متسلط ہونے کے ہیں اور اس کے لیے مال لازم نہیں جیسا کہ قرآن کریم میں ہے۔ نحن نرث الارض ومن علیھا۔ و نحن الوارثون۔ خیرالوارثین۔ اس آیت میں میراث مالی کا مراد لینا ناممکن ہے اور محال ہے بلکہ تسلط اور تصرف کے معنی مراد ہیں۔ حق جل شانہ کا یہ ارشاد ثم اور ثنا الکتٰب الذین اصطفینا جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے وارث بنایا اپنی کتاب کا ان بندوں کو جن کو ہم نے چھانٹ لیا۔ اس جگہ وراثت مالی کا احتمال بھی نہیں ہوسکتا۔ دوسری جگہ ارشاد ہے۔ فخلف من م بعدھم خلف و رثوا الکتٰب یہاں بھی وراثت کتاب سے علم کتاب کی وراثت مراد ہے۔ نیز اول میں بعد عبادنا کے۔ فمنھم ظالم لنفسہٖ الخ وارد ہے اور دوسری آیت میں بعد کتاب کے یا خذون عرض ھٰذا الادنٰی وارد ہوا ہے۔ سو فمنھم کی تفریح سے ظاہر ہے کہ عطائے کتاب کے بعد لوگ تین حال پر ہوگئے کوئی ظالم رہا اور کوئی مقتصد اور کوئی سابق بالخیر۔ سو یہ تفریح کتاب کی وراثت علمی پر ہے نہ کہ اوراق کتاب اور اس کی قیمت پر۔ شیعوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ لفظ وراثت دراصل وراثت مال کے لیے وضع ہوا ہے۔ بالکل غلط ہے۔ وراثت کا اطلاق وراثت علم اور وراثت منصب اور وراثت تولیت اور وراثت خلافت بمعنی قائم مقامی و تسلط سب پر شائع اور ذائع ہے۔ قال تعالیٰ و اور ثنا القوم الذین کانوا یستضعفون مشارق الارض و مغار بھا التی بارکنا فیھا اس کتاب میں بنی اسرائیل کا قوم فرعون کا وارث ہونا یعنی ان کے ہلاک اور غرقابی کے بعد ان کا قائم مقام ہونا مراد ہے۔ مالی وراثت مراد نہیں، مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوتا اور علیٰ ہذا القیاس ان الارض للٰہ یورثھا من یشآء من عبادہٖ یہاں وراثت ارضی سے ان کا قائم مقام بنانا مراد ہے اور تلک الجنۃ التی نورث من عبادنا من کان تقیا سو اس آیت میں جنت کی وراثت سے قائم مقام ہونے کے معنی مراد نہیں بلکہ اہل ایمان کو حاوی اور مسلط کردینے کے معنی مراد ہیں۔ اور حدیث العلماء ورثۃ الانبیاء شیعوں کے نزدیک بھی مسلم ہے اور ظاہر ہے کہ اس حدیث میں وراثت سے علم اور حکمت کی وراثت مراد ہے اور علیٰ ہذا وورث سلیمان داود میں علم و نبوت اور کمالات نفسانی کی وراثت مراد ہے۔ وراثت مالی مراد نہیں کیونکہ باجماع اہل تاریخ داؤد (علیہ السلام) کے انیس بیٹے تھے۔ سب کے سب باپ کے وارث ہوئے۔ سلیمان (علیہ السلام) کی کیا خصوصیت کہ جو خاص ان کی وراثت کا ذکر فرمایا۔ وہ وراثت علم و نبوت ہے جس میں ان کے دوسرے بھائی شریک نہ تھے۔ حق تعالیٰ نے بواسطہ فرشتہ کے فرمایا اے زکریا ہم نے تمہاری دعا قبول کی ہم تجھ کو ایک لڑکے کے پیدا ہونے کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہوگا۔ اس سے پہلے ہم نے کوئی ان کا ہمنام یا ہم صفت پیدا نہیں کیا۔ یعنی اس سے پہلے ہم نے یہ نام کسی کا نہیں رکھا یا یہ معنی ہیں کہ اس سے پہلے ہم نے اس صفت اور شان کا نہیں بنایا۔ مطلب یہ ہے کہ صفت عفت اور پاکدامنی اور نزاہت میں ان کا مثل نہیں بنایا یعنی ان کی طبیعت کو عورتوں کی طرف نفسانی اور طبعی میلان سے پاک کردیا۔ زکریا (علیہ السلام) نے جب یہ عظیم بشارت سنی تو فرط مسرت سے بطور تعجب عرض کیا اے میرے پروردگار میرے کہاں سے لڑکا پیدا ہوگا ؟ کیا میں جوان بنا دیا جاؤں گا یا اسی بڑھاپے کی حالت میں بچہ ہوگا ؟ اور حق تعالیٰ کی طرف سے جب یہ عظیم بشارت ملی تو فرط مسرت سے مزید طمانیت کے لیے اور استلذاذ کے طور پر اس کے متعلق سوالات شروع کیے کہ کیسے ہوگا اور کس طرح ہوگا۔ اور میری عورت تو شروع ہی سے بانجھ ہے اور میں بڑھاپے کی انتہا کو پہنچ چکا ہوں۔ معلوم نہیں کہ بحالت موجودہ کس طرح اولاد ہوگی۔ فرشتہ نے زکریہ (علیہ السلام) کو جواب دیا کہ تعجب مت کرو۔ اسی طرح ہوگا اور بحالت موجودہ تمہارے بیٹا ہوگا۔ تیرا پروردگار فرماتا ہے کہ یہ کام مجھ پر آسان اور تحقیق اس سے پہلے میں تجھ کو پیدا کرچکا ہوں اور تو اس سے پہلے کوئی چیز نہ تھا۔ پس جو خدا عدم محض سے پیدا کرنے پر قادر ہے اسے بڑھاپے میں لڑکا پیدا کرنا کیا مشکل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کو اختیار ہے کہ جس عمر میں چاہے اولاد عطا فرما دے۔ کسی خاص عمر میں اولاد کا پیدا ہونا مادہ اور طبیعت کا اقتضاء نہیں۔ صرف اللہ کے ارادہ اور مشیت سے ہے وہ تو بغیر ماں باپ کے بھی پیدا کرنے پر قادر ہے۔ بوڑھے ماں باپ سے اولاد پیدا کرنا اسے کیا مشکل ہے۔ زکریا (علیہ السلام) کو جب اطمینان ہوگیا تو عرض کیا کہ اے میرے پروردگار اس وعدہ پر میرا دل مطمئن ہوگیا ہے۔ لیکن میرے لیے کوئی نشانی مقرر فرما دیجیے جو تیری بشارت کی آمد کی علامت ہو جسے معلوم ہوجائے کہ تیرے وعدہ کے ظہور کا وقت اب قریب آگیا ہے تاکہ تیرے شکر میں مشغول ہوجاؤں۔ فرمایا تیری نشانی یہ ہے کہ تو تین دن اور تین رات لوگوں سے بات نہ کرسکے گا۔ حالانکہ تو بھلا چنگا صحیح اور تندرست ہوگا۔ یعنی بات نہ کر سکنا کسی مرض اور عذر کی وجہ سے نہ ہوگا بلکہ وہ حمل اور ولادت کی علامت ہوگی۔ یعنی باوجود یکہ تو نہ گونگا ہوگا اور نہ تیری زبان میں نقص اور عیب ہوگا۔ تو بلا کسی مرض اور علت کے تین رات باوجود یکہ تو نہ گونگا ہوگا اور نہ تیری زبان میں کوئی نقص اور عیب ہوگا۔ تو بلا کسی مرض اور علت کے تین رات تک ایک لفظ بھی زبان سے نہ نکال سکے گا۔ تیری زبان بالکل بند ہوجائے گی اور تو لوگوں سے اشارے سے بات کرسکے گا۔ مگر باوجود اس کے اللہ کے ذکر پر تجھے قدرت ہوگی۔ اور یہ تیری عورت کے حمل کی نشانی ہوگی۔ چناچہ ایسا ہی ہوا کہ اللہ کے ذکر میں تو زکریا (علیہ السلام) کی زبان چلتی مگر جب لوگوں سے کچھ کہنا چاہتے تو بند ہوجاتی۔ تین دن اور تین رات برابر یہی کیفیت رہی جب لوگوں سے بات کرتے تو اشارہ سے بات کرتے تھے۔ جیسا کہ فرماتے ہیں۔ پس جب وہ وقت آیا تو زکریا (علیہ السلام) مسجد کی محراب سے اپنی قوم کے سامنے برآمد ہوئے اور زبان گفتگو سے رک گئی سمجھ گئے کہ بشارت کا وقت قریب آگیا۔ باہر لوگ منتظر تھے دیکھا کہ چہرہ متغیر ہے۔ لوگوں نے پوچھا کہ اے نبی اللہ تم کو کیا ہوا ؟ تو اس وقت اپنی قوم کو آہستہ اشارہ سے بتایا کہ صبح شام اللہ کی تسبیح پڑھا کرو۔ مطلب یہ ہے کہ حسب سابق اللہ کے ذکر اور اس کی عبادت میں مشغول رہو یا یہ مطلب ہے کہ اس جدید نعمت کے شکر میں مزید تسبیح وتحمید میں مشغول ہوجاؤ۔ میں بھی اللہ کی حمد وثناء میں مشغول ہوں سب کو چاہیے کہ میرے ساتھ مل کر اللہ کے ذکر میں مشغول ہوں۔ غرض یہ کہ ہم نے حسب وعدہ اور حسب بشارت زکریا (علیہ السلام) کو ایک فرزند عطا کیا۔ جس کا نام یحییٰ تھا۔ اور جب یحییٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے اور سن شعور کو پہنچے تو ہم نے ان سے کہا اے یحییٰ کتاب تورات کو مضبوطی کے ساتھ تھام لے۔ یعنی اس پر پوری طرح عمل کرنے کی کوشش کرو اور ہم نے اس کو لڑکپن ہی سے فہم و دانش اور علم اور فراست صادقہ اور معرفت کا ملہ دی تھی۔ چناچہ ایک مرتبہ بچپن میں لڑکوں نے آپ کو کھیلنے کے لیے بلایا۔ تو آپ (علیہ السلام) نے یہ کہا کہ ہم کھیل کے لیے پیدا نہیں ہوئے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ ” حکم “ سے حلم اور وقار اور سکون کے مراد ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ یحییٰ (علیہ السلام) کو ہم نے بچپن ہی سے علم و حکمت عطا کیا تھا تاکہ وہ احکام شریعت کو خوب سمجھ سکیں۔ یہ ایک صفت ہوئی۔ اور دوسری صفت یحییٰ (علیہ السلام) کو یہ عطا ہوئی کہ ہم نے اپنے پاس سے ان کو شفقت اور نرم دلی عطا کی یعنی بڑے رقیق القلب تھے۔ لوگوں پر شفقت فرماتے اور جب نماز پڑھتے تو زار و قطار روتے اور تیسری صفت ان کو یہ عطا کی کہ ان کو پاکیزگی اور پاک دلی عطا کی۔ زکوٰۃ سے طہارت قلب مراد ہے کہ دل گناہوں کے میلان سے پاک ہوجائے اور بعض کہتے ہیں کہ زکوٰۃ سے عمل صالح مراد ہے۔ اور چوتھی صفت ان کی یہ تھی کہ وہ طبعی اور جبلی طور پر پرہیزگار تھے خوف خداوندی کبھی ان کے دل سے جدا نہ ہوتا تھا۔ اور پانچویں صفت ان کی یہ تھی کہ وہ اپنے والدین کے بڑے خدمت گزار تھے۔ اللہ پاک کی عبادت کے بعد والدین کی خدمت سے بڑھ کر کوئی طاعت نہیں۔ کما قال تعالیٰ وقضٰی ربک الا تعبدوآ الآ ایاہ و بالوالدین احسانا اور چھٹی صفت ان کی یہ تھی کہ وہ سرکش اور نافرمان نہ تھے۔ یعنی تکبر اور نافرمانی کے شائبہ سے بھی پاک تھے۔ اور ساتویں صفت جو ان کو عطا ہوئی وہ یہ تھی کہ ان پر اللہ کا سلام ہے۔ اور اس کی سلامتی ہے جس دن پیدا ہوا اور جس دن وہ مرے گا۔ اور جس دن اٹھایا جائے گا۔ مطلب یہ ہے کہ اول تا آخر اللہ کی حفاظت میں محفوظ و مامون رہیں گے۔ اللہ کا سلام حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کے طرفین حیات کو محیط ہے۔ جو ان کی فضیلت کی خاص دلیل ہے۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ (علیہ السلام) پر تین سلام ذکر فرمائے پہلا سلام تو سلام تربیت ہے اور دوسرا سلام، سلام عصمت ہے اور تیسرا سلام، سلام فضل و مشاہدہ ہے۔ تمتہ : یحییٰ (علیہ السلام) بالاتفاق شہید ہوئے۔ یہود نے ان کو قتل کیا اور زکریا (علیہ السلام) کی وفات کے بارے میں اختلاف ہے کہ آیا وہ طبعی موت سے مرے یا وہ بھی شہید ہوئے۔ وھب ؓ کی ایک روایت میں ہے کہ یہود نے جب یحییٰ (علیہ السلام) کو قتل کردیا تو زکریا (علیہ السلام) کی طرف متوجہ ہوئے کہ ان کو بھی قتل کریں۔ زکریا (علیہ السلام) نے جب یہ دیکھا تو بھاگے۔ اور ایک درخت کے شگاف میں داخل ہوگئے۔ یہود نے آکر اس درخت پر آرا چلا دیا اور درخت کے ساتھ ان کے دو ٹکڑے کر دئیے۔ زکریا (علیہ السلام) نے صبر کیا اور اف تک نہ کی۔ (البدایہ والنہایہ ص 51 ج 2) قصۂ دوم حضرت عیسیٰ و مریم (علیہما السلام)
Top