Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 31
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
قُلْ : آپ کہ دیں اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو تُحِبُّوْنَ : محبت رکھتے اللّٰهَ : اللہ فَاتَّبِعُوْنِيْ : تو میری پیروی کرو يُحْبِبْكُمُ : تم سے محبت کریگا اللّٰهُ : اللہ وَيَغْفِرْ لَكُمْ : اور تمہیں بخشدے گا ذُنُوْبَكُمْ : گناہ تمہارے وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
کہہ دو ، اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم کو دوست رکھے گا اور تمہارے گناہوں کو بخشے گا، اللہ بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
تفسیر آیت 31-32 اہل ایمان کے لیے صحیح روش : یہ ان مذبذب قسم کے مسلمانوں کو اس صحیح رویے کی تعلیم دی گئی ہے جو سچے مسلم کی حیثیت سے انہیں اختیار کرنا چاہیے۔ فرمایا کہ اگر تم اللہ کے ساتھ محبت رکھنے کے مدعی ہو تو اس محبت کے ساتھ ان لوگوں کی محبت جمع نہیں ہوسکتی جو اللہ کے، اس کی کتاب کے اور اس کے دین کے دشمن ہیں بلکہ اس کا راستہ یہ ہے کہ اللہ کے رسول کی پیروی کرو۔ اگر تم رسول کی پیروی کرو گے تو یہی راستہ اللہ سے محبت کرنے کا ہے اور اس کا انعام یہ ہے کہ اللہ بھی تم سے محبت کرے گا اور اب تک تم سے جو غلطیاں اور کمزوریاں صادر ہوئی ہیں ان کو معاف فرما دے گا۔ اللہ غفور رحیم ہے۔ اس کے بعد نہایت واضح الفاظ اور تہدید آمیز انداز میں پیغمبر ﷺ کی زبان سے یہ اعلان کرادیا کہ ان کو خبردار کردو کہ سیدھے سیدھے اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کریں اور اگر وہ اس چیز سے اعراض کرتے ہیں تو یاد رکھیں کہ وہ بھی انہی کافروں میں شامل ہیں جن سے ان کا یارانہ ہے اور اس کے ساتھ اس بات کو بھی یاد رکھیں کہ اللہ کافروں کو کو بھی دوست نہیں رکھتا۔ ان دونوں آیتوں میں بعض باتیں خاص طور پر ملحوظ رکھنے کی ہیں۔ ایک یہ کہ ان دونوں کا لب و لہجہ الگ الگ ہے۔ پہلی آیت میں شفقت ہے اور دوسری میں تنبیہ بلکہ تہدید۔ گویا درشتی و رنمی بہم دربہ است۔ دوسری یہ کہ ایمان کی اصل روح اللہ کی محبت ہے اور اس محبت کے لیے یہ شرط ہے کہ اس کے ساتھ کوئی ایسی محبت جمع نہ ہونے پائے جو اس کے ضد ہو۔ تیسری یہ کہ اللہ سے محبت کرنے کا واحد راستہ رسول کی پیروی ہے، اس سے ہٹ کر جو راستے نکالے گئے ہیں وہ سب بدعت و ضلالت ہیں۔ چوتھی یہ کہ خدا کی محبوبیت کا راستہ بھی رسول کی پیروی ہی ہے۔ اگر کسی شخص کی زندگی رسول کی سنت سے منحرف ہو اور وہ اس زعم میں مبتلا ہو کہ وہ خدا کا محبوب ہے یا دوسرے اس کو محبوب خدا سمجھیں تو یہ بالکل خطب ہے۔ پانچویں یہ کہ دین کا کم سے کم مطالبہ اللہ و رسول کی اطاعت ہے۔ اگر کوئی شخص یہ مطالبہ پورا کرنے سے اعراض اختیار کرتا ہے تو اس کا شمار دین کے منکروں میں ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے محبت نہیں رکھتا۔ آگلی آیات 33 تا 44 کا مضمون : آیت 32 پر سورة کی تمہید ختم ہوئی۔ اب آگے نصاری کی بدعات کی تردید شروع ہورہی ہے جو اس سورة میں اصل مضمون کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کا آغاز بھی ایک تمہید سے ہوا ہے۔ پہلے اس سلسلہ رشد و ہدایت کا حوالہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کی رہنمائی کے لیے قائم فرمایا۔ اس ذیل میں حضرت آدم، حضرت نوح، آل ابراہیم اور آل عمران کا ذکر ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیا کی امامت و ہدایت کے لیے منتخب فرمایا۔ اس زمرے میں آل عمران کا ذکر خاص طور پر سیدنا مسیح کے ذکر کی گویا تمہید ہے اس لیے کہ اسی مبارک خاندان کی چشم و چراغ حضرت مریم ہیں اور انہی حضرت مریم کے بطن سے سیدنا مسیح کی ولادت با سعادت ہوئی۔ مقصود حضرت آدم سے لے کر آل ابراہیم و آل عمران تک کے اس شجرے کا حوالہ دینے سے یہ ہے کہ حضرت مسیح اور ان کی والدہ ماجدہ حضرت مریم کے متعلق نصاری کے سامنے یہ بات واضح طور پر آجائے کہ ان کی اپنی مانی ہوئی تاریخ سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ نہیں ہے کہ حضرت مسیح یا ان کی والدہ کوئی مافوق بشر ہستی ہیں بلکہ ان کا تعلق بھی رشد و ہدایت کے اسی سلسلۃ الذہب سے ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی ہدایت کے لیے منتخب فرمایا۔ اس مبارک خانوادہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارشاد و ہدایت کے لیے برگزیدگی کا شرف ضرور حاصل ہوا لیکن یہ برگزیدگی اللہ کی بندگی اور اس کی بندگی کی دعوت کے لیے تھی، جس طرح اس سلسلے میں دوسرے اللہ کے برگزیدہ بندے ہیں اسی طرح حضرت مسیح ؑ بھی خدا کے ایک برگزیدہ بندے ہیں۔ پھر ان کو اور ان کی والدہ کو الوہیت کا درجہ دینے کا جواز کہاں سے پیدا ہوتا ہے۔ آگے حضرت مریم (علیہا السلام) کی ابتدائی زندگی کے واقعات کا حوالہ ہے کہ ان کی ولادت سے پہلے کس طرح ان کی والدہ نے اپنے پیٹ کے بچے کے لیے ایک منت مانی، پھر جب توقع کے خلاف ان کے ہاں لڑکی کی ولادت ہوئی تو انہیں کس نوعیت کا اضطراب پیش آیا پھر اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ اضطراب کس طرح دور فرمایا، حضرت زکریا نے ان کو کس طرح اپنی تربیت میں لیا اور کس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی قبولیت سے نوازا، یہاں تک کہ ان کے روحانی فیوض و برکات سے حضرت زکریا جیسے صاحب فیوض و برکات بھی اس درجہ متاثر ہوئے کہ انہوں نے اپنے لیے بھی اولادِ صالح کی دعا مانگی۔ حضرت مریم (علیہا السلام) کی اس سرگزشت کا حوالہ دینے سے مقصود نصاری پر یہ حقیقت واضح کرنا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی ایک پاکیزہ خصائل تابعدار اور فرمانبردار بندی کی سرگزشت ہے نہ کہ ان کے زعم کے مطابق نعوذ باللہ خدا کی ماں کی ! اس کے بعد حضرت زکریا کی دعا کی قبولیت کا ذکر ہے باوجودیکہ وہ خود بڑھاپے کی آخر منزل میں داخل ہوچکے تھے اور ان کی بیوی بھی بانجھ تھیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو حضرت یحییٰ ؑ کی ولادت کی بشارت دی اور وہ اس بشارت کے بموجب پیدا ہوئے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خارق عادت ولادت اللہ تعالیٰ کی قدرت کی ایک نشانی ہے، اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ جس کی ولادت اسباب کے عام ضابطے کے خلاف ہو اس کو خدا یا اوتار بنا دیا جائے۔ اگر نصاری حضرت عیسیٰ ؑ کی خارق عادت ولادت کی دلیل پر ان کو خدا بنا بیٹھے تو یہ دلیل تو حضرت یحییٰ کے حق میں بھی موجود ہے ! اس روشنی میں اب ابطالِ نصرانیت کی اس تمہید کو پڑھیے۔ ارشاد ہوتا ہے !
Top