Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 31
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
قُلْ : آپ کہ دیں اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو تُحِبُّوْنَ : محبت رکھتے اللّٰهَ : اللہ فَاتَّبِعُوْنِيْ : تو میری پیروی کرو يُحْبِبْكُمُ : تم سے محبت کریگا اللّٰهُ : اللہ وَيَغْفِرْ لَكُمْ : اور تمہیں بخشدے گا ذُنُوْبَكُمْ : گناہ تمہارے وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو،80 ۔ تو میری پیروی کرو،81 ۔ اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا،82 ۔ اور تمہارے گناہ بخش دے گا، اللہ بڑا بخشنے والا ہے بڑا مہربان ہے،83 ۔
80 ۔ (جیسا کہ تمہارا دعوی ہے۔ اور اپنے اسی زعم کی بنا پر جو توقع رکھتے ہو، کہ اللہ بھی تم سے محبت کرے گا) خطاب رسول اللہ ﷺ کے واسطہ سے عامۃ الناس سے ہے۔ (آیت) ”۔ تحبون “۔ محبت کے جو معنی عربی میں ہیں اس میں ارادہ کا شمول ضروری ہے۔ قال ابن عرفۃ المحبۃ عند العرب ارادۃ الشئی علی قصدلہ (قرطبی) 81 ۔ (کہ میں جامع کمالات انسانی بنا کر بھیجا گیا ہوں اور میری زندگی ساری کائنات انسانی کے لئے ہر شعبہ میں معیار اور نمونہ کا کام دے گی) محبت الہی کے دعوی کی جانچ کے لیے کیا اچھا معیار بتادیا گیا۔ یعنی اتباع رسول اللہ ﷺ جو جتنا زیادہ متبع رسول اللہ ﷺ ہوگا اسی قدر اس کی محبت الہی مسلم ومعتبر ہوگی، اسی معیار پر آج بڑے بڑے مدعیان مشیخت ومدعیان محبت الہی کے دعو وں کو جانچئے توبہتوں کی قلعی کھل کر رہے۔ 82 ۔ (کہ اس کے آگے اور کوئی درجہ کمال نہیں) یہ طریقہ جو پچھلوں کو بتایا گیا، یہی آواز اگلوں کے کان میں ڈال دی گئی ہے۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے جو الفاظ اناجیل مروجہ میں نقل ہوئے ہیں۔ حسب ذیل ہیں :۔ ” اگر تم مجھ سے محبت رکھتے ہو تو میرے حکموں پر عمل کرو گے اور میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ آیا ہے “۔ (یوحنا 14: 15، 16) یہ مددگار کا لفظ اردو انجیلوں کے متن میں ہے۔ حاشیہ پر وکیل اور شفیع دونوں لفظ درج ہیں گویا اصل یونانی لفظ کے یہ سب معنی ہوسکتے ہیں۔ انگریزی انجیل میں لفظ ” کمفارٹر “ (Comforter) آیا ہے جس کے معنی تسلی دہندہ کے ہیں، اس پیشگوئی کرنے والے مسیح (علیہ السلام) کے پانچ صدی بعد آیا۔ اور ایک ابدی اور غیر منسوخ شریعت لے کر ابد تک ساتھ رہنے ہی کے لیے آیا۔ اور اسی حیثیت کو نمایاں کرنے کے لیے خاتم النبیین کہلایا۔ پر صلیب کے پرستاروں اور مسیح (علیہ السلام) کی عبادت کرنے والوں نے اسے برابر جھٹلایا۔ (آیت) ” یحببکم اللہ “۔ اللہ کی محبت بندہ کے ساتھ یہی ہے کہ اسے مغفرت سے سرفراز فرمائے۔ محبۃ اللہ للعباد انعامہ علیہ بالغفران (قرطبی) 83 ۔ (آیت) ” غفور “۔ اس کی شان غفر کا تقاضا ہے کہ تمہارے معاصی ” ذنوب “۔ کی مغفرت کردے گا۔ (آیت) ” رحیم “۔ سو اس کی شان رحمت کا تقاضا ہے کہ وہ خود تم سے محبت کرنے لگے گا۔ (آیت) ” یغفرلکم ذنوبکم “۔ وہ تمہاری تقصیروں کو نظر انداز کردے گا اور تمہارے مراتب قرب میں ذرا کمی نہیں آنے دے گا۔
Top