Maarif-ul-Quran - Az-Zukhruf : 65
فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ مِنْۢ بَیْنِهِمْ١ۚ فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْ عَذَابِ یَوْمٍ اَلِیْمٍ
فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ : پس اختلاف کیا گروہوں نے مِنْۢ بَيْنِهِمْ : ان کے درمیان سے فَوَيْلٌ لِّلَّذِيْنَ : پس ہلاکت ہے ان لوگوں کے لیے ظَلَمُوْا : جنہوں نے ظلم کیا مِنْ عَذَابِ : عذاب سے يَوْمٍ اَلِيْمٍ : دردناک دن کے
پھر کتنے فرقے ان میں سے پھٹ گئے سو جو لوگ ظالم ہیں ان کی درد دینے والے دن کے عذاب سے خرابی ہے
تنبیہ بر مخالفت از حق وبیان انعام واکرام مطیعین وذلت وناکامی مجرمین : قال اللہ تعالیٰ : (آیت ) ” فاختلف الاحزاب من بینھم ...... الی ...... فسوف یعلمون “۔ (ربط) آیات سابقہ میں مشرکین مکہ کے ایک لغو اور مہمل اعتراض کا جواب دیتے ہوئے حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کی دعوت توحید کا ذکر تھا اور یہ کہ ان کی زندگی کو اللہ نے اپنی قدرت کی ایک عظیم نشانی بنایا تھا، جب تک زمین پر رہے اللہ کی نشانیاں دکھاتے ہوئے اپنی قوم کو توحید ہی کی دعوت دی، اور جب قیامت کے قریب آسمان سے نزول فرمائیں گے تب بھی وہ یہی دعوت توحید دیتے ہوں گے، ان کی تعلیم وہدایت میں نہ کوئی ابہام تھا اور نہ اس سے اختلاف کی کوئی گنجائش تھی، اب ان آیات میں اہل کتاب کے مختلف گروہوں اور ان کے حق سے مخالفت کا بیان ہے، اور ساتھ اس پر تنبیہ کی جارہی ہے کہ ایسے لوگوں کو اپنے انجام سے ہرگز غافل نہ ہونا چاہئے، تو فرمایا۔ پھر مختلف گروہ ہوگئے ان کے درمیان حالانکہ اہل کتاب کو ایک ہی دین پر متفق ہونا چاہئے تھا لیکن یہود ان کے منکر ہوئے اور نصاری قائل ہوئے، مگر قائل ہونے اور عقیدت رکھنے کے باوجود خود نصاری میں بہت سے فرقے ہوگئے کسی نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا قرار دیا، کسی نے ان کو تین خداؤں میں سے ایک کہا، اور کسی نے کہا (آیت ) ” ان اللہ ھو المسیح بن مریم “ کہ اللہ تو مسیح ہی ہے، سو ہلاکت ہے ان ظالموں کے لیے ایک درد ناک دن کے عذاب سے، قدرت کی نشانیاں اور مجرمین پر مختلف اوقات میں قہر و عذاب کا نزول تو اس امر کے لیے کافی تھا کہ ایسے لوگ عبرت حاصل کرلیتے لیکن افسوس ایسے لوگ کسی طرح بھی اپنی باغیانہ روش نہیں چھوڑتے تو کیا یہ بس قیامت ہی کا انتظار کررہے ہیں کہ ان پر وہ ناگہاں آجائے اور حال یہ کہ ان کو خبر بھی نہ ہو کہ قیامت آرہی ہے، قیامت کا دن جس بےچینی اور گھبراہٹ کا دن ہوگا اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، وہ دن تو ایسا ہوگا تمام دوست اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے بجز ان لوگوں کے جو تقوی والے ہیں ہر دوست اپنے دوسرے دوست سے بیگانہ وبیزار ہوگا، البتہ اہل ایمان وتقوی دنیا کی دوستی کو وہاں بھی یاد رکھتے ہوئے اپنے دوستوں کو پوچھتے ہوں گے اور یاد کرتے ہوں گے۔ 1 حاشیہ (اس آیت کی تفسیر میں حافظ ابن کثیررحمۃ اللہ علیہ نے حضرت علی (علیہ السلام) سے ایک روایت میں آنحضرت ﷺ سے یہ بیان فرمایا کہ دو دوست ایماندار ہوں گے، اور دو دوست کافر۔ مومن دوستوں میں سے جب ایک کا انتقال ہوا اور اس کو جنت کی بشارت سنائی گئی تو اس نے اپنے دوست کو یاد کیا اور کہا کہ اے پروردگار فلاں میرا دوست مجھ کو تیری اطاعت و بندگی کا اور تیرے رسول ﷺ کی فرمانبرداری کا حکم کرتا تھا اور مجھ کو خیر پر آمادہ کرتا اور برائیوں سے روکتا تھا، اور مجھ کر بتاتا تھا کہ میں تجھ سے ملاقات کرنے والا ہوں تو اے اللہ ! تو میرے اس مومن دوست کو میرے بعد گمراہی سے محفوظ رکھنا یہاں تک کہ تو اس کو ایسی ہی نعمتیں دکھا دے جیسی نعمتیں تو نے مجھے دکھائیں، اور تو اس سے ایسے ہی راضی ہوجائے جیسے تو مجھ سے راضی ہوا، اس بات پر اس سے کہا جائے گا کہ اگر تیرا ساتھی ایسا ہی ہے تو اس کے واسطے بھی یہی نعمتیں ہیں، پھر جب دوسرا ساتھی اس کا انتقال کرے گا، تو دونوں کی روحیں جمع ہوں گی اور ہر ایک دوسرے کو کہے گا کہ تو میرا انتقال ہوا اور اس کو جہنم کی خبر دی گئی تو وہ کہے گا کہ اے پروردگار میرا فلاں دوست مجھے تیری اور تیرے رسول ﷺ کی معصیت کی ترغیب دیتا تھا اور مجھے شرپر آمادہ کرتا اور خیر سے روکتا تھا اور کہتا تھا اور کہتا تھا کہ میں تجھ سے نہیں ملوں گا، تو اے اللہ تو اس کو ہدایت سے محروم رکھ اور ایسا عذاب دے جیسا تو نے مجھے دیا اور یہ کافر اپنے دوست پر غصہ ہوگا۔ اور اس پر لعنت وملامت کرتا ہوگا، ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر دو شخصوں کے درمیان اللہ کے لیے محبت ہو ان میں سے ایک مشرق اور دوسرا مغرب میں ہو تو بھی اللہ ان دونوں کو قیامت میں جمع کرے گا۔ ) تو ایسے ایمان وتقوی والوں کو پروردگار عالم کی طرف سے کہا جاتا ہوگا، اے میرے بندو کوئی خوف نہیں تم پر آج کے دن اور نہ ہی تم غمگین ہوگے میرا یہ پیغام میرے ان بندوں کے واسطے ہے تو ہماری آیتوں پر ایمان لائے اور ہمارے فرمانبردار رہے، ان کو ہماری طرف سے یہ بشارت ہے کہ داخل ہوجاؤ جنت میں تم اور تمہاری بیویاں اس طرح کہ تم عزت واکرام اور راحت ومسرت کے ساتھ ہوگھمائے جاتے ہوں گے، ان پر پیالے یا رکابیاں سونے کے اور آبخورے اور وہاں ان کے واسطے ہر وہ چیز ہوگی جس کے لیے ان کا دل چاہے اور ہر وہ چیز جس سے آنکھیں لذت حاصل کریں، وہ لذتیں جو اہل ایمان کو آخرت میں عطا کی جائیں گی۔ اور اے میرے بندو ! تم ان جنتوں میں ہمیشہ رہو گے، اور یہ جنتیں جن کا تمہیں وارث بنایا گیا ہے، ان اعمال کی وجہ سے جو دنیا میں کیا کرتے تھے، تمہارے واسطے ان میں بہت سے پھل اور میوے جن کو تم کھاتے رہو گے، اس کے برعکس مجر میں و نا فرما نوں کی ذ لت و معصیت کا یہ عا لم ہوگا کہ بیشک یہ مجر میں دو زخ کے عذ اب میں ہمیشہ مبتلا رہنے والے ہوں گے اس حال میں کہ وہ عذاب ان سے کسی وقت ہلکا ہوگا اور نہ منقطع ہوگا، بلکہ مسلسل اسی شدت و عظمت کے ساتھ جارہی رہے گا، اور وہ اسی میں رہیں گے، تمام امیدوں کے ختم ہوجانے کے بعد مایوسی کے عالم میں یہ سب کچھ بلاشبہ ان کے اعمال اور نافرمانیوں کا انجام ہے، اور ہم نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا، لیکن وہی اپنے اوپر ظلم کرنے والے تھے ، اہل جہنم جب ہر طرف سے مایوس ہوچکیں گے اور کسی طرح اس بات کی امید نہ رہے گی کہ یہ عذاب ٹل جائے، یا کم ازکم ہلکا ہی کردیا جائے تو اس بےقرارہی میں داروغہ جہنم کی طرف متوجہ ہوں گے اور پکاریں گے، اے مالک اب ہم میں طاقت برداشت نہیں، کہیں کہ ہم پر فیصلہ کردے آپ کا رب کہ ہمارا کام تمام ہی کردیا جائے کہ یہ عذاب یا تو ہمارا قصہ ہی ختم کردے یا ہم پر موت ہی آجائے تاکہ مر کر ہی اس مصیبت سے چھٹکا را نصیب ہوجائے، مالک جواب دے گا، ایک طویل وقت گذرنے کے بعد جب کہ عذاب کی شدت کے علاوہ جواب کے انتظار کی بھی مزید بےچینی ہوگی، آگاہ ہوجاؤ بیشک تمہیں یہاں ہمیشہ رہنا ہے اب چیخنے چلانے سے کوئی فائدہ نہیں، ہم تو تمہارے پاس حق لیکر آئے، لیکن تم میں سے بہت لوگ حق سے نفرت ہی کرتے رہے۔ کفار مکہ کو چاہئے کہ ان باتوں کو سن کر خدا کے عذاب سے ڈریں اس کی نافرمانی اور اس کے پیغمبر کی مخالفت وعداوت سے باز آجائیں اگر ایسا نہیں کرتے تو پھر سوچ لیں کیا انہوں نے ٹھیرالی ہے کوئی بات ؟ اگر اس پر یہ بھروسہ کرکے سمجھ رہے ہوں کہ ہم کامیاب ہوجائیں گے اور اللہ کے پیغمبر ﷺ کو ناکام بنادیں گے، اگر ایسا ہے تو پھر سن لینا چاہئے، ہم بھی کوئی بات ٹھیراتے ہیں، اور ظاہر یہ ہے کہ ان کی تدبیر اور سازش اللہ کی تدبیر پر ہرگز غالب نہیں آسکتی، کیا یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نہیں سنتے ہیں، ان کے خفیہ راز اور ان کی آپس کی سرگوشیوں کو، بیشک ہم خوب جانتے ہیں، اور خوب سنتے ہیں، اور ہمارے قاصد تو ان کے پاس ہر وقت موجود رہتے ہیں جو ان کی ہر بات اور عمل لکھتے رہتے ہیں، ہمارے سے ان کی کوئی بات چھپی نہیں رہ سکتی، یہ بات دلائل تطعیہ سے روز روشن کی طرح واضح ہے کہ خدا ایک ہے اس کا نہ کوئی بیٹا ہے اور نہ اس کا کوئی شریک ہے، اس لیے ایک اور طریقہ سے ان مشرکین مکہ پر حجت پوری کرنے کی غرض سے آپ کہہ دیجئے اگر بالفرض رحمن کے واسطے کوئی اولاد ہوتی تو میں ہوتا سب سے پہلے اس کو پوجنے والا اور اس کو خدا کے ساتھ شریک قرار دے لیتا لیکن تم دیکھتے ہو کہ میں سوائے اللہ رب العزت کے اور کسی کی عبادت نہیں کرتا اور پھر اے نصاری اور عرب کے مشرکوتم کیسے خدا کے واسطے اولاد تجویز کرتے ہو، خبردار ہرگز ایسا ممکن نہیں بلکہ پاکی ہے آسمانوں اور زمین کے رب کی جو رب ہے عرش عظیم کا، پاکی ہے ہر اس عیب اور شرک کی بات سے جو یہ بیان کرتے ہیں۔ اس صورت حال میں کہ ان بدنصیبوں کی آنکھیں نہ کسی عبرت ناک واقعات سے کھلتی ہیں، اور نہ ہی دلائل وحقائق سے ان کے دل مطمئن ہوتے ہیں، تو چھوڑو ان کو یہ اپنی ان ہی بیہودباتوں میں منہمک رہیں، اور لہو ولعب میں پڑے رہیں، یہاں تک کہ یہ ملاقات کرلیں اپنے اس دن سے کہ جس کا ان سے وعدہ کیا جارہا ہے، کسی بدنصیب کے انکار سے حق تعالیٰ کی ربوبیت اور شان کبریائی پر کوئی اثر نہیں پڑتا، وہ پروردگار معبود ہے آسمان میں اور وہی معبود ہے زمین میں بھی اور وہی ہے بڑی حکمت رکھنے والا باخبر اور بڑی برکت و عظمت والی ہے وہ ذات جس کے واسطے آسمانوں اور زمین کی سلطنت، اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اس کی بھی۔ اور اسی کو ہے قیامت کا علم اور اسی کی طرف اے لوگوں تم سب کو لوٹایا جائے گا، اس عظمت وکبریائی اور قدرت کاملہ اور تمام کائنات پر اس کی سلطنت وحکمرانی کے ہوتے ہوئے اگر چند احمق انسان خدا کی الوہیت کا انکار کریں یا دنیوی مال ومتاع کے نشہ میں مغرور و بدمست ہو کر بیہودہ باتیں کریں تو اس سے نہ اللہ کی وحی پر کوئی اثر پڑ سکتا ہے، اور نہ کوئی اس کے پیغمبر کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اصل نقصان تو ان ہی مجرموں کا ہوگا کہ جب حق تعالیٰ کی گرفت میں آئیں گے، تو کوئی نہ بچانے والا ہوگا، اور نہ کوئی سفارش کرسکے گا، اور جن معبودوں کی یہ مشرکین عبادت کرتے تھے ان کے وہ معبود خود ان سے بیزار ومتنفر ہوں گے اور حال یہ ہوگا کہ نہیں قدرت رکھیں گے سفارش کی وہ معبود جن کو یہ پکارا کرتے تھے، اللہ کو چھوڑ کر مگر ہاں وہ جس نے گواہی دی حق کی اور حال یہ ہے کہ وہ جانتے تھے اور اہل ایمان بیشک اپنے بھائیوں کے آخرت میں کام آئیں گے، اور ان کی شفاعت بھی کریں گے۔ عجیب بات ہے کہ حق تعالیٰ کی توحید والوہیت کا انکار کرنے والے خود دل سے اور اپنی فطرت سے اس کے معترف ہیں کہ دراصل اللہ ہی کائنات کا خالق ومالک اور اس کا نظام چلانے والا ہے، چناچہ اور اگر تم ان سے پوچھو کہ ان کو کس نے پیدا کیا تو کہیں گے اللہ نے پیدا کیا ہے، تو پھر یہ لوگ کہاں بھٹک رہے ہیں، اللہ کے پیغمبر نے دعوت توحید میں کوئی کمی نہیں کی ہر طرح سے سمجھایا، حقائق و دلائل پیش کیے لیکن ہر دلیل اور معجزہ پر انحراف واعراض ہی کرتے رہے، یہاں تک نوبت پہنچی کہ خدا کا پیغمبر حسرت ومایوسی کے عالم میں حق تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی بےبسی کا شکوہ کرنے پر مجبور ہوا، اللہ نے اپنے پیغمبر کی مخلصانہ التجاء اور درد بھری آواز کی قسم کھاتے ہوئے اپنی رحمت ونصرت کی بشارت سنائی اور فرمایا، اور قسم ہے رسول کے اس کہنے کی کہ اے میرے پروردگار یہ قوم تو ایمان لانے کو تیار ہی نہیں تو اے ہمارے پیغمبر آپ ﷺ ان باتوں پر رنجیدہ نہ ہوں اور ان سے درگزر کیجئے اور کہہ دیجئے سلام ہے اور عنقریب ہی یہ لوگ معلوم کرلیں گے کہ دنیا میں کس طرح ذلیل ہوتے ہیں اور آخرت میں کیسے عذاب ومصائب میں مبتلا ہونا ہوگا، حق تعالیٰ نے ان کلمات میں آنحضرت ﷺ کو تسلی دی اور ان مجرموں کے ایمان نہ لانے پر جو صدمہ اور رنج تھا اس کو کم کرنے کی تلقین کے ساتھ لطیف انداز سے یہ بشارت دے دی گئی کہ آپ ﷺ کے دشمنوں اور مخالفوں کو اپنی اس عدوات ومخالفت کا انجام معلوم ہوجائے گا اور اپنی آنکھوں سے اپنی ذلت وناکامی اور اللہ کے پیغمبر کی فتح ونصرت کا مشاہدہ کرلیں گے، چناچہ ایسا ہی ہوا، اللہ رب العزت نے قریش مکہ پر غلبہ عطا فرمایا یہود اور اہل کتاب بھی ذلیل وناکام ہوئے، یہاں تک کہ مکہ اور خیبر فتح ہوا یہود ذلیل ہوئے غلام بنے اور جلاوطن ہوئے اور اس طرح اللہ کا یہ لکھا ہوا فیصلہ (آیت ) ” کتب اللہ لاغلبن انا ورسلی “۔ دنیا کی نظروں کے سامنے آکر رہا ، والحمد للہ علی ذلک صدق اللہ وعدہ ونصر عبدہ وھزم الاحزاب وحدہ قدتم بحمد اللہ تعالیٰ تفسیر سورة الزخرف یوم الاثنین 6 من شھر رجب 1401 ھ ؁ اللہ وفقنی لاتمام ھذا التفسیر المبارک بفضلک ورحمتک انک تھدی من تشآء الی صراط مستقیم :
Top