Urwatul-Wusqaa - Az-Zukhruf : 65
فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ مِنْۢ بَیْنِهِمْ١ۚ فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْ عَذَابِ یَوْمٍ اَلِیْمٍ
فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ : پس اختلاف کیا گروہوں نے مِنْۢ بَيْنِهِمْ : ان کے درمیان سے فَوَيْلٌ لِّلَّذِيْنَ : پس ہلاکت ہے ان لوگوں کے لیے ظَلَمُوْا : جنہوں نے ظلم کیا مِنْ عَذَابِ : عذاب سے يَوْمٍ اَلِيْمٍ : دردناک دن کے
پھر ان میں سے ان کے متعدد فرقے بن گئے پس ان ظالموں کے لیے بڑی خرابی ہے ایک دردناک دن کے عذاب کی
عیسیٰ (علیہ السلام) کے سمجھانے کے باوجود بنی اسرائیل نے آپس میں اختلاف کیا 65 ؎ بنی اسرائیل مسیح (علیہ السلام) کی بعثت سے پہلے ہی بہت سے گروہوں میں تقسیم ہوچکے تھے جیسا کہ پیچھے آیت 63 میں ذکر کیا گیا ہے تاہم ایک عقیدہ ان سب کے ہاں مشترک چلا آرہا تھا اور وہ مسیح (علیہ السلام) کی بعثت کا ہے لیکن جب عیسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوگئے اور وہ ان کی موہوم امیدوں کو پورا نہ کرسکے بلکہ ان سارے فرقوں کو مخاطب کرکے ان کے عقائد پر بحث شروع کردی اور ان کی بنائی ہوئی باتوں کے ساتھ اتفاق نہ کیا تو یہودیوں کے سارے فرقے مخالف ہوگئے اور صرف چند حواری رہ گئے جنہوں نے آپ کی سچے دل سے تصدیق کی اور اس طرح بظاہر دو بڑے گروہ پیدا ہوگئے جو ایک دوسرے کے مخالف تھے ایک بنی اسرائیل کا وہ گروہ جس نے نہ صرف یہ کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا نبی تسلیم نہ کیا بلکہ بہت برے لفظوں سے یاد بھی کیا اور دوسرا وہ گروہ جنہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کو تسلیم کیا اور آپ کی وفات کے ساتھ ہی اس قدر افراط سے کام لیا کہ آپ کو اللہ ! اللہ کا جزو اور بیٹا اور اللہ کے تین اقنوم میں سے ایک اقنوم قرار دے دیا اور اس طرح یہ دونوں بڑے گروہ بالکل آپس میں ایک دوسرے کے مخالف ہوگئے اور اس طرح یہود نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں نہایت تفریط سے کام لیا تو ان کے مقابلہ میں نصاریٰ نے اتنی افراط کردی جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا۔ زیر نظر آیت میں اللہ تعالیٰ نے دونوں گروہوں کو ظالم قرار دیا اور ان کو درد ناک عذاب کی وعید سنائی اور اب ان دونوں گروہوں کے مزید بیسیوں گروہ بن چکے ہی جن کی تفصیلات بہت طویل ہیں اور ان کی تاریخ کو دہرانے کا کوئی فائدہ بھی نہیں اس لیے کہ اب ہم خود کئی گروہوں میں بٹ چکے ہیں اور انہیں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔
Top