Tafseer-e-Madani - Yunus : 58
قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْا١ؕ هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں بِفَضْلِ : فضل سے اللّٰهِ : اللہ وَبِرَحْمَتِهٖ : اور اس کی رحمت سے فَبِذٰلِكَ : سو اس پر فَلْيَفْرَحُوْا : وہ خوشی منائیں ھُوَ : وہ۔ یہ خَيْرٌ : بہتر مِّمَّا : اس سے جو يَجْمَعُوْنَ : وہ جمع کرتے ہیں
(ان سے) کہو کہ اللہ کے اس فضل اور اس کی رحمت پر خوش ہونا چاہیے ان لوگوں کو، کہ یہ اس سے کہیں بہتر ہے جس کو یہ جمع کرنے میں لگے ہوئے ہیں،
100 ۔ نعمت ہدایت متاع دنیا سے کہیں بڑھ کر نعمت : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان سے کہو کہ اللہ کے اس فضل اور اس کی رحمت پر خوش ہونا چاہئے ان لوگوں کو کہ یہ کہیں بہتر ہے اس سے جس کو یہ جمع کرنے اور جوڑنے میں لگے ہوئے ہیں۔ یعنی متاع دنیا کا حطام فانی و زائل کہ وہ بہرحال عارضی اور فانی و چند روزہ ہے۔ جبکہ حق و ہدایت کا یہ نور اور ایمان و یقین کی یہ دولت اس دنیائے فانی کے بعد آنے والے آخرت کے اس عالم جاودانی میں بھی کام آنے والی چیز ہے۔ تو اس کی عظمت کے کیا کہنے۔ فالحمد للہ۔ یہاں پر یہ بھی واضح رہے کہ (قل بفضل اللہ) الخ کی ترکیب و تقدیر میں کئی اقوال و احتمال ہیں جن میں سب سے بہتر اور دل لگتا قول و احتمال یہ ہے کہ اس میں " جآء " مقدر مانا جائے۔ سو تقدیر کلام اس طرح ہوجائے گی " قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَبِرَحْمَتِهٖ جَآءَ " یعنی ان سے کہو کہ یہ قرآن اللہ تعالیٰ کے بہت بڑے فضل اور بےپایاں رحمت کو لے کر نازل ہوا ہے " پس جن کو خوش ہونا ہے وہ اللہ کے اس فضل بےکراں رحمت بےنہایت پر خوش ہوں اور اسی کو اختیار کریں کہ یہ ان کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے بہرہ ور و ہمکنار کرے گی۔ سو یہ متاع دنیا کے ان خزف ریزوں سے کہیں بڑھ کر ہے جن کو جوڑنے اور جمع کرنے میں ابنائے دنیا اور پرستاران مادہ و معدہ محو و منہمک ہیں کہ وہ سب کچھ فانی، وقتی اور زائل ہے جبکہ اصل دولت اور دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرخرو و سرفراز کرنے والی دولت یہی دولت قرآن ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ راہ حق و ہدایت پر مستقیم و گامزن رکھے اور خدمت قرآن میں محو و منہمک رہنے کی توفیق بخشے۔ آمین ثم آمین۔
Top