Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 44
اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَ اَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
اَتَأْمُرُوْنَ : کیا تم حکم دیتے ہو النَّاسَ : لوگ بِاالْبِرِّ : نیکی کا وَتَنْسَوْنَ : اور بھول جاتے ہو اَنْفُسَكُمْ : اپنے آپ کو وَاَنْتُمْ : حالانکہ تم تَتْلُوْنَ الْكِتَابَ : پڑھتے ہو کتاب اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ : کیا پھر تم نہیں سمجھتے
کیا تم لوگ دوسروں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور بھولتے ہو خود اپنے آپ کو (اور غفلت برتتے ہو تم اپنے بھلے سے) درآنحالیکہ تم خود کتاب پڑھتے ہو کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے ہو1
132 اپنی فکر سب سے پہلے کرنے کی ضرورت : ۔ سو اس ارشاد سے دوسروں کو ہدایت کرنے اور خود اپنے آپ کو بھول جانے کی مہلک روش سے بچنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے کہ دوسروں کو تو احکام تورات پر عمل کرنے کی تعلیم دیتے ہو مگر خود ایسا نہیں کرتے۔ یہ خطاب علماء یہود سے ہے۔ (تفسیر کبیر، وغیرہ) مزید یہ کہ جب مشرکین مکہ اور یہود کے اہلِِ ایمان اپنے ان پیشواؤں سے اسلام کی حقانیت اور صداقت کے بارے میں پوچھتے تو وہ ان سے کہتے کہ بیشک یہ وہی نبی ہیں جن سے متعلق پیشگوئیاں ہماری کتابوں میں آئی ہیں، اور یہ وہی آخری پیغمبر اور آخری دین ہے، جس کی ہمیں انتظار تھی، لہذا تم ان پر ایمان لے آؤ مگر خود ایمان نہیں لاتے تھے اس خوف سے کہ اسطرح ان کے دنیاوی مفادات متاثر ہوجائیں گے، اور نذرانے بند ہوجائیں گے، اس پر ان کو اس خطاب سے تنبیہ فرمائی جار ہی ہے، کہ جان بوجھ کر " دیگراں را نصیحت اور خود میاں فضیحت " والا، معاملہ اپنانا کس قدر تعجب خیز اور افسوسناک ہے، (کبیر، مدارک اور قرطبی وغیرہ) ۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر تم خود عمل نہیں کرتے تو دوسروں کو بھی نیکی کی تلقین و تبلیغ کرنا بھی چھوڑ دو ، جیسا کہ بعض لوگ کہتے اور سمجھتے ہیں کیونکہ اسطرح تو تبلیغ کا کام ہی بند ہوجائے گا، کیونکہ ایسا کون ہوگا جو ہر حکم پر خود پوری طرح اور کما حقہ عمل کرتا ہو، سو اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسروں کو نیکی کا حکم دینے سے پہلے خود بھی عمل کرو۔ چناچہ حضرت سعید بن جبیر ؓ کہتے ہیں کہ " اسطرح تو تبلیغ کا کام ہی ختم ہوجائے گا " اور حضرت حسن (رح) فرماتے ہیں کہ " شیطان تو چاہتا ہی یہ ہے کہ لوگ اس طرح کے غلط خیالات میں پڑ کر فریضہء تبلیغ ہی چھوڑ دیں "، پس آیت کریمہ کا اصل مطلب یہ ہے کہ واعظ اور ناصح کو یہ نہیں کرنا چاہیئے کہ دوسروں کو تو حق کی تبلیغ و تلقین کرے، اور خود اس سے محروم رہے، کہ اس میں اس کا اپنا ہی خسارہ ہے بلکہ اس کو پہلے خود اس کا نمونہ بننا چاہیئے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وہو الہادی الی سواء السبیل ۔ بہرکیف اس ارشاد سے اپنی فکر سب سے پہلے کرنے کی ہدایت فرمائی گئی۔ 133 بےعمل علماء وعاظ کو تنبیہ و تذکیر : سو اسمیں ایسے عالموں اور واعظوں کی مذمت موجود ہے جو خود عمل نہیں کرتے، یعنی جب تم لوگ خود کتاب پڑھتے ہو تو پھر بھی تمہارا عمل و کردار یہ ہے، آخر کیوں ؟ سو اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ تم لوگوں کا خود اپنی کتاب پر بھی ایمان و یقین نہیں ورنہ تمہارا حال یہ نہ ہوتا، سو اس میں ان بےعمل علماء و وعاظ کو تنبیہ و تذکیر ہے جو دوسروں کو تو وعظ و نصیحت کرتے ہیں مگر اس پر خود عمل نہیں کرتے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایسے لوگ وعظ ہی چھوڑ دیں۔ نہیں بلکہ اسکا مطلب یہ ہے کہ یہ اپنی بےعملی کو ترک کرکے سچے عمل و کردار کا نمونہ پیش کریں تاکہ دوسروں پر ان کی بات کا اثر ہو اور وہ ان کے اسوہ اور قدوہ پر عمل کریں اور ان کے لئے دوہرے اجر وثواب کا باعث بھی ۔ وباللہ التوفیق لما یجب و یریدہ وہو الہادی الی سواء السبیل ۔ 134 عقل سے صحیح طور پر کام لینے کی تعلیم و تلقین ؟ : کہ اس طرح حق و ہدایت سے منہ موڑتے ہو، حالانکہ نور حق و ہدایت سے محرومی ہر خیر سے محرومی ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور تم لوگ جانتے بوجھتے حق سے محروم رہتے ہو، حالانکہ حق سے محرومی درحقیقت ہر خیر سے محرومی ہے، تو تم کیسے لوگ ہو جو جانتے بوجھتے اتنے بڑے نقصان کو اپناتے ہو، ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ یہود اپنے رشتہ داروں سے کہتے کہ تم محمد پر ایمان لے آؤ کہ وہی پیغمبر آخر الزمان ہیں جن کے بارے میں پیشینگوئیاں ہماری کتابوں میں پائی جاتی ہیں، مگر وہ خود ایمان نہیں لاتے تھے، تو اس پر ان لوگوں کو اس ارشاد ربانی میں جھنجھوڑا جارہا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ عالم با عمل کی مثال اس شمع کی سی ہے جو دوسروں کو تو فائدہ پہنچاتی ہے مگر خود جلتی جاتی ہے۔ (المراغی، المعارف، ابن کثیر وغیرہ) ۔ اور صحیحین وغیرہ میں نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے روز ایک شخص کو دوزخ میں ڈالا جائے گا تو اس کی انتڑیاں باہر نکل آئیں گی، پھر وہ انکے گرد ایسے پھرے گا جیسا کہ گدھا چکی کے گرد پھرتا ہے، تو اہل جنت اس کے پاس اکٹھے ہوجائیں گے اور اس سے کہیں گے کہ اے فلاں کیا تو وہی شخص نہیں ہے جو ہمیں نیکی کی تعلیم دیتا تھا اور برائی سے روکتا تھا ؟ اس پر وہ کہے گا ہاں میں وہی شخص ہوں لیکن میرا حال یہ تھا کہ میں تم لوگوں کو نیکی کی تعلیم دیتا تھا مگر خود نیکی نہیں کرتا تھا، اور تم کو برائی سے روکتا تھا لیکن خود برائی کرتا تھا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو راہ حق سے منہ موڑنا اور ـاعراض و روگردانی سے کام لینا اور نور حق و ہدایت سے محروم رہنا ہر خیر سے محرومی اور خساروں کا خسارہ ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم من کل زیغ و ضلال -
Top