بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Madani - At-Tawba : 1
سُوْرَةٌ اَنْزَلْنٰهَا وَ فَرَضْنٰهَا وَ اَنْزَلْنَا فِیْهَاۤ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ لَّعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
سُوْرَةٌ : ایک سورة اَنْزَلْنٰهَا : جو ہم نے نازل کی وَفَرَضْنٰهَا : اور لازم کیا اس کو وَاَنْزَلْنَا : اور ہم نے نازل کیں فِيْهَآ : اس میں اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ : واضح آیتیں لَّعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَذَكَّرُوْنَ : تم یاد رکھو
یہ ایک عظیم الشان سورت ہے جس کو ہم نے نازل کیا ہے اور اس کے احکام کو بھی ہم ہی نے فرض کیا ہے3 اور ہم نے اس میں صاف صاف آیتیں نازل کیں تاکہ تم لوگ سمجھو،
1 سورة نور ایک عظیم الشان سورة : سو اس سورة کریمہ کے آغاز ہی میں واضح فرما دیا کہ یہ ایک عظیم الشان سورت ہے۔ یعنی سورة کی تنوین تفخیم و تعظیم کے لیے ہے۔ اور ترکیب میں یہ خبر ہے مبتداء محذوف کی۔ اور اس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت مجاہد (رح) کی روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مردوں کو سورة مائدہ سکھاؤ اور عورتوں کو سورة نور۔ اور حضرت حارث بن مضرب کہتے ہیں کہ حضرت عمر۔ ؓ ۔ نے ہماری طرف لکھ بھیجا کہ اپنی عورتوں کو سورة نساء، سورة نور اور سورة احزاب کی تعلیم دو ۔ (روح، فتح، قرطبی، مراغی، جمل اور معارف وغیرہ) ۔ اور یہ اس لئے کہ یہ سورة کریمہ بطور خاص ایسی تعلیمات پر مشتمل ہے جن پر دارین کی سعادت اور دنیا و آخرت کی فوز و فلاح کا انحصار ہے۔ اس سے ایک طرف تو معاشرے کی تطہیر اور باہمی تعلقات کے بارے میں ایسی عمدہ تعلیم دی گئی ہے جس سے انساب و اَعراض کی حفاظت ہوتی ہے اور فتنہ و فساد کی راہیں بند ہوتی ہیں اور بہت سی ان بیماریوں سے پناہ ملتی ہے جو افراد اور معاشرہ کو تباہ کردیتی ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور دوسری طرف اس میں عقیدہ توحید اور دین کے مبادی و اصول کو بھی نہایت عمدہ اور اچھوتے انداز میں سمجھایا گیا ہے ۔ فالحمدللہ رب العالمین ۔ سو اس کی عظمت شان کا لازمی تقاضا ہے کہ اس کا خاص اہتمام کیا جائے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید - 2 سورة نور کی عظمت شان کے دو خاص پہلوؤں کا ذکر : سو اس کی عظمت شان کو مزید واضح کرنے کے لیے دو اور باتوں کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ ایک { انزلناہا } کہ " اس کو ہم نے نازل کیا ہے " یعنی اس کو کوئی معمومی کلام یا کوئی ہوائی بات نہ سمجھنا۔ بلکہ یہ ہمارا اتارا ہوا کلام اور ہمارا فرمان واجب الاذعان ہے۔ اس لیے اس کے ہر حکم کی تعمیل ہمارے فرمان واجب الاذعان کی حیثیت سے کی جائے اور دوسری بات اس کی عظمت سے متعلق یہ فرمائی گئی کہ " ہم نے اس کو فرض کیا ہے "۔ یعنی ان احکام و فرامین کو جو کہ اس میں بیان فرمائے گئے ہیں۔ حیثیت کوئی سفارشات کی نہیں کہ جس کا جی چاہے مانے اور جس کا جی چاہے نہ مانے، بلکہ ان سب کو ہم نے فرض اور لازم قرار دیا ہے۔ جن کو ماننا اور اپنانا ہر مومن کے لئے ضروری ہے۔ اور جب ان کو نازل کرنے والے بھی ہم اور فرض قرار دینے والے بھی ہم ہی ہیں تو پھر ان کی عظمت شان اور رفعت مکان کا کیا ٹھکانہ ہوسکتا ہے۔ پس تم لوگ اس کو کوئی معمولی چیز نہ سمجھنا بلکہ اس کی ہر بات اور اس کے ہر حکم و فرمان کو ہمارے حکم واجب الاذعان کی حیثیت سے اپنانا۔ بےچون و چرا اس کی اطاعت کرنا اور خبردار رہنا کہ اس بارے کوئی سستی اور سہل انگاری و لاپرواہی راہ نہ پائے۔ اسی میں تمہارا بھلا اور سعادت دارین سے سرفرازی کا ذریعہ ہے۔ جبکہ اس سے اعراض و روگردانی میں سراسر خسارہ ہے ۔ والعیاذ باللہ - 3 سورة نور کی آیات بینات کا ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " ہم نے اس میں کھلی اور صاف صاف آیتیں نازل کیں "۔ جو کہ ہماری وحدانیت اور دین حق کی عظمت کو پوری طرح اجاگر کرتی ہیں۔ تو گویا { فَرَضْنَاہَا } کا تعلق ان اوامرو احکام اور حدود وقیود سے ہے جو اس سورة کریمہ کے شروع میں ذکر فرمائے گئے ہیں۔ اور { وَاَنْزَلْنَا فِیْہَا آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ } کا تعلق توحید وقدرت خداوندی اور ان سے متعلق ان دلائل وبراہین سے ہے جو اس سورة کریمہ کے آخر میں ارشاد فرمائے گئے ہیں۔ (المراغی، الکبیر وغیرہ) ۔ سو اس سورة کریمہ کے شروع میں جن احکام و ہدایات سے نوازا گیا ہے ان سے معاشرہ کے افراد کے درمیان تعلقات صحیح بنیادوں پر قائم ہوتے ہیں۔ جس سے معاشرے کو سکون و اطمینان کی دولت ملتی ہے۔ امن وامان کی فضا قائم ہوتی ہے۔ اس میں گھروں میں داخلے اور باہم ملاقات اور گفتگو کے بارے میں عمدہ اور پاکیزہ ترین قواعد و ضوابط ارشاد فرمائے گئے ہیں۔ جس کے التزام و پابندی سے ایک پاکیزہ اور صالح معاشرہ پروان چڑھتا ہے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید - 4 سبق لینے کی تعلیم و تلقین : سو ان احکام و ہدایات کی غرض وغایت کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ " تاکہ تم لوگ سمجھو اور سبق لو "۔ یعنی تاکہ تم حق اور حقیقت کو سمجھو۔ اس سے سبق لو اور اپنے لئے سعادت دارین کا سامان کرو۔ کیونکہ اس سورة کریمہ میں خاندان اور معاشرہ سے متعلق ایسی حدود اور تعزیرات کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے جن پر صالح اور پاکیزہ معاشرے کے قیام کا مدارو انحصار ہے۔ اور یہی وہ چیزیں ہیں جو گزشتہ امتوں کیلئے مزلہ اقدام ثابت ہوئی ہیں۔ جس سے وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب میں مبتلا ہوئیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو اس امت پر اللہ تعالیٰ کا یہ فضل ہے کہ اس کیلئے ان احکام کے ساتھ ساتھ ان کی خلاف ورزی کے نتائج سے بھی آگاہ فرما دیا گیا تاکہ لوگ ان نتائج سے بچنے کی فکر کریں اور بےحیائی و بدکاری کے نقصانات سے مطلع اور آگاہ ہو سکیں۔ اور ان سے محفوظ رہیں۔ سو { لعلکم تذکرون } سے اس طرف اشارہ فرما دیا گیا۔
Top