Tafseer-e-Madani - Al-Qasas : 56
اِنَّكَ لَا تَهْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ١ۚ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ
اِنَّكَ : بیشک تم لَا تَهْدِيْ : ہدایت نہیں دے سکتے مَنْ اَحْبَبْتَ : جس کو تم چاہو وَلٰكِنَّ اللّٰهَ : اور لیکن (بلکہ) اللہ يَهْدِيْ : ہدایت دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جس کو وہ چاہتا ہے وَهُوَ : اور وہ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِالْمُهْتَدِيْنَ : ہدایت پانے والوں کو
بیشک آپ اے پیغمبر ! ہدایت نہیں دے سکتے جس کو آپ پسند کریں بلکہ اللہ ہی ہدایت کی دولت سے نوازتا ہے جس کو چاہتا ہے اور وہ خوب جانتا ہے ان لوگوں کو جو ہدایت پانے والے ہوتے ہیں (1)
72 راہ حق و ہدایت پر ڈال دینا پیغمبر کے اختیار میں نہیں : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " بیشک آپ ۔ اے پیغمبر !۔ ہدایت نہیں دے سکتے جسکو آپ چاہیں " بلکہ یہ معاملہ اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے۔ یہ آیت کریمہ آنحضرت ۔ ﷺ ۔ کے چچا ابو طالب کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے حضور ﷺ کی خدمت تو بہت کی تھی اور ہمیشہ آپ ﷺ کا ساتھ بھی دیا تھا مگر آپ پر ایمان لانے کی سعادت اور توفیق ان کو نصیب نہیں ہوئی تھی۔ آنحضرت ۔ ﷺ ۔ نے اپنی عظیم الشان ہمدردی اور شفقت کی بناء پر اس کی بہت کوشش فرمائی کہ کسی طرح آپ کے چچا کلمہ پڑھ کر اسلام کے حظیرہ قدس میں داخل ہوجائیں اور دوزخ کے عذاب سے بچ جائیں۔ چناچہ ان کی موت کے موقعہ پر آپ ﷺ بذات خود ان کے پاس تشریف لے گئے اور نہایت ہی ہمدردی کے ساتھ ان کو ایمان لانے کی دعوت دی تاکہ وہ مرتے وقت کلمہ پڑھ کر دوزخ کی آگ سے بچ سکیں اور آپ ﷺ نے ان کی خدمت میں نہایت اخلاص و دلسوزی سے عرض کیا کہ چچا جان آپ ایک مرتبہ کلمہ پڑھ لیں تاکہ کل قیامت کے روز میں اس کو اللہ کی بارگہ اقدس و اعلیٰ میں پیش کرسکوں۔ چناچہ ابو طالب اس کے لئے تیار ہوگئے مگر ابو جہل وغیرہ سرداران قریش نے جب انکو عار دلاتے ہوئے کہا کہ ہوں اب مرتے وقت بھتیجے کے کہنے پر کلمہ پڑھنے لگے ہو ؟ اور اس کے اصرار پر اس کا دین قبول کر کے ہماری ناک کٹوانے لگے ہو ؟ دنیا کیا کہے گی ؟ وغیرہ۔ تو اس پر ابو طالب نے اس وقت بھی کلمہ پڑھنے سے انکار کردیا اور کفر ہی کی حالت پر اپنی جان جان آفریں کے سپرد کردی۔ اور اس پر اس نے وہ مشہور اشعار بھی پڑھے جو تفسیر و سیر کی کتابوں میں مسطور و مذکور ہیں۔ جن کا حاصل اور خلاصہ یہ ہے کہ " میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ محمد ﷺ کا لایا ہوا دین قطعی طور پر حق اور سچ ہے۔ لیکن میں کلمہ اس لئے نہیں پڑھتا کہ مجھے اپنے بارے میں ملامت اور بد گوئی کا خطرہ ہے کہ بعد میں لوگ مجھے برا کہیں گے اور مجھے طعنے دیں گے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو میں یقیناً کھلے دل سے کلمہ پڑھ لیتا "۔ روایات میں آتا ہے کہ اس نے آتش دوزخ کو اپنانا اور اختیار کرلینا تو پسند کرلیا لیکن عار کو برداشت نہ کیا ۔ " اِخْتَار النَّارَ عَلَی الْعَارِ " ۔ تو اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور اس میں بتایا گیا کہ اے پیغمبر ہدایت آپ ﷺ کے اختیار میں نہیں۔ اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ وہ جسے چاہے اس سے نوازے۔ سب ہی مفسرین کرام نے اس آیت کریمہ کا شان نزول یہی قرار دیا ہے۔ اور احادیث میں بھی اس کی تصریح فرمائی گئی ہے۔ (روح قرطبی، محاسن، ابن کثیر، الکبیر، جامع البیان، صفوۃ البیان، صفوۃ التفاسیر، خازن اور معارف وغیرہ) ۔ لہذا جمہور اہل علم کا اس پر اجماع و اتفاق ہے کہ ابو طالب ایمان نہیں لائے تھے۔ اور علامہ ابوحیان نے اپنی تفسیر " البحرالمحیط " میں اس پر سب کا اجماع نقل کیا ہے اور مختلف روایات میں مذکور ہے کہ حضور ﷺ بار بار ان کو کلمہ توحید پیش کرتے رہے مگر ابو طالب ان سرداران قریش کے کہنے پر اس کا انکار ہی کرتے گئے۔ یہاں تک کہ آخری کلمہ جس پر انہوں نے جان دی یہ تھا ۔ " اموت علی ملۃ عبد المطلب " ۔ یعنی " میں عبدالمطلب کے دین پر ہی مرتا ہوں " اور اس نے ۔ { لا الہ الا اللہ } ۔ کہنے سے انکار کردیا۔ (محاسن التاویل وغیرہ) ۔ اسباب النزول اور حدیث کی تمام کتابوں میں بھی یہی مذکور ہے۔ جیسے صحیح بخاری : کتاب التفسیر، سورة القصص، صحیح مسلم : کتاب الایمان، سنن ترمذی : کتاب التفسیر وغیرہ۔ اور علامہ ابن حجرفتخ الباری میں کہتے ہیں کہ اس بارے ناقلین و محدثین کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کہ یہ آیت کریمہ ابوطالب ہی کے بارے میں نازل ہوئی۔ اور یہ کہ وہ آخری دم تک ایمان نہیں لائے۔ سو اس سب کے باوجود اگر کوئی ابوطالب کے ایمان لانے کا قائل ہوتا ہے تو دیکھ لیا جائے وہ کس قدر سینہ زوری اور ہٹ دھری سے کام لیتا ہے ؟ ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور بعض صوفیہ وغیرہ سے جو ان کے ایمان لانے کے بارے میں مروی و منقول ہے وہ سب بےاصل ہے۔ اس کی نہ کوئی سند ہے نہ ثبوت۔ بلکہ ایسا کہنا اس آیت کے سراسر خلاف ہے۔ نیز محققین اہل حق کا کہنا ہے کہ اس سے زیادہ ابو طالب کے ایمان کے بارے میں بحث مباحثہ سے گریز ہی کرنا چاہیئے اور خواہ مخواہ اس کو نہیں چھیڑنا چاہئے۔ یہاں پر اس قصہ سے یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ ہدایت اللہ پاک ہی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے نہ کہ پیغمبر کے اختیار میں۔ پیغمبر کا کام ہے راہ حق کی راہنمائی کرنا۔ اس کی دعوت دینا اور سیدھا راستہ دکھلا دینا اور بس۔ اس سے آگے کسی کو راہ حق پر ڈال دینا اور اس پر چلا دینا نہ آپ ﷺ کے بس اور اختیار میں ہے اور نہ ہی یہ آپ ﷺ کی ذمہ داری ہے۔ نیز اس سے یہ بھی صاف اور واضح ہوگیا کہ پیغمبر مختار کل نہیں ہوتے۔ جیسا کہ اہل بدعت کا کہنا اور ماننا ہے۔ ورنہ آنحضرت ﷺ کی اس قدر کوشش کے باوجود ابوطالب اس طرح ایمان سے محروم نہ رہتے اور کلمہ توحید اور ملت ابراہیمی سے منہ موڑ کر ملت عبدالمطلب ہی پر دنیا سے رخصت نہ ہوتے۔ سو اللہ ہی ہدایت سے نوازتا ہے جس کو چاہتا ہے کہ وہی جانتا ہے کہ کون کس لائق ہے اور کس کے باطن کی کیفیت کیا ہے۔ وہ اسی کے مطابق فیصلہ فرماتا ہے اور اسی کا حکم و فیصلہ برحق ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ -
Top