Ruh-ul-Quran - Al-Muminoon : 3
وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو هُمْ : وہ عَنِ اللَّغْوِ : لغو (بیہودی باتوں) سے مُعْرِضُوْنَ : منہ پھیرنے والے
اور وہ لغویات سے احتراز کرتے ہیں
وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ ۔ (المومنون : 3) (اور وہ لغویات سے احتراز کرتے ہیں۔ ) اہلِ ایمان کی ایک اور صفت لغو سے مرادہر وہ قول اور فعل ہے جو زندگی کے اصل مقصود یعنی رضائے الہٰی سے غافل کرنے والاہو۔ اسلامی تربیت اور نماز کی پابندی انسان کی سیرت و کردار میں ایسی یک جہتی اور یکسوئی پیدا کرتی ہے کہ اس کا راستہ صراط مستقیم بن جاتا ہے۔ وہ اس صراط مستقیم پر چلتا ہوا دائیں بائیں دیکھنا گوارا نہیں کرتا۔ اس کی تمام توجہات رضائے الہٰی کے حصول پر مرکوز رہتی ہیں۔ وہ زندگی کے ایک ایک لمحے کو زندگی کے مقصد کے مطابق گزارنا فرض سمجھتا ہے۔ اسے ہمیشہ یہ احساس دامن گیر رہتا ہے کہ اگر میں کسی ایسی دلچسپی میں کھو گیا جس سے میری منزل کھوٹی ہوگئی یا کسی ایسے کام میں اپنی صلاحیتیں صرف کر ڈالیں جو صلاحیتوں کا صحیح مصرف نہیں تھا تو میں اپنے اللہ کو کیا جواب دوں گا۔ اس لیے آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا : من حسن اسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ ” ایک آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ ہراس چیز کو چھوڑ دے جس میں نہ دنیا کا بھلا ہے نہ دین کا “۔ اس لیے ایک مومن اگر کبھی کسی ایسی جگہ سے گزرتا ہے جہاں کوئی ایسا لغو کام ہورہاہو تو وہ اس کی طرف توجہ کیے بغیر گزرجاتا ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود کسی جگہ جارہے تھے۔ راستے میں کوئی تقریب منعقد ہورہی تھی جس میں لغویات بھی جاری تھیں۔ آپ کو معلوم نہ تھا کہ مجھے ایسی جگہ سے گزرنا پڑے گا۔ اب چونکہ گزرنا ناگزیر تھا تو آپ نے چادر سے اپنا منہ سر لپیٹ لیا اور چکر کاٹتے ہوئے ایک طرف سے گزر گئے۔ کسی مسلمان نے انھیں گزرتے ہوئے دیکھا تو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں اسے بیان کیا۔ تو آپ نے خوش ہو کر فرمایا : واذا مروا بااللغو مروا کراماً ” اور جب وہ کسی لغو بات سے گزرتے ہیں تو وقار سے گزر جاتے ہیں “۔ یعنی ادھر متوجہ ہوئے بغیر نہایت بےنیازی سے گزر جاتے ہیں۔ صاحبِ ایمان لوگوں کو ایمان جو یکسوئی عطا کرتا ہے اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جب وہ اللہ کے دین کی تبلیغ و دعوت کے سلسلے میں مخالفین کے پاس جاتے تو وہ اسلام کے بارے میں قسم قسم کے سوالات اٹھاتے اور طرح طرح کی بیہودگی سے کام لیتے۔ کبھی ان کی غربت کو ہدف طعن بنایا جاتا اور کبھی انھیں آنے والے دنوں میں مختلف خطرات اور مصائب کے پیش آنے سے ڈرایا جاتا۔ ان کی زبانیں بچھوئوں کی طرح زہر اگلتیں۔ لیکن یہ ایمان کی دولت سے مالامال لوگ ان کی کسی قسم کی ژاژ خائی کی طرف توجہ دینے کی بجائے اپنے مقصدی کام سے اور زیادہ لگائو کا اظہار کرتے ہوئے کہتے کہ تم جو کچھ کہہ رہے ہو اور کر رہے ہو تمہیں بہر حال اللہ کے ہاں اس کا جواب دینا ہے۔ اور ہم اپنے اعمال کے لیے جواب دہ ہیں اس لیے آپ کی بیہودہ باتوں کا کوئی جواب دینا پسند نہیں کریں گے۔ قرآن کریم نے اس کی منظر کشی کرتے ہوئے فرمایا : واذا سمعوا اللغوا اعرضوا عنہ وقالوا لنا اعمالنا ولکم اعمالکم ” اور جب وہ کوئی فضول بکواس سنتے ہیں تو اس سے اعراض کرتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے ساتھ تمہارے اعمال “۔ لیکن اس صدمہ جانکاہ کا شکوہ کس سے کریں ؟ کہ جس امت کا ایک ایک لمحہ اللہ کی رضا کا امین تھا اور وہ اپنے وقت کا کوئی حصہ مقصد سے بیگانہ ہو کر گزارنے کا تصور بھی گناہ سمجھتی تھی اب اس کے معمولات ایسے ہوگئے ہیں جس میں وقت کی قدروقیمت کا دور دور تک پتہ نہیں۔ تفریح سے اسلام نے نہیں روکا لیکن ایسی تفریح جو پانچ پانچ دن جاری رہے اور جو تفریح زندگی کے مقاصد پر غالب آجائے اور زندگی کی ہر سنجیدگی جس کے سامنے دم توڑ جائے، نوجوان علم کے حصول پر اسے ترجیح دینے لگیں، اور یا ایسی تفریح جس میں گردنیں کٹیں، سڑکوں پر قتل عام ہو، چھتوں پر شیطان چڑھ کر ناچے، شرم وحیا کا جنازہ نکل جائے، ان لغویات میں اس امت کی دلچسپی صدمہ جانکاہ نہیں اور کیا ہے ؟ ان لغویات کی گہرائی اور گیرائی کو دیکھ کر اقبال یاد آتا ہے۔ اس نے کہا تھا ؎ عشقِ بتاں سے ہاتھ اٹھا اپنی خودی میں ڈوب جا نقش و نگارِ دَیر میں خون جگر نہ کر تلف
Top