Tafseer-e-Madani - Al-Ahzaab : 25
وَ رَدَّ اللّٰهُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِغَیْظِهِمْ لَمْ یَنَالُوْا خَیْرًا١ؕ وَ كَفَى اللّٰهُ الْمُؤْمِنِیْنَ الْقِتَالَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ قَوِیًّا عَزِیْزًاۚ
وَرَدَّ : اور لوٹا دیا اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : ان لوگوں نے جنہوں نے کفر کیا (کافر) بِغَيْظِهِمْ : ان کے غصے میں بھرے ہوئے لَمْ يَنَالُوْا : انہوں نے نہ پائی خَيْرًا ۭ : کوئی بھلائی وَكَفَى : اور کافی ہے اللّٰهُ : اللہ الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) الْقِتَالَ ۭ : جنگ وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ قَوِيًّا : توانا عَزِيْزًا : غالب
اور اللہ نے لوٹا دیا ان کافروں کو (اپنی قدرت و حکمت سے) ان کے غیظ (و غضب) کے ساتھ (اور اس طرح کہ) وہ کچھ بھی خیر نہ پا سکے اور کافی ہوگیا اللہ ایمان والوں کو اس لڑائی میں اور اللہ بڑا ہی قوت والا انتہائی زبردست ہے1
46 ایمان والوں کو اللہ کافی ہے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " اور اللہ کافی ہوگیا ایمان والوں کو اس لڑائی میں "۔ پس غلبہ و کامیابی اسی کے لئے ہے جس کے ساتھ اللہ پاک کی تائید و نصرت شامل ہو۔ اس لئے تم اللہ والے بن جاؤ تمہارے سب کام خود بن جائیں گے۔ کاش کہ یہ نسخہ آج کے مسلمان کو سوجھ جاتا تو اس کی حالت وہ نہ ہوتی جس سے وہ آج یہاں اور وہاں ہر جگہ دو چار ہے۔ سب کچھ موجود ہونے کے باوجود اور ہر طرح کے مادی وسائل و ذرائع سے بہرہ ور ہونے کے با وصف وہ اپنے اس مرتبہ و مقام سے محروم ہے جس کا وہ حقدار ہے۔ اور خرابیوں کی خرابی اور ناکامیوں کی اساس اور جڑ بنیاد یہی ہے کہ آج کا مسلمان وہ مسلمان نہیں جو کہ حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ کے یہاں مطلوب ہے۔ ورنہ غلبہ اور سربلندی تو بہرحال اسی کا حق اور اسی کی شان ہے۔ اور اللہ پاک کا صاف وصریح وعدہ و ارشاد ہے ۔ { اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ } ۔ (آل عمران : 139) ۔ بہرکیف یہاں پر ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ کافی ہوگیا ایمان والوں کو اس لڑائی میں یعنی دشمنوں کے اس خطرناک حملے کے دفاع کے لیے مسلمانوں کو خود کوئی لڑائی نہیں لڑنی پڑی بلکہ ان کی طرف سے لڑائی میں اللہ ہی ان کو کافی ہوگیا۔ اس نے اپنی طرف سے بھیجی ہوئی باد تند اور اپنے ملائکہ کی افواج قاہرہ کے ذریعے دشمنوں کے قدم اکھاڑ دیے اور ان کو مایوس اور نامراد ہو کر پسپا ہونا پڑا ۔ والحمد للہ جل وعلا - 47 اللہ تعالیٰ کی بےمثال قوت و عزت کا حوالہ : سو ارشاد فرمایا گیا " اور اللہ بڑا ہی قوت والا انتہائی زبردست ہے "۔ اس لیے وہ جو چاہے، جب چاہے اور جیسے چاہے کرے۔ اس کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں۔ سو یہ اسی کی قدرت بےپایاں اور عزت و حکمت بےنہایت ہی کا ایک ثمرہ اور نتیجہ تھا کہ کفار قریش جو اتنی بڑی تعداد میں اور اس قدر طمطراق کے ساتھ مسلمانوں کو مٹانے آئے تھے اس طرح ذلیل و خوار ہو کر لوٹے۔ سو اللہ پاک کی ان دو عظیم الشان صفات یعنی اس کی بےمثال قوت اور اس کی بےنہایت عزت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے بندے ہر حال میں اور اپنے ہر معاملے میں اسی پر بھروسہ رکھیں کہ وہی قوی اور غالب ومقتدر اس لائق ہے کہ دل کا بھروسہ اسی وحدہ لا شریک پر رکھا جائے۔ سو اللہ والے اگر اسی پر بھروسہ کر کے اس کی راہ میں اٹھیں گے تو وہ ان کو بےیارو مددگار نہیں چھوڑے گا بلکہ عناصرِ کائنات اور اپنے فرشتوں کے غیر مرئی لشکر کو ان کی مدد کے لیے بھیج دیا جائے گا ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید بکل حال من الاحوال -
Top