Tafseer-e-Madani - An-Naba : 20
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِیْكُمْ اَنْۢبِیَآءَ وَ جَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا١ۖۗ وَّ اٰتٰىكُمْ مَّا لَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا مُوْسٰى : موسیٰ لِقَوْمِهٖ : اپنی قوم کو يٰقَوْمِ : اے میری قوم اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَةَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت عَلَيْكُمْ : اپنے اوپر اِذْ : جب جَعَلَ : اس نے پیدا کیے فِيْكُمْ : تم میں اَنْۢبِيَآءَ : نبی (جمع) وَجَعَلَكُمْ : اور تمہیں بنایا مُّلُوْكًا : بادشاہ وَّاٰتٰىكُمْ : اور تمہیں دیا مَّا : جو لَمْ يُؤْتِ : نہیں دیا اَحَدًا : کسی کو مِّنَ : سے الْعٰلَمِيْنَ : جہانوں میں
اور جب کہا موسیٰ نے اپنی قوم کو اے قوم یاد کرو احسان اللہ کا اپنے اوپر12 جب پیدا کئے تم میں نبی13 اور کردیا تم کو بادشاہ14 اور دیا تم کو جو نہیں دیا تھا کسی کو جہان میں1
12 موضح القرآن میں ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے باپ کا وطن چھوڑ نکلے اللہ کی راہ میں اور ملک شام میں آکر ٹھہرے اور مدت تک ان کے اولاد نہ ہوئی تب اللہ تعالیٰ نے بشارت دی کہ تیری اولاد بہت پھیلاؤں گا اور زمین شام ان کو دوں گا اور نبوت، دین، کتاب اور سلطنت ان میں رکھوں گا۔ پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے وقت وہ وعدہ پورا کیا۔ بنی اسرائیل کو فرعون کی بیگار سے خلاص کیا اور اس کو غرق کیا اور ان کو فرمایا کہ جہاد کرو عمالقہ سے، ملک شام فتح کرلو۔ پھر ہمیشہ وہ ملک شام تمہارا ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بارہ شخص بارہ قبائل بنی اسرائیل پر سردار کئے تھے ان کو بھیجا کہ اس ملک کی خبر لاویں وہ خبر لائے تو ملک شام کی بہت خوبیاں بیان کیں اور وہاں جو عمالقہ مسلط تھے ان کا زور و قوت بیان کیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو کہا کہ تم قوم کے سامنے ملک کی خوبی بیان کرو اور دشمن کی قوت کا ذکر مت کرو۔ ان میں سے دو شخص اس حکم پر رہے اور دس نے خلاف کیا۔ قوم نے سنا تو نامردی کرنے لگی اور چاہا کہ پھر الٹے مصر چلے جائیں۔ اس تقصیر کی وجہ سے چالیس برس فتح میں دیر لگی۔ اس قدر مدت جنگلوں میں بھٹکتے پھرتے رہے۔ جب اس قرن کے لوگ مرچکے مگر وہ دو شخص کہ وہ ہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد خلیفہ ہوئے ان کے ہاتھ سے فتح ہوئی۔ 13 یعنی تمہارے جد اعلیٰ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے لے کر آج تک کتنے نبی تم میں پیدا کئے۔ مثلاً حضرت اسماعیل، اسحاق، یعقوب، یوسف اور خود موسیٰ و ہارون (علیہ السلام) پھر ان کے بعد بھی یہ ہی سلسلہ مدت دراز تک ان میں قائم رکھا۔ 14 یعنی فرعونیوں کی ذلیل ترین غلامی سے آزادی دلا کر ان کے اموال و املاک پر قبضہ کیا اور اس سے پہلے تم ہی میں سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو مصر کے خزائن اور سلطنت پر کیسا تسلط عطا فرمایا۔ پھر مستقبل میں بھی حضرت سلیمان (علیہ السلام) وغیرہ نبی اور بادشاہ پیدا کئے گویا دین اور دنیا دونوں کی اعلیٰ نعمتوں سے تم کو سرفراز کیا۔ کیونکہ دینی مناصب میں سب سے بڑا منصب نبوت اور دنیاوی اقبال کی آخری حد آزادی اور بادشاہت ہے یہ دونوں چیزیں مرحمت کی گئیں۔ 1 یعنی اس وقت جب موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ خطاب فرما رہے تھے بنی اسرائیل پر تمام دنیا کے لوگوں سے زیادہ خدا کی نوازشیں ہوئیں اور اگر " اَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِیْنَ " کا عموم پر حمل کیا جائے تو یہ اس لئے صحیح نہیں کہ امت محمدیہ کی نسبت خود قرآن میں تصریح ہے۔ (كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ للنَّاسِ ) 3 ۔ آل عمران :110) اور (وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ ) 2 ۔ البقرۃ :143) ۔
Top