Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 20
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِیْكُمْ اَنْۢبِیَآءَ وَ جَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا١ۖۗ وَّ اٰتٰىكُمْ مَّا لَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا مُوْسٰى : موسیٰ لِقَوْمِهٖ : اپنی قوم کو يٰقَوْمِ : اے میری قوم اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَةَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت عَلَيْكُمْ : اپنے اوپر اِذْ : جب جَعَلَ : اس نے پیدا کیے فِيْكُمْ : تم میں اَنْۢبِيَآءَ : نبی (جمع) وَجَعَلَكُمْ : اور تمہیں بنایا مُّلُوْكًا : بادشاہ وَّاٰتٰىكُمْ : اور تمہیں دیا مَّا : جو لَمْ يُؤْتِ : نہیں دیا اَحَدًا : کسی کو مِّنَ : سے الْعٰلَمِيْنَ : جہانوں میں
اور (وہ وقت یاد کرو) جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا،91 ۔ کہ اے میری قوم ! اللہ کا وہ احسان تم اپنے اوپر یاد کرو جب اس نے تمہارے اندر نبی پیدا کیے اور تمہیں خود مختار کیا،92 ۔ اور تمہیں وہ یاد جو دنیا جہاں میں کسی (قوم) کو بھی نہیں دیا گیا،93 ۔
91 ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اس تقریر کا وہ زمانہ ہے کہ جب بنی اسرائیل مصریوں کی غلامی ومحکومی سے آزاد ہو کر جزیرہ نمائے سینا میں آزادی سے نقل و حرکت کررہے ہیں، اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جو ایک ہی وقت میں ان کے دینی پیغمبر بھی تھے اور دنیوی لیڈر بھی، انہیں آمادہ کررہے ہیں، کہ اپنے وطن فلسطین چلو، ظالم وغاصب قوم عمالقہ کو وہاں سے نکال دو اور خود اس پر حکمرانی کرو۔ تازہ ترین تاریخی اور اثری تحقیق کے مطابق مصر سے خروج بنی اسرائیل کا زمانہ 1440 ؁ ق۔ م کا ہے، اور فلسطین پر اسرائیل کی فوج کشی کا زمانہ 1400 ؁ ق۔ م کا۔ اس لحاظ سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اس تقریر کا زمانہ اسی درمیانی مدت کا ہے، عجب نہیں کہ آپ کے بالکل آخری زمانہ کی ہو۔ جیسا کہ توریت کے صحیفہ استثناء باب اول سے اندازہ ہوتا ہے۔ یہ اگر صحیح ہے تو اس صحیفہ استثناء میں یہ تصریح بھی موجود ہے کہ آپ نے یہ تقریر دریائے یردن کے اسی پارموآب کے میدان میں، واقعہ خروج مصر کے چالیسویں سال کے گیارہویں مہینہ کی پہلی تاریخ کو ارشاد کی تھی۔ 92 ۔ (آیت) ” یقوم “۔ خطاب یہاں قوم سے بہ حیثیت مجموعی ہے، افراد سے نہیں، (آیت) ” فیکم “ میں فی، من کے مرادف ہے، فیکم ای منکم (ابن عباس ؓ نبوت ایک انفرادی اور شخصی منصب ہوتا ہے۔ اسی لیے (آیت) ” فیکم “۔ وارد ہوا ہے۔ یعنی تمہاری قوم کے اندر افراد انبیاء ہوتے رہے۔ (آیت) ” جعلکم ملوکا “۔ ملک کے معنی عربی میں لازمی طور پر بادشاہ اور تاجدار ہی کے نہیں، ہر آزاد، خود مختار اور ؔ صاحب حیثیت شخص پر اس کا اطلاق ہوسکتا ہے۔ یقال من استغنی عن غیرہ فھو ملک (قرطبی) الملک اسم لکل من یملک السیاسۃ اما فی نفسہ واما فی غیرہ سواء تولی ذلک اولم یتول (راغب) کل من کان مستقلا بامرنفسہ ومعیشتہ ولم یکن محتاجا فی مصالحہ احد فھو ملک (کبیر) کل من ملک بیتا وخادما وامرأۃ فھو ملک (ابن جریر) حدیث میں ہر ایسے شخص پر ملک کا اطلاق آیا ہے، جو اپنا ذاتی مکان اور زوجہ و خادم رکھتا ہو۔ عن النبی ﷺ من کان لہ بیت او قال منزل یاوی الیہ وزوجۃ و خادم یخدمہ فھو ملک (قرطبی) عن زید بن اسلم قال قال رسول اللہ ﷺ من کان لہ بیت و خادم فھو ملک (ابن جریر) اور قرآن مجید میں ایک دوسری جگہ ملک سردار، افسر یا فوجی قائد کے معنی میں آچکا ہے۔ ابعث لنا ملکا (بقرہ۔ رکوع 32) خود اہل فلسطین کے محاورہ میں بھی تقریبا ہر سردار بادشاہ ہی کہلاتا تھا۔ (جیوش انسائیکلوپیڈیا۔ جلد 7 صفحہ 500) اسی لیے یہاں متعدد ائمہ اکابر نے ملک کا ترجمہ مخدوم یا اور ایسے ہی مترادفات سے کیا ہے۔ ای ھو مخدومون کالملوک وعن ابن عباس ایضا یعنی الخادم والمنزل وقالہ مجاھد وعکرمۃ والحکم بن عیینۃ، (قرطبی) اصحاب خدم وحشم (جلالین) قال ابن اسحاق یعنی اصحب خدم وحشم (کمالین) اسرائیلی ابھی چند سال قبل تک محکوم، مغلوب ومقہور تھے، اور اب ہر طرح آزاد خود مختار تھے، بالکل بجا تھا کہ تقابل حالات کے اظہار کے لیے اب انہیں ملوک سے تعبیر کیا جاتا۔ بعدماکنتم مما لیک فرعون (ابن عباس ؓ قال السدی یعنی وجعلکم احرارا تملکون انفسکم بعد ماکنتم فی ایدی القبط بمنزلۃ اھل الجزیۃ فینا (کبیر) 93 ۔ یہ نعمت عظمی نعمت توحید ہے۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ اقوام عالم میں نسلی وقومی حیثیت سے توحید اسرائیلیوں کیساتھ مخصوص رہی ہے، ورنہ اور قومیں تو من حیث القوم شرک ہی میں مبتلا رہی ہیں، ہمارے مفسریں کو اس مضمون کی آیتوں کی تفسیر میں بڑی دشواری یہ پیش آتی رہی ہے کہ اگر بنی اسرائیل کو سب سے افضل مان لیا جائے، تو پھر امت محمدی کے لیے کون سا مقام باقی رہ جائے گا ؟۔۔ اشکال اور دشواری کی بنیاد ہی سرے سے غلط ہے۔ یہاں مقابلہ تو دنیا کی ساری قوموں اور نسلوں کا ہورہا ہے۔ ان میں بیشک سب سے افضل، اشرف، نسل اسرائیلی ہی ہے۔ کہ بہ خلاف دوسری قوموں کے شرک اور وہم پرستیوں کے توحید اور اس کے لوازم یعنی رسالت، وحی، حشروغیرہ عقائد صحیحہ کی حامل، دنیا کی تاریخ میں یہی ایک قوم رہی ہے۔ بہ خلاف اس کے امت محمدی تو کسی قوم یا نسل کا نام ہی نہیں، یہاں تو اسرائیلی، اسمعیلی، حبشی، چینی، رسوی جاپانی جو کوئی بھی عقائد اسلامی پر ایمان لے آئے، وہی امت محمدی ﷺ میں داخل ہے۔ اس پر مفصل حاشیے (آیت) ” انی فضلتکم علی العلمین “۔ کے تحت میں سورة بقرہ کے رکوع 5، 6، میں گزر چکے۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ اہل اللہ کے خاندان میں سے ہونا ایک نعمت ہے جس پر شکر واجب ہے، کیونکہ اس تعلق سے دین اس پر سہل ہوجاتا ہے، البتہ اس پر فخر اور گھمنڈ روا نہیں ،
Top