Tafseer-e-Madani - An-Najm : 31
وَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ۙ لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَسَآءُوْا بِمَا عَمِلُوْا وَ یَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا بِالْحُسْنٰىۚ
وَلِلّٰهِ : اور اللہ ہی کے لیے ہے مَا : جو کچھ فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں ہے وَمَا فِي الْاَرْضِ ۙ : اور جو کچھ زمین میں ہے لِيَجْزِيَ الَّذِيْنَ : تاکہ بدلہ دے ان لوگوں کو اَسَآءُوْا : جنہوں نے برا کیا بِمَا عَمِلُوْا : ساتھ اس کے جو انہوں نے کام کیے وَيَجْزِيَ الَّذِيْنَ : اور جزا دے ان لوگوں کو اَحْسَنُوْا بالْحُسْنٰى : جنہوں نے اچھا کیا ساتھ بھلائی کے
اور اللہ ہی کا ہے وہ سب کچھ جو کہ آسمانوں میں ہے اور وہ سب کچھ بھی جو کہ زمین میں ہے تاکہ اللہ (پورا پورا) بدلہ دے ان لوگوں کو جو برائی کی راہ پر چلتے رہے ان کے (زندگی بھر کے) کئے کرائے کا اور وہ بہترین جزاء سے نوازے ان (خوش نصیبوں) کو جو (زندگی بھر) چلتے رہے اچھائی اور نیکی کی راہ پر۔
[ 42] سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کا ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ کائنات میں جو بھی کچھ ہے وہ سب اللہ ہی کا ہے۔ چناچہ ارشاد فرمایا گیا، اور اس اہم اور بنیادی حقیقت کی توضیح و تشریح کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ ہی کا ہے وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہے۔ تخلیق وتکوین کے اعتبار سے بھی کہ اس سب کا خالق اور پیدا کرنے والا تنہا وہی وحدہٗ لاشریک ہے۔ اور ملک و ملکیت کے اعتبار سے بھی، کہ اس سب کا بادشاہ اور مالک حقیقی بھی بہرحال وہی ہے، اور اس میں حکومت و بادشاہی بھی صرف وحدہٗ لاشریک کی ہے، اور قبضہ و تصرف بھی اسی کا ہے، کہ اس میں اس کا ہے، کہ اس میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ اسی کی مشیت اور اسی کے حکم و ارشاد کے مطابق ہو رہا ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ سو ان میں سے کسی بھی بات میں کوئی اس کا شریک وسہیم نہیں، تو پھر اس کی عبادت و بندگی میں کوئی اس کا شریک وسہیم کس طرح ہوسکتا ہے ؟ پس وہ ہر لحاظ و اعتبار سے وحدہٗ لاشریک ہے، اور عبادت و بندگی کی ہر قسم اور اس کی ہر شکل اسی وحدہٗ لاشریک کا حق اور اسی کے ساتھ مختص ہے، سبحانہ وتعالیٰ ۔ سو جب کائنات میں جو بھی کچھ ہے وہ سب اللہ ہی کا ہے، اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہی بھی اسی وحدہٗ لاشریک کے قبضہء قدرت و اختیار میں ہے۔ اس میں کسی اور کی کسی بھی طرح اور کسی بھی درجے میں کوئی حصہ داری یا کوئی عمل دخل نہیں۔ تو پھر یہ کس طرح ممکن ہوسکتا ہے کہ کوئی اس کی مشیت میں مداخلت کرسکے یا اس کے ارادوں اور فیصلوں پر کسی بھی اعتبار سے اور کسی بھی درجے میں اثر انداز ہوسکے ؟ سو اس سے مشرکین کے شرکیہ عقیدہء شفاعت کی جڑ نکال دی گئی۔ والحمدللّٰہ جل وعلا۔ اللہ تعالیٰ نفس و شیطان کے ہر مکرو فریب سے محفوظ اور ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین۔ [ 43] اللہ تعالیٰ کی حکومت و بادشاہی کے ایک لازمی تقاضے کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ تاکہ اللہ بدلہ دے ان لوگوں کو جنہوں نے برے کام کیے ان کے ان برے اعمال کے نتیجے اور بدلے میں جو انہوں نے دنیا میں کیے ہوں گے۔ تاکہ ہر کسی کو اس کے زندگی بھر کے کیے کرائے کا پورا پورا صلہ و بدلہ مل سکے، اور اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے بھرپور طریق سے پورے ہوسکیں، سو راہ حق و ہدایت پر چلنے والوں کو وہ اس جنت سے نوازے گا، جس کی نعمتوں کا احاطہ و ادراک اس دنیا میں کسی بشر کیلئے ممکن ہی نہیں، کہ اس کی صفت میں فرمایا گیا ہے مالا عین رات ولا اذن سمعت ولا خطر علیٰ قلب بشر کہ اس میں وہ کچھ ہوگا جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا، اور نہ ہی کسی انسان کے دل پر اس کا گزر ہی ہوا۔ اللہ پاک نصیب فرمائے اور محض اپنے کرم سے نصیب فرمائے، آمین اور تاکہ برائی کرنے والے اس کے بالمقابل دوزخ کے اس ہولناک عذاب سے دو چار ہوں، جس کا تصور کرنا بھی کسی انسان کے بس میں نہیں، والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ اور اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں، اور بھرپور طریقے سے پورے ہوں، اور ہر کوئی اپنی زندگی بھر کے کیے کرائے کا صلہ اور پھل پاس کے، سو قیامت کی اس حقیقت کبری کے وجوہ اور اس کے قیام کے بغیر اس حکمت کے تقاضے پورے ہو ہی نہیں سکتے، جس کیلئے حضرت حق مجدہ نے اس کائنات کی تخلیق کی، اور اس کو قائم فرمایا، سبحانہ وتعالیٰ ۔ پس جزو سزا کا قیام اللہ تعالیٰ کی حکومت و بادشاہی اور اس کی صفت عدل و حکمت کا لازمی تقاضا ہے ورنہ یہ سارا کارخانہ قدرت اور پورا ہنگامہ ہست و بود عبث اور بیکار قرار پائے گا جس سے وہ پاک ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ پس قیام قیامت تقاضا ہے عقل و نقل دونوں کا۔ والحمدللّٰہ جل وعلا بکل حال من الاحوال۔
Top