Tafseer-e-Madani - Al-Haaqqa : 41
وَّ مَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ١ؕ قَلِیْلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَۙ
وَّمَا هُوَ : اور نہیں وہ بِقَوْلِ شَاعِرٍ : کسی شاعر کا قول قَلِيْلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَ : کتنا کم تم ایمان لاتے ہو
اور یہ کسی شاعر کا کلام نہیں کم ہی ایمان لاتے ہو تم لوگ
35 قرآن کسی شاعر کا کلام نہیں ہوسکتا : سو ارشاد فرمایا گیا اور صاف اور صریح طور پر ارشاد فرمایا گیا اور یہ کسی شاعر کا کلام نہیں۔ جیسا کہ دشمنان اسلام اور منکرین حق کا کہنا ہے اور اس کو شعر کہنے سے مراد ان لوگوں کی یہ تھی کہ یہ کلام شاعر نہ کلام کی طرح محض خیالی باتوں پر مشتمل ہے ورنہ شعر کے معروف معنی کے اعتبار سے تو وہ بھی اس کو شعر نہیں کہہ سکتے تھے ‘ سو اس پر ایسے لوگوں سے فرمایا گیا کہ یہ کلام کلام حق ہے کوئی شاعرانہ کلام یا خیالی باتوں کا مجوعہ نہیں ‘ اور ہرگز نہیں ‘ اے لوگو ‘ بلکہ یہ تو اٹل اور ابدی حقائق پر مشتمل اور دائمی اور اٹل حقائق کی خبر دینے والا ایک عظیم الشان اور بےمثل کلام ہے ‘ سو یہ کسی شاعر یا کاہن کا کلام نہ ہے نہ ہوسکتا ہے ‘ اور ایسا کہنے والے لوگ اس طرح کی باتوں سے خود ہی اپنی حماقت و محرومی اور ہٹ دھرمی کا ثبوت دیتے رہے ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو یہ سراسر اتارا ہوا اور اللہ رب العالمین ہی کا کلام ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ 36 خرابی کی جڑ بنیاد ارادئہ و نیت کی خرابی۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو ارشاد فرمایا کیا کہ تم لوگ کم ہی ایمان لاتے ہو یعنی تم لوگ ایمان لانا چاہتے ہی نہیں یعنی ایمان یہاں پر ارادئہ ایمان کے معنی میں ہے اور فعل کا ارادئہ فعل کے معنی میں استعمال ہونا ایک معروف اسلوب ہے جو شائع و ذائع ہے جیسا کہ اذا قمتم الی الصلاۃ میں ہے سو تم لوگوں کا حال یہ ہے کہ کبھی اس کلام معجز نظام کی تاثیر کی بجلی جب تمہارے دل و دماغ میں کوندتی ہے تو وقتی طور پر تم کسی حد تک اس کو ماننے پر مجبور ہوجاتے ہو مگر بعد میں تمہاری پھر وہی کیفیت ہوجاتی ہے ‘ تو ایسے ایمان قلیل کا کیا اعتبار ہوسکتا ہے ؟ اور دوسرا احتمال اس میں یہ ہے کہ یہاں پر قلت بمعنی عدم کے ہو یعنی تم لوگ ایمان نہیں لاتے اور عربی میں قلت بمعنی عدم مستعمل ہوتا ہے ‘ چناچہ عرب کہتے ہیں فلان قلما یاتین اور اس سے ان کا مقصود یہ ہوتا ہے کہ انہ لا یاتینا مطلب یہ کہ وہ ہمارے یہاں نہیں آتا (المراغی ‘ جامع القرآن وغٔرہ) سو اس طرح تم لوگ اس کلام حق ترجمان سے منہ موڑ کر اپنی محرومی کا سامان کرتے ہو ‘ والعیاذ باللہ۔ سو ارادئہ و نیت کی خرابی و فساد جڑ بنیاد ہے تمام خرابیوں اور فساد کی۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ ہمیشہ اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین۔
Top