Madarik-ut-Tanzil - Ar-Ra'd : 26
اَللّٰهُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یَقْدِرُ١ؕ وَ فَرِحُوْا بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ؕ وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا مَتَاعٌ۠   ۧ
اَللّٰهُ : اللہ يَبْسُطُ : کشادہ کرتا ہے الرِّزْقَ : رزق لِمَنْ يَّشَآءُ : جس کے لیے وہ چاہتا ہے وَيَقْدِرُ : تنگ کرتا ہے وَفَرِحُوْا : اور وہ خوش ہیں بِالْحَيٰوةِ : زندگی سے الدُّنْيَا : دنیا وَمَا : اور نہیں الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی فِي : مقابلہ (میں) الْاٰخِرَةِ : آخرت اِلَّا : مگر (صرف) مَتَاعٌ : متاع حقیر
خدا جس کا چاہتا ہے رزق فراخ کردیتا ہے اور (جس کا چاہتا ہے) تنگ کردیتا ہے۔ اور (کافر لوگ) دنیا کی زندگی پر خوش ہو رہے ہیں۔ اور دنیا کی زندگی آخرت (کے مقابلے) میں (بہت) تھوڑا فائدہ ہے۔
26: اَللّٰہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشََآ ئُ وَیَقْدِرُ (اللہ تعالیٰ ہی روزی کو کھولتے ہیں جسکے لئے چاہتے اور تنگ کرتے ہیں) یعنی اور تنگ کرتے ہیں جسکے لئے چاہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے اللہ تعالیٰ اکیلے ہی رزق کو کھولنے اور تنگ کرنے والے ہیں اور کوئی نہیں وَفَرِحُوْا بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا (اور وہ دنیا کی زندگی پر اتراتے ہیں) اس وجہ سے کہ اللہ نے انکو دنیا کی وسعت دے رکھی ہے یہاں فرح سے تکبرو غرور مراد ہے۔ فرح و سرور مراد نہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل و انعام سے حاصل ہوتا ہے۔ اور یہ لوگ شکریہ سے اسکا سامنا نہیں کرتے۔ تاکہ آخرت میں نعمتوں سے اجر پاسکیں۔ وَمَاالْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَۃِ اِلَّا مَتَاعٌ (اور دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلہ میں صرف سامان ہے) ان کے سامنے یہ بات مخفی ہے کہ دنیا کی نعمتیں آخرت کی نعمتوں کے مقابلہ میں معمولی چیز ہیں اور ان سے نفع اندوزی مسافر کی اس چند کھجوروں جیسی ہے جو تیزی میں چلتے چلتے لے لیتا ہے یا ستو کا گھونٹ ہے۔
Top