Madarik-ut-Tanzil - Al-Baqara : 13
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ اٰمِنُوْا كَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْۤا اَنُؤْمِنُ كَمَاۤ اٰمَنَ السُّفَهَآءُ١ؕ اَلَاۤ اِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَآءُ وَ لٰكِنْ لَّا یَعْلَمُوْنَ
وَإِذَا : اور جب قِيلَ : کہاجاتا ہے لَهُمْ : انہیں آمِنُوا : تم ایمان لاؤ کَمَا : جیسے آمَنَ : ایمان لائے النَّاسُ : لوگ قَالُوا : وہ کہتے ہیں أَنُؤْمِنُ : کیا ہم ایمان لائیں کَمَا : جیسے آمَنَ السُّفَهَاءُ : ایمان لائے بیوقوف أَلَا إِنَّهُمْ : سن رکھو خود وہ هُمُ السُّفَهَاءُ : وہی بیوقوف ہیں وَلَٰكِنْ لَا يَعْلَمُونَ : لیکن وہ جانتے نہیں
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جس طرح اور لوگ ایمان لے آئے تم بھی ایمان لے آؤ تو کہتے ہیں کہ بھلا جس طرح بیوقوف ایمان لے آئے ہیں اسی طرح ہم بھی ایمان لے آئیں ؟ سن لو کہ یہی بیوقوف ہیں لیکن نہیں جانتے
نحو : الا۔ یہ ہمزہ استفہام اور حرف نفی سے مرکب ہے۔ تاکہ مابعد کے ثبوت پر تنبیہ ہوجائے۔ ایک قاعدہ : استفہام جب نفی پر آجائے۔ تو ثبوت کا فائدہ دیتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سورة قیامہ آیت نمبر 40 میں ہے اَلَیْسَ ذٰلِکَ بِقٰدِرٍ (یقینا وہ قادر ہے) تحقیق کے اس مقام پر ہونے کی وجہ سے اس کے بعد آنے والا جملہ اسی انداز سے شروع ہوگا۔ جس سے قسم ملی ہو۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے ان کے مصلحین کی صف میں شامل ہونے کے دعویٰ کو بلیغ انداز سے رد کردیا۔ نمبر 1: سخت ناراضگی کے مقام پر رکھا۔ نمبر 2: جملہ مستانفہ لا کر اس میں مبالغہ کردیا۔ نمبر 3: پھر تاکید کے لیے اَلَا اور اِنّ لائے۔ نمبر 4: خبر معرفہ لائے۔ نمبر 5: لا یشعرون اور اس کے درمیان میں ضمیر فصل لائے۔ وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْاکَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْآ اَنُؤْمِنُ کَمَآ اٰمَنَ السُّفَھَآئُ ۔ (جب ان سے کہا جاتا ایمان لائو جس طرح ایمان لائے لوگ تو وہ کہتے ہیں کیا ہم ایمان لائیں جیسے ایمان لائے بےوقوف) ان کو دو طریقوں سے نصیحت کی گئی۔ نمبر 1۔ اس چیز کی قباحت بیان فرمائی۔ جس پر چل رہے تھے۔ کیونکہ وہ چیز صواب سے دور اور فساد سے قریب تھی۔ نمبر 2: عقل مندوں کی اتباع سے جو رستہ رکاوٹ تھا۔ وہ ان کو واضح دکھا دیا۔ ان کا جواب یہی تھا کہ وہ اپنی طویل جہالت کی وجہ سے ان کو بیوقوف قرار دیتے تھے۔ ایک عبرت : اس میں اس عالم کے لیے تسلی ہے کہ جس کو جہلاء کی طرف سے اس قسم کی باتیں پہنچتی ہیں۔ ایک سوال : سوال : قیل : کی اسناد لا تفسدوا اور اٰمنوا دونوں کی طرف درست ہے باوجود یکہ فعل کی اسناد فعل کی طرف صحیح نہیں ہوتی۔ جواب : یہاں فعل کی فعل کی طرف اسناد ہے جو کہ جائز ہے۔ اور فعل کی اسناد معنی فعل کی طرف ممنوع ہے گویا کہ اس طرح کہا گیا۔ جب ان کو یہ بات کہی گئی۔ تو اسی سے یعنی دماغ پر جھوٹا گمان سوار کرلیا۔ کما : نحو : کما میں ما کافہ ہے جیسا کہ ربما میں ما مصدریہ ہے جیسا کہ : بِمَا رَحُبَتْ سورة التوبہ آیت نمبر 25 میں۔ الناس۔ نمبر 1۔ الناس میں لام عہد خارجی کا ہے یعنی جس طرح ایمان لائے رسول اللہ اور جو ان کے ساتھ ہیں۔ اور وہ معین لوگ ہیں۔ عبد اللہ بن سلام اور ان کے ساتھ والی جماعت یعنی جس طرح ایمان لائے تمہارے ساتھی اور بھائی الف لام : نمبر 2: (ا) لام جنس کا ہو یعنی جس طرح انسانیت میں کامل لوگ ایمان لائے۔ (بؔ ): ایمان والوں کو گویا حقیقی انسان قرار دیا اور ان کے علاوہ لوگوں کو حیوان کہا۔ کَمَآ اٰمَنَ : میں کاف محل نصب میں ہے کیونکہ یہ مصدر محذوف کی صفت ہے۔ یعنی (ایمانامثل ایمان الناس) ۔ یعنی ایسا ایمان جو لوگوں کے ایمان کی طرح ہو۔ اور کما امن السفہائ بھی اسی طرح ہے۔ انؤمن میں استفہام انکاری ہے (یعنی ہم ایمان نہیں لائے) السفہآء میں لام سے الناس کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے جن کو انہوں نے بیوقوف قرار دیا تھا۔ حالانکہ وہ لوگ عقل مند اور حلیم ہیں۔ کیونکہ انہوں نے اپنے جہل سے یہ اعتقاد کرلیا کہ جس راستے پر وہ ہیں۔ وہ برحق ہے اور اس کے علاوہ سب باطل ہے۔ جو آدمی باطل پرست بن جائے تو بیوقوف ہے۔ السفہُ ۔ کم عقلی، بےحوصلہ ہونا اَلآَ اِنَّھُمْ ھُمُ السُّفَہَآئُ وَلٰکِنْ لاَّ یَعْلَمُوْنَ : (بےشک وہ وہی بیوقوف ہیں) فرق کی وجہ : یہاں لا یعلمون فرمایا۔ اور پہلے لا یشعرون کہا گیا۔ نمبر 1: کیونکہ یہاں السفہ کا ذکر کیا اور وہ جہالت کو کہتے ہیں۔ پس اس کے ساتھ علم کا تذکرہ بہترین مطابقت رکھتا ہے نمبر 2: ایمان میں غور وفکر اور دلیل کی ضرورت ہے تاکہ دیکھنے والا معرفت حاصل کرے۔ باقی فساد فی الارض ایک ایسا معاملہ ہے جس کی بنیاد عادات پر ہے پس وہ حسی معاملے کی طرح بن گیا۔ (اس لیے وہاں شعور وحس کی نفی کی ہے) نحوی تحقیق : نحو : السفہاء یہ انّ کی خبر ہے۔ ھم ضمیر فصل ہے یا مبتدا ہے لہٰذا السفہاء اس کی خبر ہے۔ اور یہ مل کر ان کی خبر ہے۔ وَاِذَالَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓااٰمَنَّا : (جب وہ ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے) قراءت : ابوحنیفہ (رح) نے اذالاقوا پڑھا ہے۔ اہل عرب لقیتہ، لا قیتہ، دونوں بولتے ہیں۔ جبکہ قریب سے اس کا سامنا ہو۔ ربط : پہلی آیت میں منافقین کے طریقے اور ان کے نفاق کی ترجمانی کی۔ اور اس آیت میں ایمان والوں کے ساتھ جو ان کا سلوک تھا۔ یعنی استہزاء اور سچوں کے روپ میں ملنا۔ اور ان کو وہم دلانا کہ وہ ان کے ساتھ ہیں۔ وغیرہ کا ذکر کیا گیا۔ وَاِذَا خَلَوْا اِلٰی شَیٰطِیْنِھِمْ : (اور جب وہ تنہائی میں اپنے شیطانوں سے ملتے ہیں) خلوت بفلان والیہ بولتے ہیں جب اس کے ساتھ علیحدگی اختیار کرے۔ اِلٰیکے صلہ سے استعمال زیادہ بلیغ ہے۔ کیونکہ اس میں ابتدا وانتہا کی دلالت پائی جاتی ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ جب ایمان والوں سے الگ ہو کر اپنے شیاطین کے ہاں علیحدگی میں جاتے ہیں اور یہ بھی درست ہے کہ خلا۔” مضی “ کے معنی میں ہو۔ شیاطین کون : شیاطین : سے مراد وہ لوگ ہیں جو سرکشی میں شیاطین کے مماثل ہیں۔ اور وہ یہودی ہیں۔ سیبویہ کا قول : نمبر 1: نحو : شیاطین کانون اصلی ہے اس کی دلیل تشیطن ہے۔ نمبر 2: یہ نون زائدہ ہے یہ شطن سے نکلا ہے جو بَعُدَ کے معنی میں ہے۔ اس لیے کہ شیطان بھلائی اور خیر سے دور ہے۔ یا شاط سے ہے یعنی جب باطل و بیکار ہوا۔ شیطان کا نام الباطل ہے۔ قَالُوْٓا اِنَّا مَعَکُمْ : (تو ان کو کہتے ہیں بیشک ہم تمہارے ساتھ ہیں) ہم تمہارے ساتھی اور دین میں موافقت کرنے والے ہیں۔ منافقین نے مسلمانوں کو جملہ فعلیہ بول کر خطاب کیا۔ اور شیاطین کو اِنّ تحقیقیہ والے جملہ اسمیہ سے مخاطب کیا۔ کیونکہ ایمان والوں کو مخاطب کرتے ہوئے منافقین کا دعویٰ یہ تھا۔ کہ ایمان ایک نو ساختہ چیز ہے۔ اس بات کے دعوے دارنہ تھے۔ کہ وہ ایمان میں منفرد ہیں۔ خواہ اس کی وجہ یہ ہو۔ نمبر 1: کہ ان کے اپنے نفس اس پر ان کی معاو نت کرنے والے نہ تھے۔ کیونکہ ان کے عقائد اس کا باعث اور محرک نہیں تھے۔ خواہ اس کی وجہ یہ ہو۔ کہ اگر وہ اپنی بات مبالغے اور تاکید سے کرتے تو چل نہ سکتی۔ البتہ اپنے ہم جنسوں سے خطاب رغبت سے تھا۔ اور مقبول اور مروج بھی تھا۔ اس لیے وہ تحقیق و تاکید کے موقعہ ومحل میں تھا۔ تاکہ کافروں کو ان کے کفر پر قائم رہنے کا یقین ہوجائے۔ استہزاء کا مفہوم : اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَھْزِئُ ْونَ ۔ (ہم ان کے ساتھ استہزاء کرنے والے ہیں) یہ اِنّا معکم کی تاکید ہے۔ کیونکہ اس کا مقصد یہودیت پر ثابت قدمی ہے۔ اور اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَھْزِئُ ْونَ کہہ کر اسلام کی تردید کی ہے۔ اور اپنے سے اسلام کا دور کرنا مقصود ہے کیونکہ کسی چیز کا استہزاء کرنے والا اور اس کی تحقیر کرنے والا اس کا منکر ہوتا ہے۔ قاعدہ : کسی چیز کی نقیض کا دور کرنا اس کے ثبوت کی تاکید ہوتی ہے۔ یا یہ جملہ مستانفہ ہے پھر کلام اس طرح بنے گا۔ کہ جب منافقین نے اپنے شیاطین کو اِنَّا مَعَکُمْ کہا۔ تو جواب میں شیاطین الانس نے کہا۔ اگر تم ہمارے ساتھ ہو تو پھر مؤمنین کی موافقت کیوں کرتے ہو ؟ تو منافقین نے جوابًا کہا۔ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَھْزِئُ ْونَ (کہ تم شک میں مت رہو ہم تو ان سے موافقت ان کا مذاق اڑانے کے لیے کرتے ہیں) الاستہزائ : مذاق اڑانا، مسخری کرنا، حقیرقرار دینا۔ اصل باب کا معنی خفت یعنی ہلکا سمجھنا استہزاء یہ ھزء سے بنا ہے جس کا معنی ہے جو جلدی قتل کرتا ہے۔ اور ھزأ یہزأ کا معنی موقعہ پر ہلاک ہونا مرجانا ہے۔ اَللّٰہُ یَسْتَھْزِیُٔ بِھِمْ : (اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ استہزاء کا معاملہ کرے گا) ۔ یعنی ان کو استہزاء کا بدلہ دے گا۔ جزاء ًاستہزاء کا نام استہزاء رکھ لیا گیا۔ جیسا کہ سورة شوریٰ آیت نمبر 45 میں وَجَزَائُ سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثْلُھَا اور سورة بقرہ آیت نمبر 194 فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْاعَلَیْہِ ۔ میں جزاء سیئہ کو سیئہ اور جزاء اعتداء کو اعتداء قرار دیا گیا۔ اگرچہ جزاء سیئہ واعتداء سیئہ اور اعتداء نہیں ہوتی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ استہزاء اللہ تعالیٰ کی ذات کے لائق و مناسب نہیں۔ کیونکہ عبث اور عیب ہے۔ جس سے اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے۔ امام زجاج : کہتے ہیں۔ پسندیدہ قول یہ ہے۔ اَللّٰہُ یَسْتَھْزِیُٔ بِھِمْ ۔ کو بغیر عطف کے جملہ مستانفہ لانا بڑی شان عظمت رکھتا ہے۔ اس میں یہ بات بتلائی کہ اللہ تعالیٰ ہی ان سے انتہائی شدید استہزاء فرمانے والے ہیں۔ جس کے مقابلے میں ان کا استہزاء کچھ حقیقت نہیں رکھتا۔ اس لیے کہ ان پر اس کی وجہ سے ذلت، عذاب اور رسوائی اترے گی اور اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی سزائیں اور بلائیں لمحہ بہ لمحہ اترتی رہیں گی۔ سوال : اَللّٰہُ یَسْتَھْزِیُٔ بِھِمْ فرمایا۔ اللّٰہ مستھزیٔ بھم نہیں فرمایا۔ ایسا کیوں ؟ جواب : تاکہ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَھْزِئُ ْونَ کے ساتھ لفظًا مطابق ہوجائے اور تواتر سزا پر بھی دلالت ہو۔ وَیَمُدُّھُمْ : (اور انہیں مہلت دے گا) یعنی ان کو مہلت دے گا۔ یہ زجاج کا قول ہے۔ فِیْ طُغْیَانِھِمْ : (ان کی سرکشی میں) کفر میں حد سے بڑھنا یَعْمَھُوْنَ (وہ حیران ہیں) یہ حال واقع ہے یعنی حیران اور متردد ہیں۔
Top