Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 13
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ اٰمِنُوْا كَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْۤا اَنُؤْمِنُ كَمَاۤ اٰمَنَ السُّفَهَآءُ١ؕ اَلَاۤ اِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَآءُ وَ لٰكِنْ لَّا یَعْلَمُوْنَ
وَإِذَا : اور جب قِيلَ : کہاجاتا ہے لَهُمْ : انہیں آمِنُوا : تم ایمان لاؤ کَمَا : جیسے آمَنَ : ایمان لائے النَّاسُ : لوگ قَالُوا : وہ کہتے ہیں أَنُؤْمِنُ : کیا ہم ایمان لائیں کَمَا : جیسے آمَنَ السُّفَهَاءُ : ایمان لائے بیوقوف أَلَا إِنَّهُمْ : سن رکھو خود وہ هُمُ السُّفَهَاءُ : وہی بیوقوف ہیں وَلَٰكِنْ لَا يَعْلَمُونَ : لیکن وہ جانتے نہیں
اور جب ان سے کہا جاتا ہے ایمان لاؤ اس طرح جس طرح دوسرے لوگ ایمان لاتے ہیں تو کہتے ہیں کیا ہم اس طرح ایمان لائیں ، جس طرح بیوقوف لوگ ایمان لائے ہیں۔ سنو ! بیک یہی لوگ بیوقوف ہیں ، لیکن یہ جانتے نہیں
گزشتہ سے پیوستہ : ہدایت کے اعتبار سے تیسرا گروہ منافقین کا ہے۔ کل بھی ان کا ذکر ہوا تھا۔ اور آج کی آیت میں بھی منافقین کا ہی ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین کی خرابیوں کو ذرا تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے پہلی آیات میں آیا تھا کہ بعض لوگ زبان سے کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان کی نفی فرما دی ہے۔ کہ یہ لوگ مومن نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور ایمانداروں دونوں سے دغا بازی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو تو دھوکا نہیں دے سکتے اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو بھی ان کے دھوکے سے بچائے گا۔ کیونکہ ان کا دھوکا ان کی اپنی ہی جانوں پر ہے اور یہ ان باتوں کو سوچتے تک نہیں۔ ان کے دلوں میں ک ، تردد اور نفاق کی بیماری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی بیماری کو بڑھا دیا ہے۔ اور ان کے لئے عذاب الیم ہے۔ کیونکہ یہ جھوٹ بولتے تھے ظاہر اسلام کرتے تھے مگر ان کے باطن میں کفر تھا۔ ان کے ایک اور بیماری فساد فی الارض تھی جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو۔ تو اکڑ جائے اور کہتے کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں ہمیں کوئی فسادی کیسے کہہ سکتے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہی لوگ فسادی ہیں مگر یہ سمجھتے نہیں ۔ حقیقی ایمان : اب ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کی ایک اور خرابی کا تذکرہ فرمایا ہے “ واذا قیل لھم امنوا کما امن الناس ” جب ان منافقوں سے کہا جاتا ہے کہ تم بھی اسی طرح ایمان لاؤ، جس طرح دوسرے لوگ ایمان لائے “ قالوا ” تو جواب میں کہتے ہیں “ انؤمن کما امن استفھاء ” کیا ہم بھی اسی طرح ایمان لائیں جس طرح یہ بیوقوف ایمان لائے ہیں فرمایا “ الا انھم ھم السفھآء ” سن لو ! بیوقوف خود وہی ہیں “ ولکن لا یعلمون ” مگر یہ جانتے نہیں یہاں یہ اشکال وارد ہوتا ہے کہ منافقین تو برملا ایمان کا انکار نہیں کرسکتے تھے کیونکہ بظاہر تو وہ ایمان لا چکے تھے۔ تو پھر وہ یوں کیسے کہہ سکتے تھے۔ کہ ہم بیوقوفوں کی طرح کیسے ایمان لائیں اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ ایسی بات وہ برملا مسلمانوں کے سامنے نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے خاص معتمد آدمیوں کے روبرو کرتے تھے۔ جنہیں اپنا رازداں سمجھتے تھے کہ وہ ایسی بات کا برا نہیں منائیں گے۔ اس مقام پر ایک اور نکتہ قابل غور ہے اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ جب ان سے کہا جاتا ہے ایمان لاؤ، حالانکہ ایمان کا دعوے تو وہ پہلے ہی کر رہے ہیں تو ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ محض زبانی طور پر ایمان نہ لاؤ بلکہ حقیقی اور صحیح ایمان لاؤ، جیسے دوسرے مسلمان ایمان لائے ہیں کیونکہ فلاح کا دارومدار اسی ایمان پر ہے۔ لذات فانیہ ، شہوات نفسانیہ ، ریا کاری ، طلب جاہ وغیرہ حقیقی ایمان کی بدولت ہی دفع ہوتی ہیں ، کسی باطل مقصد کے لیے خالی ایمان کا اظہار ہرگز مفید نہیں ہوسکتا۔ اسی لیے فرمایا کہ حقیقی ایمان لاؤ۔ یعنی دل کی پوری تصدیق اور اخلاص کے ساتھ ایمان کو قبول کرو۔ دوسرے مقام پر آتا ہے “ یایھا الذین امنوا امنوا ” اے ایمان والو ! ایمان لاؤ یعنی محض زبانی کلامی ایمان کافی نہیں بلکہ حقیقی اور مخلصانہ ایمان اختیار کرو۔ اسی لیے منافقین سے کہا گیا ہے کہ دوسرے لوگوں کی طرح ایمان لاؤ۔ وہ دوسرے لوگ کون ہیں ؟ بلاشبہ وہ حضور ﷺ کے صحابہ کرام ؓ ہیں۔ جو حضور ﷺ پر اخلاص کے ساتھ ایمان لائے۔ ابن عساکر (رح) جو بہت بڑے مؤرخ ہیں انہوں نے اپنی سند کے ساتھ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت نقل کی ہے (1 ۔ تفسیر درمنثور ج 1 ، ص 30 بحوالہ بن عساکر و تفسیر عزیزی فارسی پارہ نمبر 1 ص 107) کہ آیت پاک کا مطلب یہ ہے۔ کہ تم اس طرح ایمان لاؤ کما امن ابوبکر و عمر وعثمان وعلی یعنی جس طرح حضرت ابوبکر صدیق ؓ ، حضرت عمر ؓ ، حضرت عثمان ؓ اور حضرت علی ؓ ایمان لائے ہیں ، اس طریقے پر تم بھی ایمان لاؤ۔ ان کا ایمان خلوص اور حقیقت پر مبنی ہے۔ ان کے معیار پر پورے اترو محض زبانی دعویٰ سے بات نہیں بنے گی تم تو جھوٹے ہو “ وما ھم بمؤمنین ” یہ لوگ قطعاً مومن نہیں ہیں۔ معیار حق : اسی سورة میں آگے چل کر یہودیوں کے متعلق اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں “ فان امنوا بمثل ما امنتم بہ فقد اھتدوا ” اگر یہ لوگ بھی تمہاری طرح ایمان لے آئیں تو یہ بھی ہدایت پاجائیں گے یہاں سے معیار حق ہونے والی بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ حضور ﷺ کے صحابہ کرام ؓ خصوصاً خلفائے راشدین معیار حق ہیں یہ اصحاب کیا اگرچہ نبی کی طرح معصور تو نہیں ہیں۔ مگر امت کے لیے نمونہ ہیں۔ وہ اپنے اخلاص اور حقیقی ایمان کی وجہ سے ان خوابیوں سے محفوظ تھے جو ایمان کے باوجود انسان کے اندر پیدا ہوجاتی ہیں اور جن کی وجہ سے آدمی کا نام ہوجاتا ہے معیار حق اسی کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر قرآن پاک میں فرمایا ہے : “ لتکونوا شھدآء علی الناس ویکون الرسول علیکم شھیدا ” شاہ عبد القادر محدث دہلوی (رح) عنہ اس کا مطلب یوں بیان کرتے ہیں (2 ۔ قرآن مجید مترجم شاہ عبد القادر (رح) ص 46 مطبوعہ تاج کمپنی) تاکہ ہوجاؤ تم لوگوں کو بتانے والے اور معلم اور اللہ کا رسول تمہیں بتانے والا ہے ۔ گویا اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام ؓ کو نمونے کی جماعت تیار کرکے ان سے خدمت اسلام کا کام لیا ہے حضور نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کے متعلق یہ بھی فرمایا (1 ۔ مسلم ج 1 ص 308) انتم شھدآء اللہ فی الرض خدا کی زمین پر تم اللہ کے گواہ ہو۔ یعنی جس کی اچھانی کی گواہی تم دو گے وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہوگا اور جس کی تم سرائی کی گواہی دو گے وہ اللہ کے ہاں برا ہوگا۔ اے صحابہ ! تم اللہ کے گواہ ہو اور خصوصا اے خلفائے راشدین ! تم اللہ کے گواہ ہو۔ آپ نے یہ جملہ تین دفعہ فرمایا۔ ترمذی شریف کی روایت میں ہے (2 ۔ ترمذی ص 528) کہ حضور ﷺ نے امیر المؤمنین عمر فاروق ؓ کے متعلق فرمایا “ ان اللہ جعل الحق علی لسان عمر وقلبہ ” یعنی اللہ تعالیٰ نے عمر ؓ کی زبان اور دل پر حق رکھ دیا ہے یعنی وہ حق کے سوا کوئی بات نہیں کرتا۔ ظاہر ہے کہ جس شخص کے قلب و زبان پر اللہ تعالیٰ نے حق رکھ دیا ہے۔ کیا وہ معیار حق نہ ہوگا ؟ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی روایت پہلے بیان ہوچکی ہے کہ اس طرح ایمان لاؤ جس طرح حضرت ابوبکر ؓ ، عمر ؓ ، عثمان ؓ ، علی ؓ اور ان کے ساتھی ایمان لائے ہیں۔ ان کا ایمان حقیقی ایمان ہے جو خلوص سے بھرپور ہے۔ ایسا ہی ایمان انسان کی فلاح کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ انسان اور اس کا دل : الناس یعنی انسان انس کے مارے سے ہے۔ انسان اس لیے انسان ہے۔ کہ اس میں الفت اور مانوس ہونے کا مادہ پایا جاتا ہے۔ عربی میں اسے ما سمی الانسان الا لانسہ کہتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے قلب کو قلب اس لیے کہتے ہیں کہ یہ الٹا ہوتا ہے ما القلب الا انہ یتقلب ایک تو یہ اپنی وضع کے اعتبار سے الٹا ہوتا ہے ۔ یعنی اس کا پیندا اوپر اور سر نیچے ہوتا ہے۔ اور دوسرے یہ کہ دل میں پلٹیاں آتی رہتی ہیں۔ اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے خبردار کیا “ واعلموا ان اللہ یحول بین المرء وقلبہ اللہ تعالیٰ انسان اور اس کے دل کے درمیان رکاوٹ ڈال دیتا ہے۔ اس لیے محتاط رہنا چاہئے ۔ ذرا سی غلطی پر خدا تعالیٰ دل بدل کرسکتا ہے۔ اسی لیے دعا میں سکھایا گیا ہے (3 ۔ ترمذی ص 312) یا مقلب القلوب ثبت قلبی علیٰ دینک اے دلوں کو پلٹنے والے اللہ کریم ! ہمارے دلوں کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ۔ بہر حال انسان کو انسان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے اندر انس کا مادہ ودیعت کیا گیا ہے۔ حقیقی انسان کون ہیں ؟ : شاہ عبد العزیز محدث دہلوی ؓ یہاں پر ایک نکتہ بیان فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 106) کہ اس مقام پر منافقوں کو کہا جا رہا ہے کہ تم بھی اسی طرح ایمان لاؤ۔ جس طرح دوسرے لوگ ایمان لائے ہیں ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کہلا نے کے وہی لوگ مستحق ہیں ، جو حقیقی ایمان سے معمور ہیں۔ یہی لوگ انسانیت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہیں اور انہی کی وجہ سے دنیا کا نظام درست رہتا ہے جو لوگ حقیقی ایمان سے محروم ہیں۔ ان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا “ اولئک کالانعام بل ھم اضل ” یہ تو جانوروں کی مانند ہیں یا ان سے بھی بدتر ، یہ انسان کہلانے کے حق دار نہیں ہیں یہ لوگ جانوروں کی طرح کھانے پینے اور جفتی کے سوا کچھ نہیں جانتے۔ لہٰذا حقیقی انسان وہ ہیں جو حقیقی ایمان کی دولت سے مالا مال ہیں۔ بیوقوف کون ہیں ؟ پہلے گزر چکا ہے کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ دوسرے لوگوں کی طرح راسخ ایمان لاؤ۔ تو وہ کہتے ہیں کہ کیا ہم بیوقوفوں کی طرح ایمان لائیں حالانکہ حقیقت میں منافق ہی بیوقوف ہیں۔ مگر انہیں علم نہیں یہ لوگ ایمانداروں کو اس لیے بیوقوف سمجھتے ہیں کہ یہ دنیا کے نقد سودے کو چھوڑ کر آخرت کی فکر کرتے ہیں۔ اس کو حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں مگر وہ بیوقوف یہ بات نہیں سمجھتے کہ عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ انسان نقصان سے بچ جائے اور فائدہ حاصل کرے ایماندار دنیا کے اسی عارضی فائدے کی پروا نہ کرتے ہوئے آخرت کے ابدی فائدے تو حاصل کرتے ہیں۔ لہٰذا صحیح معنوں میں عقلمندیہی ہیں اور منافق بیوقوف ہیں۔ جو آخرت کو چھوڑ کر یعنی حقیقی اور ابدی فائدہ کی بجائے دنیا کا عارضی اور فانی فائدہ تلاش کرتے ہیں ۔ مگر یہ اپنے آپ کو عقلمند سمجھتے ہیں۔ اور دوسروں کو بیوقوف جانتے ہیں۔ اور اس طرح اس فریب سے دنیا کا مفاد حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا “ الا انہم ھم السفھآء ” حقیقت میں یہی بیوقوف ہیں “ ولکن لا یعلمون ” مگر یہ حقیقت حال کو نہیں جانتے ۔ منافقوں کی دوزخی پالیسی : اللہ تعالیٰ نے منافقوں کا پردہ فاش کرتے ہوئے فرمایا “ واذا لقوا الذین امنوا ” جب یہ ایمانداروں سے ملتے ہیں تو خوشامد کرتے ہیں “ قالوا امنا ” کہتے ہیں کہ ہم تو ایمان لے آئے ہیں تاکہ مسلمان کہیں اپنی پارٹی کے آدمی سمجھیں۔ مگر حقیقت یہ ہے “ واذا خلوا الی شیطینھم ” جب یہ اپنے شیطانوں کے پاس جاتے ہیں۔ قالوا انا معکم تو کہتے ہیں کہ ہم تو تمہارے ساتھ ہیں انما نحن مستھزءون یہ تو ہم مسلمانوں کا محض تمسخراڑا رہے ہیں۔ گویا ہم ان کی حمایت کا دعویٰ کرکے انہیں بیوقوف بنا رہے ہیں۔ یہاں پر شیاطین سے مراد منافقوں کے بڑے بڑے سردار اور سرغنے ہیں۔ جو نفاق کے پروگرام کے بانی تھے ۔ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ تبلیغی نقطہ نظر سے ان لوگوں کو بیوقوف یا شیطان کا لقب دینا کسی قدر زیادتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کو یہ القاب اس وقت دیے گئے ہیں جب تبلیغ کے تمام تقاضے پورے ہوچکے ہیں۔ اور یہ ثابت ہوگیا ہے کہ یہ لوگ اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اپنی کرتوتوں سے باز آنے والے نہیں ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ تبلیغ کے ابتدائی دور میں اس قسم کے القاب دینا درست نہیں۔ مگر اتمام حجت کے بعد ایسا کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ استہزاء من اللہ کا مفہوم : منافقین نے کہا تھا کہ مسلمانوں کا تمسخر اڑا رہے ہیں تو اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا اللہ یستھزی بھم اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہنسی کرتا ہے ویمدھم فی طغیانھم اور مہلت دیتا ہے ، ان کی سرکشی میں یعمھون وہ اندھے اور سرگردان ہو رہے ہیں ۔ یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسی کے ساتھ ہنسی کرنا ، اس کا تمسخر اڑانا تو فعل عبث اور ناجائز ہے اس کی کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کیسے ہو سکتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ تمام عیوب سے مبرا ہے۔ اس کے جواب میں بعض مفسرین فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 51 ، معالم التنزیل ج 1 ص 16 ، روح المعانی ج 1 ص 185) کہ یہ استہزاء نہیں بلکہ مشاکلت ہے۔ یعنی جو سلوک منافقین نے مسلمانوں کے ساتھ کیا ، ویسا ہی سلوک اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے پسند کیا۔ اس قسم کی مثالیں دوسرے مقامات پر بھی ملتی ہیں۔ مثلاً جزاؤ اسیئۃ سیئۃ برائی کی جزا برائی ہے حالانکہ جزا تو عدل کا نام ہے۔ اور عدل برائی نہیں ہوتی۔ تو یہاں پر بھی مراد یہی ہے۔ کہ جیسا سوال ہے اس کا ہم شکل جواب ہے۔ یہی بات ہے ومکروا مکرا وم کرنا مکرا میں بھی پائی جاتی ہے۔ یہ عربی زبان کی لطافت ، بلاغت اور فصاحت ہے۔ اور اسے مشاکلت کہتے ہیں ۔ اس طرز کلام کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ منافقین کے تمسخر کا نقصان انہی کی طرف لوٹتا ہے۔ اللہ خود ٹھٹھا نہیں کرتا بلکہ منافقین کے تمسخر کا ضرر خود انہی کی طرف جاتا ہے۔ وہ خدا کو کیا ضرر پہنچائیں گے ۔ نبی (علیہ السلام) اور مؤمنین کو اللہ تعالیٰ ان کے شر سے محفوظ رکھے گا۔ یعنی اللہ تعالیٰ مؤمنین کو منافقین کی چالوں سے آگاہ کر دے گا ، تاکہ وہ ان کے ضرر سے بچ سکیں اللہ یستھزی بھم کا یہی مطلب ہے۔ استہزاء منجانب اللہ کا ایک اور مطلوب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ منافقین کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہے۔ جیسا ٹھٹھا مذاق کرنے والوں کے ساتھ ہونا چاہئے ۔ چونکہ منافقین محض زبانی دعوے کی بنا پر جماعت المسلمین میں شریک ہوتے ہیں اور مفاد حاصل کرتے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ بھی کہتا ہے۔ اچھا ان کو ایسا کرنے دو ۔ وہ نمازیں پڑھیں ، صدقہ دیں ، جہاد میں شرکت کریں۔ مگر ان کا کوئی عمل قبول نہیں ہوگا ۔ کیونکہ وہ دل سے تو ایمان لائے نہیں لہٰذا ان کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوگا جو مذاق کرنے والے کے ساتھ ہونا چاہئے۔ یہ بھی گویا ان کے ساتھ ایک قسم کا تمسخر ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن منافقین دوزخ کے گڑھے میں پہنچ جائیں گے۔ تو جنت کا دروازہ کھولا جائے گا ، گویا انہیں جنت میں جانے کی اجازت مل گئی ہے۔ جنتی ان منافقوں کی طرف دیکھیں گے تو وہ محسوس کریں گے کہ واقعی انہیں جنت میں داخلے کی اجازت مل گئی ہے۔ چناچہ وہ دوڑ کر جنت کے دروازے پر پہنچیں گے مگر اتنے میں دروازہ بند ہوجائے گا۔ اور منافق نامراد رہ جائیں گے۔ اللہ یستھزی بھم کی یہ بھی ایک صورت ہے یہ لوگ اس دنیا میں اس قسم کی چالاکی کر رہے ہیں ، توکل قیامت کے دن ان کے ساتھ بھی تمسخر ہوگا۔ گائے کا واقعہ اس سورة میں آرہا ہے ۔ بنی اسرائیل نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ ہمارا آدمی قتل ہوگیا ۔ مگر قاتل کا پتہ نہیں چلتا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں کہا کہ گائے ذبح کریں ، تو اس موقع پر ان لوگوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا ، کیا آپ ہمارے ساتھ ٹھٹھا کرتے ہیں۔ تو آپ نے جواب دیا “ اعوذ باللہ ان اکون من الجھلین ” میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں تم سے ٹھٹھا کرکے جاہلوں میں شمار ہوجاؤں۔ خدا کے بندو ! میں تو اللہ کا حکم تم کو سنا رہا ہوں کہ گائے ذبح کرو۔ اس کے گوشت کا ٹکڑا مردے پر مارو۔ تو قاتل کا پتہ چل جائے گا۔ میں تم سے ٹھٹھا نہیں کر رہا ہوں۔ الغرض ! فرمایا ، اللہ تعالیٰ ان کی سرکشی میں ان کو مہلت دیتا ہے اور وہ اندھے ہو رہے ہیں یہاں پر یعمھون سے مراد دل کا اندھا ہونا ہے جیسا کہ سورة حج میں ہے کہ دیکھو ظاہری آنکھیں اکثر اندھی نہیں ہوتیں “ تعمی القلوب التی فی الصدون ” وہ دل اندھے ہوتے ہیں ۔ جو سینوں میں موجود ہیں۔ نہ وہ صحیح بات کو دیکھتے ہیں نہ اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سے پہلی آیت میں کافروں کے دلوں میں مہر لگانے کا بھی ذکر آیا ہے۔ آگے ان کی مثالیں بھی آرہی ہیں ۔ ہدایت کے بدلے گمراہی : فرمایا “ اولئک الذین اشتروا الضللۃ بالھدی ” یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے خرید لیا ہے گمراہی کو ہدایت کے بدلے میں۔ ظاہر میں انہوں نے زبان سے یہی کہا تھا کہ ہم ایمان لے آئے ہیں مگر افسوس کہ اس ہدایت کو چھوڑ کر انہوں نے باطن کی بد عقیدگی اور گمراہی کو اختیار کیا “ فما ربحت تجارتہم ” پس ان کی تجارت نے ان کو کوئی فائدہ نہ دیا “ وما کانوا مھتدین ” اور نہیں تھے وہ ہدایت یافتہ۔ یہ تجارت کا لفظ بھی بڑا معنی خیز ہے۔ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی ص 109 پ 1) اللہ تعالیٰ جب انسان کو دنیا میں بھیجتا ہے۔ تو عمر اور تمام اسباب دیکر بھیجتا ہے کہ یہ تمہاری پونجی ہے اس کے ساتھ اعمال خریدو اس سے تمہیں آخرت کی دائمی زندگی میں فائدہ پہنچے گا۔ عمر کی یہ پونجی برف کی مانند ہے۔ اوپر سے بھادوں کی تپش پڑ رہی ہے۔ اور یہ برف پگھلتی جا رہی ہے۔ اگر اس کے پگھلنے سے پہلے اس سے قیمتی اشیاء ایمان اور اعمال صالحہ خرید لو گے تو یہ عمر کی پونجی ٹھکانے لگے گی۔ اور تم ہمیشہ کے لیے راحت پاؤ گے۔ اور اگر تم نے عمر عزیز کے بدلے کفر ، شرک ، بدعقیدگی ، معاصی اور لہو و لعب خریدا ، تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خسارے میں مبتلا ہوجاؤ گے ، اسی لیے فرمایا کہ منافقین کی تجارت نے انہیں کوئی فائدہ نہ پہنچایا ۔ اس کی ایک اور مثال ایسی ہے کہ انسان تریاق کے بدلے زہریلا ہل خریدے۔ اگر تریاق حاصل کرلیا تو ہر قسم کی تکلیف سے بچ جائے گا۔ زندگی آسودہ ہوجائے گی۔ اور اگر خدانخواستہ اس نے زہر کو پسند کیا تو تباہ ہوجائے گا۔ اس قسم کی تجارت نے کوئی نفع نہ دیا۔ “ وما کانوا مھتدین ” اور یہ لوگ ہدایت یافتہ نہ تھے۔ بلکہ ابدی خسارے میں مبتلا ہوئے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے منافقوں کی بعض خرابیاں بیان فرمائی ہیں۔ اگلی آیات میں مثال کے ذریعے ان کی مزید خرابیاں اور ان کا انجام بیان فرمایا۔
Top