Madarik-ut-Tanzil - Al-Muminoon : 14
ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا١ۗ ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ١ؕ فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَؕ
ثُمَّ : پھر خَلَقْنَا : ہم نے بنایا النُّطْفَةَ : نطفہ عَلَقَةً : جما ہوا خون فَخَلَقْنَا : پس ہم نے بنایا الْعَلَقَةَ : جما ہوا خون مُضْغَةً : بوٹی فَخَلَقْنَا : پھر ہم نے بنایا الْمُضْغَةَ : بوٹی عِظٰمًا : ہڈیاں فَكَسَوْنَا : پھر ہم پہنایا الْعِظٰمَ : ہڈیاں لَحْمًا : گوشت ثُمَّ : پھر اَنْشَاْنٰهُ : ہم نے اسے اٹھایا خَلْقًا : صورت اٰخَرَ : نئی فَتَبٰرَكَ : پس برکت والا اللّٰهُ : اللہ اَحْسَنُ : بہترین الْخٰلِقِيْنَ : پید ا کرنے والا
پھر نطفے کو لوتھڑا بنایا پھر لوتھڑے کی بوٹی بنائی پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں پھر ہڈیوں پر گوشت (پوست) چڑھایا پھر اس کو نئی صورت میں بنادیا تو خدا جو سب سے بہتر بنانے والا ہے بڑا بابرکت ہے
14: ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ (پھر ہم نے نطفہ کو بنایا۔ ) نحو : یہاں خلق کو صیّر کے معنی میں لیا کیونکہ وہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہے۔ اور اصل میں خلق ایک مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے۔ عَلَقَۃً (خون کا لوتھڑا) ۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے سفید نطفہ کو سرخ لوتھڑا بنایا۔ فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً (پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں) فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظٰمًا (پھر لوتھڑے کی بوٹی بنائی) فَکَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا (پھر ہم نے ہڈیوں کو گوشت پہنایا) ہڈیوں پر گوشت اگا دیا۔ وہ ہڈیوں کا لباس سا بن گیا۔ قراءت : شامی اور ابوبکر نے العظم پڑھا ہے۔ زید نے یعقوب سے العظام اور ابو زید سے العظم واحد کو جمع کی جگہ لائے کیونکہ التباس کا خدشہ نہیں اور انسان بہت سی ہڈیوں والا ہے۔ ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ (پھر اس کو بنایا) اس میں ضمیر انسان کی طرف لوٹتی ہے۔ نمبر 2۔ المذکور کی طرف لوٹتی ہے۔ خَلْقًا اٰخَرَ (دوسری مخلوق) یعنی ایسی تخلیق جو پہلی کے خلاف تھی۔ اولاً جماد تھا پھر حیوان بنادیا۔ اور حیوان نا طق سمیع وبصیر بنایا۔ حالانکہ پہلے وہ اس کے برعکس تھا۔ قولِ احناف : اسی بنیاد پر ہم کہتے ہیں اگر کسی نے ایک انڈا غصب کیا وہ بارآور تھا اس سے چوزا نکل آیا۔ اس پر انڈے کی ضمان لازم ہے۔ چوزا واپس نہ کرے گا۔ کیونکہ وہ (خلق آخر) دوسری تخلیق ہے جو انڈے سے مختلف اور الگ ہے۔ فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ (پس اللہ تعالیٰ بڑی شان والے ہیں) علم وقدرت میں اس کی شان بلند ہے۔ اَحْسَنُ ۔ نحو : یہ خبر مبتدأ محذوف کی ہے۔ یا بدل ہے مگر صفت نہیں کیونکہ یہ نکرہ ہے خواہ مضاف ہے کیونکہ یہاں مضاف الیہ منؔ کے عوض آیا ہے۔ الْخَالِقِیْنَ (سب سے بہتر پیدا کرنے والے ہیں) خالقین۔ مقدرین کے معنی میں ہے یعنی وہ اندازہ کرنے والوں میں سب سے بہتر انداز کرنے والے ہیں۔ تو ممیز کا ذکر الخالقین کی دلالت کی وجہ سے چھوڑ دیا۔ ایک قول : عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح نبی اکرم ﷺ کا کاتب تھا۔ اس نے یہ جملہ آپ کے لکھوانے سے پہلے بولا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اسی طرح نازل ہوئی ہے۔ اس پر عبد اللہ کہنے لگا۔ اگر محمد نبی ہیں تو میں بھی نبی ہوں اور مجھ پر بھی وحی آتی ہے پھر وہ مرتد ہو کر مکہ چلا گیا پھر فتح مکہ کے روز مسلمان ہوا۔ دوسرا قول : یہ حکایت جس کو سبیل الرشاد اور ثعلبی نے کلبی عن ابن عباس ؓ کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔ صحیح نہیں کیونکہ ارتداد کا واقعہ مدینہ کا ہے اور یہ سورة مکمل مکی ہے دوسرا کلبی مشہور دروغ گو راوی ہے۔ (فلیحذر) اور قول یہ ہے کہ یہ جملہ فاروق اعظم کی زبان سے نکلا ( موافقات وحی میں سے ہے) یا معاذ ؓ کی زبان سے نکلا ہے۔
Top