بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mafhoom-ul-Quran - An-Noor : 1
سُوْرَةٌ اَنْزَلْنٰهَا وَ فَرَضْنٰهَا وَ اَنْزَلْنَا فِیْهَاۤ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ لَّعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
سُوْرَةٌ : ایک سورة اَنْزَلْنٰهَا : جو ہم نے نازل کی وَفَرَضْنٰهَا : اور لازم کیا اس کو وَاَنْزَلْنَا : اور ہم نے نازل کیں فِيْهَآ : اس میں اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ : واضح آیتیں لَّعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَذَكَّرُوْنَ : تم یاد رکھو
یہ ایک سورت ہے جس کو ہم نے نازل کیا اور اسکے احکام کو فرض کردیا اور اس میں واضح آیتیں نازل کیں تاکہ تم یاد رکھو۔
سورة نور کی فضیلت تشریح : یوں تو پورا قرآن پاک ہی رشدو ہدایت اور حق و صداقت کی باتوں سے بھرا ہوا ہے کیونکہ یہ اس جلیل القدر عظیم و حکیم کی طرف سے نازل کیا گیا ہے جو حق اور سچ ہے۔ مگر اس سورت کا دیباچہ اللہ رب العزت نے کچھ تھوڑا مختلف دیا ہے۔ سب سے پہلے تو ” ہم “ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو بات کہنے والے کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے۔ دوسرے فقرے میں ان احکامات کا ماننا ہر مسلمان کے لیے لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اللہ کو مانتے ہو تو اس کے احکامات کو بھی ماننا لازمی ہے۔ یہ نہیں کہ چاہو تو مانو چاہو تو نہ مانو۔ اس کی ہرگز کوئی گنجائش نہیں۔ تیسری بات جو واضح کر کے کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اس سورت میں جو کچھ بھی احکامات جاری کیے گئے ہیں وہ اتنے سادہ ‘ آسان اور عام فہم ہیں کہ ان کو سمجھنا بالکل آسان ہے۔ کوئی مشکل اور نہ سمجھ میں آنے والی بات نہیں کہ سمجھ نہ آنے کا بہانہ کیا جاسکے۔ اصل میں جب یہ سمجھ میں آجاتا ہے کہ اللہ ایک ہے تو بیشمار مشکلات جو عام زندگی میں پیش آتی رہتی ہیں خود بخود آسان ہوجاتی ہیں۔ کیونکہ ہر بات کا حل تو اللہ نے انسان کو بتا دیا ہے اور جو حل اللہ نے بتا دیا ہے وہ حل ہی بہترین ہے کیونکہ توحید کا تصور محض ایک مذہبی عقیدہ نہیں ہے۔ اس سے اجتماعی زندگی کا وہ پورا نظام ‘ جو انسان کی خود مختار یا غیر اللہ کی حاکمیت اور الوہیت کی بنیاد پر بنا ہو ‘ جڑ سے اکھڑ جاتا ہے اور ایک دوسری بنیاد پر ایک نئی عمارت تیار ہوتی ہے۔ آج دنیا آپ کے موذنوں کو ” اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ “ کی صدا بلند کرتے ہوئے اس لیے ٹھنڈے پیٹوں سن لیتی ہے کہ نہ پکارنے والا جانتا ہے کہ کیا پکار رہا ہوں نہ سننے والوں کو اس میں کوئی معنی اور کوئی مقصد نظر آتا ہے۔ (ہمارا سنگین ترین مسئلہ مصنف محمد منظور الحق ڈار) مطلب کہنے کا یہ ہے کہ جب ایک شخص دل و جان اور زبان سے اقرار کرلیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو پھر اس کے دل میں نہ تو کسی دشمن کا خوف رہتا ہے نہ ظالم کا اور نہ ہی شیطان کی طاقت ہی اس پر اثر کرتی ہے۔ اس کے سامنے صرف الہ العلمین کی طاقت احکامات اور فرامین ہی رہتے ہیں جو ہر صورت دنیا و آخرت میں اس کے لیے آسانیاں ‘ رحمتیں ‘ برکتیں اور نجات کا ذریعہ ہی بنے رہتے ہیں۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ زندگی کے تمام مسائل کا تالا ہم توحید کی چابی سے کھول سکتے ہیں۔ بچہ ‘ بوڑھا ‘ جوان ‘ عورت ‘ مرد ‘ ہم سب کو توحید کے یقین کو دل میں رکھ کر زندگی کے ہر میدان میں بڑھتے چلے جانا چاہیے۔ اور موذن کی ہر آواز پر توحید کی روح کو بیدار کرنا چاہیے۔ تو پھر اللہ کے علاوہ کون سی طاقت ہے جو ہمیں زیر کرسکتی ہے ؟ کوئی بھی طاقت نہیں۔ توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے کیا ڈر ہے جو ہو ساری خدائی بھی مخالف کافی ہے اگر ایک خدا میرے لیے ہے
Top