Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 9
اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَقْدِرُوْا عَلَیْهِمْ١ۚ فَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠   ۧ
اِلَّا : مگر الَّذِيْنَ تَابُوْا : وہ لوگ جنہوں نے توبہ کرلی مِنْ قَبْلِ : اس سے پہلے اَنْ : کہ تَقْدِرُوْا : تم قابو پاؤ عَلَيْهِمْ : ان پر فَاعْلَمُوْٓا : تو جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحم فرمانے والا
مگر ہاں وہ لوگ جو اس سے پہلے پہلے کہ تم ان پر قابو پائو توبہ کرلیں تو جان لو کہ اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا اور نہایت مہربان ہے۔2
2 ان لوگوں کی سزا جو اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول ﷺ سے لڑتے ہیں اور ملک میں فساد و بدامنی برپا کرنے کو دوڑے دوڑے پھرتے ہیں بس یہی ہے کہ ان کو قتل کیا جائے یا وہ سولی پر چڑھائے جائیں یا ان کے ہاتھ اور پائوں مخالف اور مقابل جانب سے کاٹے جائیں یعنی داہنا ہاتھ اور بایاں پائوں یا وہ شہر بدر کر دیئیجائیں اور شہری آزادی سے ان کو محروم کردیا جائے یہ مذکورہ سزا سزا ان کے لئے دنیا میں سخت ذلت و رسوائی ہے اور ان کے لئے آخرت میں بہت بڑا عذاب ہے مگر ہاں وہ لوگ جو اس سے پہلے پہلے کہ تم ان پر قابو پائو اور ان کو گرفتار کرو وہ توبہ کرلیں تو یقین جانو ! اور خوب جان لو کہ اللہ تعالیٰ اپنے حقوق کو بڑا بخشنے والا اور توبہ کرنیوالوں پر نہایت مہربانی کرنے والا ہے۔ (تیسیر ) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں اول فرمایا خون کرنا گناہ ہے مگر بدلے میں یا فساد کی سزا میں اب اس کا بیان کیا کہ جو کوئی لڑائی کرے اللہ و رسول سے یعنی حاکم کے مخالف ہور کر ملک کو غارت کرے وہ ہاتھ لگے تو سولی چڑھا کر ماریئے یا قتل کر یئے یا دایاں ہاتھ اور بایاں پائوں کاٹیے یا قید میں ڈال رکھیے جیسی خطا ہو ویسی سزا (موضح القرآن) فائدہ :- اگر ایک شخص راہ لوٹتا تھا اب نے موقوف کیا اور اسباب اس کام کا دور کیا تو اس پر حد نہیں (موضح القرآن) اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں اور زمین میں فساد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ راہزنی اور ڈکیتی کرتے ہیں اور جن لوگوں کو اللہ کے حکم سے رسول ﷺ نے امن دیا ہے جیسے مسلمان اور ذمی ان کو قتل کرتے ہیں اور ان کے مال لوٹتے ہیں جیسے ہمارے ہاں ڈاکے ڈالنے والے اور قطاع الطریق جو راستوں میں لوگوں کو لوٹتے اور مارتے ہیں اس قسم کے لوگوں کو فرمایا ہے کہ زمین میں فساد کرتے پھرتے ہیں اور بےگناہ لوگوں کے مال لوٹ لیتے ہیں اور ان کو قتل کردیتے ہیں ان کی جزا یہ ہے ایک طرف کا ہاتھ اور دوسری طرف کے پائوں کا مطلب یہ ہے کہ داہنا ہاتھ پہنچے کے پاس اور باہنا پائوں ٹخنے کے پاس سے کاٹ دیا جائے شہر بدر کرنے کا مطلب امام ابوحنیفہ کے نزدیک قید خانے میں ڈال دینا ہے گرفتاری سے قبل توبہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ اگر مجرموں نے گرفتار ہونے سے پہلے تو بہ کرلی تو حد ساقط ہوجائے گی اور حد شرعی جو اللہ تعالیٰ کا حق ہے وہ معاف ہوجائے گا البتہ حقوق العباد معاف نہیں ہوں گے جیسا کہ ہم آگے مثال دے کر سمجھا دیں گے یہاں تو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ حدود کو حقوق اللہ کہا جاتا ہے اور قصاص کو حق العبد کہتے ہیں حق العبد اگر بندہ معاف کر دے تو معاف ہوجاتا ہے لیکن حدود کسی کے معاف کئے سے معاف نہیں ہوتیں اسی لئے ہم نے تسہیل میں اس جانب اشارہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حقوق بخشدینے والا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی رہزن گرفتار ہونے سے قبل توبہ کرلے اور اپنی لوٹ مار سے باز آجائے تو اللہ اس پر سے حد سادہ فرما دے گا لیکن اگر قصاص کا جرم بھی کیا ہے تو اس کا بدلہ لیا جائے گا کیونکہ وہ جب تک صاحب حق معاف نہ کرے معاف نہیں ہوگا ۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ حدود میں یہی ایک حد ہے جو توبہ کرنے سے ساقط ہوجاتی ہے ۔ باقی حدود مثلاً چوری، زنا، حد قذف وغیرہ توبہ سے مطلقاً معاف نہیں ہوتیں بلکہ ان میں تفصیل ہے جو کتب اصول میں مذکور ہے ۔ بعض حضرات نے اس آیت سے مشرکین مراد لئے ہیں بعض نے مرتدین لئے ہیں بعض نے کہا وہ باغی مسلمان مراد ہیں جو حاکم کی اطاعت سے نکل جائیں اور ملک میں لوٹ مار کرتے پھریں مگر راجح یہی ہے کہ آیت کو عام رکھا جائے تاکہ آیت ان تمام جارحانہ کارروائی کرنے والوں پر صادق آسکے جو اسلامی حکومت کے نظام کو درہم برہم کرنے والی ہوں ، مثلاً ارتداد، رہزنی، ڈکیتی، لوٹ مار، قتل، اسلامی اقتدار کے خلاف سازشیں وغیرہ آیت کا شا ن نزول بھی اسی کا موید معلوم ہوت ہے کیونکہ یہ آیت قبیلہ عکل اور عرینہ کے بعض لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو مدینہ منورہ میں آئے اور انہوں نے اسلام قبول کیا اور حضور کے فرمانے سے اونٹ چرانے والوں کے ساتھ رہے پھر ایک دن موقعہ پاکر اونٹ چرانے والوں کو قتل کیا اور ان کی آنکھیں پھوڑدیں اور اونٹ لے کر بھاگ گئے حضور ﷺ نے ان کے پیچھے بیس آدمیوں کا ایک دستہ بھیجا جو ان کو رفتار کر لائے پھر حضور ﷺ نے ان کو مختلف سزائیں دیں کیونکہ یہ لوگ یہ لوگ مرتد بھی ہوئے انہوں نے قتل بھی کیا اور مال بھی لوٹا۔ ابن جریر کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کا اہل کتاب کی ایک قوم سے معاہدہ تھا انہوں نے عہد کو توڑا اور زمین میں فساد کرنا شرو ع کردیا اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو اختیار دیا کہ ان چاروں سزائوں میں سے جو مناسب سمجھو ان کو سزا دو اور چونکہ اس قسم کے جرائم کرنے والوں کی چار حالتیں ہوسکتی تھیں ان چاروں کی سزا بیان کردی ، وہ چار حالتیں یہ ہیں ایک یہ کہ راہزن صرف کسی کو قتل کردیں اور مال چھیننے کی نوبت نہ آئے دوسری حالت یہ ہے کہ ڈاکوئوں نے قتل بھی کیا ہو اور مال بھی چھینا ہو تیسری حالت یہ ہے کہ مال چھینا ہو اور قتل کی نوبت نہ آئی ہو چوتھی حالت یہ ہ کہ نہ مال چھیننے کی نوبت آئی ہو نہ قتل کی نوبت آئی ڈاکوئوں نے صرف ڈرایا دھمکایا تھا اور لوٹ مار کا ارادہ کر رہے تھے مگر اس سے پہلے ہی گرفتار ہوگئے۔ پہلی حالت میں ان کی سزا قتل ہے۔ دوسری حالت میں سولی کی سزا تیسری حالت میں داہنے ہاتھ اور باہنے پائوں کا قطع چوتھی حالت میں قید کی سزا خلاصہ یہ ہے کہ قتل نفس بھی ہو اور اخذ مال بھی یاد دونوں نہ ہوں یا قتل نفس ہو اور اخذ مال نہ ہو یا اخذمال ہو اور قتل نفس نہ ہو تو ان صورتوں میں یہ سزائیں مرتب ہوں گی خواہ راہزنوں میں سے یہ حرکت ایک نے کی ہو یا سب نے کی ہو اور کسی ایک شخص کے ساتھ کی ہو یا بہت سے آدمیوں کے ساتھ کی ہو بشرطیکہ اس قسم کے جرم کا ارتکاب شہر سے دور کیا گیا ہو اگر شہر میں ڈاکہ ڈالا ہو یا آبادی کے قریب کسی کو لوٹا مارا ہو تو یہ سزائیں مترب نہ ہوں گی اور جن لوگوں پر راہزنوں نے ڈاکہ ڈالا ہو وہ ذمی یا مسلمان ہوں جن کا مال محترم اور مومون ہے راہزنوں نے اگر قتل بھی کیا ہو اور مال بھی لوٹا ہو تو حاکم اسلام کو یہ بھی اختیار ہے کہ چاہے قتل کرے یا چاہے سولی پر چڑھائے یا ہاتھ پائوں کاٹ کر پھر سولی دے یا ہاتھ پائوں کا ٹ کر پھر قتل کرے اور چوتھی صورت میں یعنی جب کہ فقط ڈرایا دھمکایا ہو حاکم اسلام کو یہ بھی حق ہے کہ وہ قید کرنے سے پہلے کچھ تعزیر جاری کر دے پھر قید میں ڈال دے اور اس وقت تک قید میں رکھ جب تک قرائن سے اس کا تائب ہونا معلوم نہ ہوجائے یہ چاروں حالتیں جو زیر بحث ہیں ان کی سزائیں حق اللہ اور حدود ہیں اگر مال کا مالک یا مقتول کا ولی معاف کر دے گا تو معاف نہیں ہوگی۔ اگر راہزنوں نے قتل نہ کیا اور مال بھی نہ لیا بلکہ کسی مسلمان یا ذمی کو مجروح کر دیات و یہ صورت مذکورہ حدود سے خارج ہوگی اور اس کا حکم عام زخموں کا سا ہوگا یعنی مجرموں پر قصاص آئے گا اور اگر مجرموں نے مال بھی لوٹا اور زخمی بھی کیا تو حد صرف اخذ مال پر جاری ہوگی یعنی داہنا ہاتھ اور بایاں پائوں کا ٹ دیا جائے گا باقی قصاص کا معاملہ اس سے علیحدہ ہوگا کیونکہ وہ حق العبد میں داخل ہوگا چاہے مجروح معاف کر دے یا قصاص لے لے۔ ہاتھ اور پائوں کاٹنے کے بعد داغ دیئے جائیں تاکہ خون بند ہوجائے۔ الا الذین تابوا کا مطلب ہم غرض کرچکے ہیں اگر گرفتاری سے پہلے پہلے مجرم تائب ہوجائیں اور یہ فساد فی الارض چھوڑ دیں تو ان پر حدود جاری نہیں ہوں گی۔ جیسا کہ شعبی نے کہا کہ جاربہ بن بدر یتمی زمین میں فساد کرتا تھا اہل بصرہ میں سے مشہور محارب تھا حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس کو امن دینے کو تیار نہ تھے حالانکہ وہ تائب ہوچکا تھا اس نے حسن بن علی ابن عباس عبداللہ بن جعفر کی معرفت کئی دفعہ کوشش کی مگر جاربہ کو کامیابی نہ ہوئی آخر وہ سعید بن قیس ہمدانی کی خدمت میں حاضر ہوا سعید نے جاربہ کو اپنے گھر میں بٹھایا اور حضرت علی ؓ کی خدمت میں حاضر ہ کر پوچھا اے امیر المومنین ! اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہو جس نے اللہ اور اس کے رسول سے محاربہ کیا اور زمین میں فساد برپا کرتا پھر حضرت علی نے یہ آیت پڑھی انما جزائو الذین اور جب حضرت علی ؓ الا الذین تابوا پر پہنچے تو سعید نے فوراً کہا اے امیر المومنین ! جاربہ بن بدر تیمی کے لئے امان لکھ دیجیے چناچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے امان لکھ دی اسی طرح کا ایک واقعہ حضرت ابو موسیٰ کو پیش آیا جب وہ کوفہ میں حاکم تھے ایک شخص نے آ کر کہا اے ابو موسیٰ میں فلاں بن فلاں ہوں میں محارب تھا لیکن آپ کے قابو پانے سے پہلے میں تائب ہوچکا ہے ابو موسیٰ نے اعلان کردیا کہ یہ فلاں بن فلاں محارب تھا اور زمین میں فساد کیا کرتا تھا مگر یہ توبہ کرچکا ہے اب سوائے بھلائی کے اس کے ساتھ اور کوئی معاملہ نہ کیا جائے اور کوئی اس سے تعرض نہ کرے اگر یہ سچا ہے تو سچی راہ پر رہے گا اور اگر دروغ گو ہے تو اس کے گناہ خود اس کا تدارک کرلیں گے چناچہ یہ شخص کچھ دنوں کے بعد پھر نکل گیا اور قتل کردیا گیا ۔ (ابن جریر) علی اسد ی بھیاسی قسم کا ڈاکو تھا اور اس کی گرفتاری کی کوشش کی جاتی تھی مگر ہاتھ نہ لگتا تھا وہ تائب ہو کر مدینہ آیا اور مسجد نبوی میں اس سنے صبح کی نماز پڑھی جب اجالا ہوگیا تو لوگوں نے اسے پہچان لیا اور گرفتار کرنے کی کوشش کی اس نے کہا اب تم مجھ کو گرفتار نہیں کرسکتے میں تائب ہو کر آیا ہوں حضرت ابوہریرہ مسجد میں بیٹھے تھے انہوں نے فرمایا یہ سچ کہتا ہے اس کا ہاتھ پکڑ کر مردان کے پاس لے گئے مردان مدینہ کے حاکم تھے حضرت ابوہریرہ نے کہا یہ علی اسدی ہے لیکن چونکہ تائب ہو کر آیا ہے اس لئے اس پر اب آپ کا کوئی زور نہیں یہ سن کر مردان نے اس سے کوئی تعارض نہ کیا ۔ بہرحال ! آیت کا ماحصل اور خلاصہ ترجمہ یہ ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے محاربہ کرتے اور زمین میں فساد برپا کرتے پھرتے ہیں ان کی سزا یہ ہے کہ اگر انہوں نے کسی مسلمان یا ذمی کو قتل کیا ہو تو وہ قتل کئے جائیں اور اگر انہوں نے قتل کے ساتھ مال بھی لوٹا ہو تو ان کو پھانسی کی سزا دی جائے اور اگر انہوں نے صرف مال لوٹا ہو اور قتل نہ کیا ہو تو ان کا داہنا ہاتھ اور بایاں پائوں کاٹ دیا جائے اور کاٹ کر داغ دے دیا جائے اور اگر انہوں نے نہ قتل کیا ہو اور نہ مال لوٹنے کی نوبت آئی ہو بلکہ صرف ڈرایا دھمکایا ہو تو ان کو قید کردیا جائے اور ان کی شہری آزادی کو سلب کرلیا جائے یہ سزائے مذکور ان کے لئے دنیا میں سخت رسوائی اور ذلت کا سامان ہے اور ان کو اس کے علاوہ آخرت میں بھی عذاب عظیم ہوگا۔ مگر ہاں ! وہ لوگ ان سزائوں سے مستثنا ہوں گے جو تمہارے گرفتار کرنے اور ان پر قابو پانے سے پہلے پہلے تائب ہوجائیں اور اس ڈاکہ زنی سے باز آجائیں اور راستوں کا لوٹنا چھوڑ دیں تو ایسی حالت میں تم جان لو کہ اللہ تعالیٰ اپنی حدود کو بخش دینے والا اور اپنے حقوق کو معاف کردینے والا ہے اور توبہ قبول کرنے میں مہربانی کرنے والا ہے۔ اب آگے پھر معاصی سے بچنے اور نیک امور کو بجا لانے کی تاکید مذکور ہے اور جہاد فی سبیل اللہ کا ذکر ہے تاکہ یہ بات معلوم ہوجائے کہ ڈاکہ ڈالنے ار اس جان کو مارنے اور اس مال کو لوٹنے کا جو مامن ہو اور حکم ہے اور اعلاء کلمتہ اللہ کی غرض سے اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے کا حکم اور ہے گو بظاہر قتل اور لوٹ یہاں بھی ہے اور وہاں بھی ہے لیکن بدترین معصیت ہے اور ایک بہترین اجر وثواب کا موجب ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top