Mafhoom-ul-Quran - Al-A'raaf : 19
وَ یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَیْثُ شِئْتُمَا وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ
وَيٰٓاٰدَمُ : اور اے آدم اسْكُنْ : رہو اَنْتَ : تو وَزَوْجُكَ : اور تیری بیوی الْجَنَّةَ : جنت فَكُلَا : تم دونوں کھاؤ مِنْ حَيْثُ : جہاں سے شِئْتُمَا : تم چاہو وَلَا تَقْرَبَا : اور نہ قریب جانا هٰذِهِ : اس الشَّجَرَةَ : درخت فَتَكُوْنَا : پس ہوجاؤ گے مِنَ : سے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور ہم نے آدم سے کہا کہ تم اور تمہاری بیوی بہشت میں رہو۔ جہاں سے چاہو جو چاہو کھائو پیو، مگر اس درخت کے پاس نہ جانا۔ ورنہ گناہگار ہوجاؤ گے۔
سیدنا آدم (علیہ السلام) کا قصہ تشریح : سیدنا آدم (علیہ السلام) کی پیدائش کا واقعہ بیان ہوچکا ہے۔ اس کی چند مثالیں ان آیات میں بیان کی گئی ہیں۔ انسان کی آزمائش، ضمیر، روح اور جسم سے ہر وقت ہوتی رہتی ہے۔ وہ اس طرح کہ اللہ نے سیدنا آدم (علیہ السلام) کا پتلا مٹی سے بنایا ور اس میں اپنی روح پھونک دی۔ یعنی جسم ان تمام ذرات کا مجموعہ ہے جو مٹی میں پائے جاتے ہیں۔ جدید سائنس کی تحقیق کے مطابق انسان 126 عناصر کا مرکب ہے اور یہ سب مٹی میں موجود ہیں۔ انسان مٹی سے بنا مٹی کے اوپر پرورش پاتا ہے اور پھر مٹی میں ہی چلا جاتا ہے۔ مگر اس میں نفس اور روح کی جنگ جاری رہتی ہے۔ موت کے وقت انسان کا نفس اپنی روح کے ساتھ عالم برزخ کا سفر شروع کرتا ہے جبکہ جسم مٹی میں مل جاتا ہے۔ اس کے باوجود بھی اگر جنت والوں سے تو آرام دہ زندگی اور جہنم والوں سے ہے تو انتہائی مشکل زندگی میں مبتلا رہنا ہے اس کیفیت کو احادیث میں بہت وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ ان آیات کو اگر غور سے پڑھیں تو ان میں اللہ تعالیٰ نے وہ تمام راز کی باتیں کھول کر بیان کردی ہیں جن پر انسانی زندگی کا دارومدار ہے اور جن باتوں کی حقیقت جاننے کے لیے دنیا کے بڑے بڑے حکماء اور سائنس دان ہر وقت کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ اللہ نے چند آیات میں ان کو تفصیل سے بیان کردیا ہے۔ یعنی انسان کا جسم مٹی سے بنایا اور اس میں اپنی روح پھونک دی۔ روح کا تعلق انسان کے دل سے ہوتا ہے جبکہ نفس کا تعلق جسم سے ہوتا ہے۔ نفس اور روح کا کام علیحدہ علیحدہ ہوتا ہے۔ روح تو انتہائی پاکیزہ اور بلند درجہ رکھتی ہے مگر نفس کے تین درجے ہیں۔ جن کو ہم نفس امارہ، نفس لوامہ اور نفس مطمئنہ کا نام دیتے ہیں۔ نفس امارہ یہ وہ نفس ہے کہ جو شیطان کے قبضہ میں آجاتا ہے اور پھر وہ انسان سے اللہ کی ہر نافرمانی کروا لیتا ہے۔ جیسا کہ سیدنا آدم کو اس نے بہکا دیا اور انہوں نے اللہ کے حکم کو توڑتے ہوئے ممنوعہ درخت کا پھل کھالیا۔ اس کو آپ انسان کی آزمائش بھی کہہ سکتے ہیں۔ گناہ اور ثواب انسان کے سامنے ہر وقت موجود رہتے ہیں جس نے نفس امارہ کو شکست دے دی اس نے روح کی بلندی اور اللہ کی قربت حاصل کرلی اور اپنے لیے بہشت میں جگہ بنا لی۔ اسی لیے تو شاعر نے کہا ہے۔ ” بڑے موذی کو مارا نفس امارہ کو گر مارا “ اور پھر یہ مصلحت بھی معلوم ہوگئی کہ اللہ کی منع کی ہوئی باتوں میں انسان کے لیے ضرور کوئی نہ کوئی بھلائی موجود ہوتی ہے۔ سیدنا آدم (علیہ السلام) کو درخت کا پھل جو کھانے سے منع کیا گیا تھا۔ تو اس لیے منع کیا گیا تھا کہ اس کے کھانے سے ان کا لباس اتر گیا، یعنی وہ ننگے ہوگئے۔ ہم خود سوچ سکتے ہیں کہ اللہ نے ہمارے اندر شرم و حیا کی صفت ڈال رکھی ہے۔ جیسے ہی سیدنا آدم (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی ان کو فوراً سزا مل گئی۔ اب یہاں یہ بھی واضح ہوگیا کہ اللہ ہر وقت سمیع وبصیر ہے یعنی سنتا اور دیکھتا بھی ہے اور پھر یہ معلوم ہوگیا کہ انسان غلطیوں کا پتلا ہے۔ پھر یہ معلوم ہوگیا کہ اللہ نے گناہ کے لیے معافی کا دروازہ بھی کھول رکھا ہے سیدنا آدم (علیہ السلام) نے اللہ سے معافی مانگی اور کیونکہ اللہ رحیم و کریم ہے اس نے ان کو معاف کردیا۔ مگر چھوٹی سی سزا دے دی اور اچھی طرح سمجھا دیا کہ غلط کام کی سزا ضرور ملے گی۔ اور پھر یہ بھی سمجھا دیا کہ انسان کو ہدایت ضرور ملتی ہے۔ اور ساتھ میں ارادہ بھی اس کو دیا گیا ہے۔ جو راستہ چاہے اختیار کرلے۔ تو سیدنا آدم (علیہ السلام) کو سزا یہ ملی کہ جنت کے مزے ختم ہوگئے اور ان کو زمین میں اتر جانے کا حکم دیدیا گیا اور یہ بھی بتا دیا گیا کہ یاد رکھو شیطان تمہارا دشمن ہے۔ زمین میں تمہارے لیے ہر آسائش کی چیز موجود ہے۔ خیال رکھنا کہ نفس امارہ کے غلام ہوگئے تو سزا ضرور پائو گے۔ یہاں موت کا ذکر بھی کردیا گیا کہ تم یہ نہ سمجھ لینا یہ زندگی ہمیشہ کی زندگی ہے۔ بلکہ کچھ عرصہ یہاں رہو گے پھر مر کر مٹی میں مل جاؤ گے اور پھر قیامت کا ذکر کردیا کہ دوبارہ ضرور زندہ کئے جاؤ گے تاکہ زندگی کے اعمال کا بدلہ دے کر دوبارہ تمہیں ہمیشہ کی زندگی دی جائے۔ پھر صاف صاف بتا دیا گیا کہ اب نافرمانی پر جنت سے نکالے گئے ہو مگر پھر نافرمانی کی تو دوزخ میں ڈالے جاؤ گے۔ تو سمجھ میں آگیا کہ جو لوگ نفس امارہ سے شکست کھا کر برائیوں کی طرف چل پڑتے ہیں دوزخ کے مکین ہوں گے۔ جبکہ نفس کی دوسری قسم نفس لوامہ ہے۔ اس کا کام ہے شیطان کا مقابلہ کرنا۔ ایسے آدمی کا ضمیر زندہ ہوتا ہے۔ ضمیر کیا ہے ؟ یہ ایک پہریدار ہے جو انسان کو کسی بھی وقت برائی کی طرف جانے پر خبردار کرتا ہے۔ نفس لوامہ بیشک خواہشات رکھتا ہے مگر یہ نفس انسان کو بہت حدتک برائی سے روکتا ہے اور گناہ ہوجانے پر توبہ کی طرف لے جاتا ہے۔ جیسا کہ سیدنا آدم (علیہ السلام) نے گناہ کو فوراً محسوس کرلیا اور اللہ سے توبہ کرلی۔ تو اللہ نے ان کو صرف بہشت سے نکالا اور زمین میں نعمتیں عطا کرکے مہلت دی کہ نیکی اختیار کرکے دوبارہ جنت حاصل کرلو۔ اور واضح کردیا کہ یہ دنیا کی زندگی ہی جنت یا جہنم دلائے گی۔ جب مرگئے تو عمل کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے اور پھر انعام یا سزا کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔ نفس لوامہ کسی حدتک جنت دلانے کا سبب بن سکتا ہے۔ پھر تیسرے درجے کا نفس آجاتا ہے۔ جس کا نام ہے نفس مطمئنہ۔ سب سے بہترین نفس کی حالت ہے کیونکہ یہ روح کی بات مانتا ہے اور پوری کوشش کرتا ہے کہ اللہ رب العزت کی اطاعت اور فرمانبرداری اختیار کرکے اللہ تعالیٰ کے قریب رہے اور شیطان سے دور رہے۔ ایسے ہی نفس کا مالک اللہ کا پسندیدہ انسان کہلاتا ہے جو بلاشبہ جنت کا حقدار ہوتا ہے۔ چھوٹی سی مثال دیتی ہوں۔ آپ کے سامنے مال و دولت موجود ہے۔ آپ کا دل کرتا ہے آنکھ بچا کر کچھ اٹھا لوں۔ نفس امارہ آپ کو مجبور کرتا ہے آپ اس کی بات مان کر چوری کرلیتے ہیں یہ کام آپ کو بہت اچھا لگتا ہے اور آپ چوری کے عمل کو اپنا لیتے ہیں۔ تو آپ نفس امارہ یعنی شیطان کے غلام ہوگئے اگر چوری کرکے آپ کو برا لگا اور آپ نے فوراً توبہ کرلی سچی توبہ۔ تو اس کا مطلب ہے کہ نفس لوامہ آپ پر غالب آگیا اور آپ آئندہ شیطان کے غلام نہ بنیں گے اور آخری درجہ یہ آتا ہے کہ آپ مال اٹھانے کی خواہش ہی نہیں کرتے بلکہ اللہ کی دی ہوئی جائز دولت پر پوری طرح مطمئن اور راضی رہتے ہیں تو یہ ہوا نفس مطمئنہ۔ یعنی آپ اپنے رب سے راضی ہوئے اور آپ کا رب آپ سے راضی ہوا۔ یہ روح کی پاکیزگی اور تقویٰ کا درجہ دلانے والا نفس ہے۔ ایسے ہی لوگ حساب کے دن خوش و خرم اور مطمئن ہوں گے اور اللہ کے وعدے کے مطابق جنت میں ہمیشہ کی زندگی پائیں گے۔ آخر میں اللہ رب العزت انسان کو خبردار کرتے ہیں کہ سیدنا آدم (علیہ السلام) کے واقعے میں بہت بڑا سبق اور نصیحت ہے، یعنی کس طرح شیطان نے ان کو ذلیل کروا دیا۔ ثابت ہوتا ہے کہ برہنگی تمام گناہوں کی ابتدا ہے۔ اسلام میں ستر پوشی، یعنی مرد و عورت کے لیے مناسب لباس بےحد ضروری ہے۔ کیونکہ بےپردگی بیشمار برائیوں کو جنم دیتی ہے۔ پردہ اور شرم و حیا انسان کا زیور ہے اور عزت و احترام کا نشان ہے۔ شیطان نے سیدنا آدم (علیہ السلام) کو ذلیل و خوار کروانے کے لیے سب سے پہلے ان کے کپڑے اتروا دیے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر انسان کو اپنے جسم کے ننگا ہوجانے پر غیرت اور شرمندگی محسوس نہ ہو تو پھر اس کو روح کے بھٹک جانے کی کیا پروا ہوسکتی ہے۔ سیدنا آدم (علیہ السلام) کا برہنگی پر شرمندہ ہونا اور توبہ کرلینا پوری انسانی برادری کے لیے نمونہ بن گیا۔ ورنہ تو انسان ہے ہی غلطی کا پتلا۔ اللہ نے اپنے رحیم و کریم ہونے کا ثبوت دیا کہ توبہ کا راستہ ہمارے لیے کھلا رکھ دیا۔ جسمانی پوشاک زینت اور عزت کے لیے ہے جبکہ پرہیزگاری کی پوشاک روح کی زینت کے لیے ہے۔ آخر میں اہل عرب کی اس فضول رسم کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ وہ لوگ زمانہ جاہلیت میں ننگے ہو کر خانہ کعبہ کا طواف کرتے تھے۔ جب ان کو اس گندی حرکت سے منع کیا گیا تو کہنے لگے کہ یہ تو ہمارے باپ دادا کے وقت سے چلا آرہا ہے ہم نہیں چھوڑ سکتے۔ پھر کہنے لگے کہ یہ حکم ہمیں اللہ رب العزت نے دیا ہے۔ اس پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ ان سے صاف صاف کہہ دیجیے کہ اس قدر ناقابل فہم حکم دینا اللہ کی شان کریمی کے خلاف ہے۔ اور یہ لوگ بغیر کسی خاص دلیل کے خواہ مخواہ ہی اس بات کا بہتان اللہ رب العزت پر باندھ رہے ہیں۔ جبکہ رب العزت حیا اور پاکدامنی کو پسند کرتا ہے اور حیا کا حکم دیتا ہے۔ کسی بھی مسلمان کے لیے ایمان کے بعد حیا سب سے بڑا حسن ہے۔ کیونکہ حیا ہی انسان کو گناہوں اور نافرض شناسی سے روکتی ہے۔ حدیث میں ہے سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ” ایمان (کے درخت) کی ساٹھ سے کچھ زیادہ شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔ “ (صحیح بخاری) بہرحال سیدنا آدم (علیہ السلام) کے بیان سے اللہ رب العزت نے انسان کو بہترین زندگی گزارنے کا معقول نقشہ بتا دیا ہے۔ اللہ عمل کرنے کی توفیق بھی دے۔
Top