Ahsan-ut-Tafaseer - Al-A'raaf : 19
وَ یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَیْثُ شِئْتُمَا وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ
وَيٰٓاٰدَمُ : اور اے آدم اسْكُنْ : رہو اَنْتَ : تو وَزَوْجُكَ : اور تیری بیوی الْجَنَّةَ : جنت فَكُلَا : تم دونوں کھاؤ مِنْ حَيْثُ : جہاں سے شِئْتُمَا : تم چاہو وَلَا تَقْرَبَا : اور نہ قریب جانا هٰذِهِ : اس الشَّجَرَةَ : درخت فَتَكُوْنَا : پس ہوجاؤ گے مِنَ : سے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور (ہم نے) آدم (سے کہا کہ) تم اور تمہاری بیوی بہشت میں رہو سہو اور جہاں سے چاہو (اور جو چاہو) نوش جان کرو مگر اس درخت کے پاس نہ جانا ورنہ گنہگار ہوجاؤ گے۔
(19 ۔ 21) ۔ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم وحوا پر سوائے ایک درخت کے کل میوے اور پھل جنت کے مباح کردیے تھے کہ جہاں سے چاہو بےروک ٹوک کھاؤ اس کا حسد شیطان کو ہوا چاہا کہ کسی طرح یہ نعمتیں ان سے چھینی جاویں اس لئے قریب کی راہ سے کہا کہ اس درخت کے پھل سے جو تم کو منع کیا گیا ہے اس میں یہ بھی ‘ ہے کہ کہیں تم فرشتے یا ہمیشہ کے لئے جنت میں رہنے والے نہ ہوجاؤ اور قسم کھائی کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں اس موقعہ پر حافظ ابن کثیر (رح) نے لکھا ہے کہ مومن خدا کا نام سن کر دشمن کے دھو کے میں آجاتا ہے سورة بقرہ میں عبد اللہ بن عباس ؓ اور عبداللہ بن مسعود ؓ کا یہ قول گذر جنت میں رہتے تھے مگر تنہائی کے سبب سے اکثر گھبرایا کرتے تھے ایک دن حضرت آدم ( علیہ السلام) جب سو رہے تھے تو ان کی نیند کی حالت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت حوا کو حضرت آدم ( علیہ السلام) کی بائیں پسلی سے پیدا کردیا۔ حاصل کلام یہ ہے کہ رہنے کا یہ دوبارہ حکم حضرت حوالہ کے پیدا ہوجانے کے بعد کا ہے۔ صحیح بخاری ومسلم میں میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ عورت پسلی سے پیدا ہوئی ہے اس لئے پسلی کی ہڈی کی طرح ہر عورت کے مزاج میں ایک طرح کی کجی ہے۔ مغازی ابن اسحاق وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایتیں ہیں جس میں انہوں نے فرمایا عورت کی پسلی سے پیدا ہونے کا یہ مطلب ہے کہ حضرت حوا حضرت آدم (علیہ السلام) کی بائیں پسلی سے اس وقت پیدا ہوئیں جب حضرت آدم سو رہے تھے یہ پیدا ہونا اس طرح کا ہے جس طرح اناج کے بیج یا میوے کی گٹھلی میں سے پیڑ پھوٹ آتا ہے سورة بقر میں یہ بھی گذر چکا ہے کہ جس پیڑ کا پھل کھانے سے حضرت آدم (علیہ السلام) کی منع کیا گیا تھا حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے قول کے موافق وہ گیہوں کا پیڑ ہے حاصل کلام یہ ہے کہ جب حضرت آدم (علیہ السلام) کے سبب سے شیطان جنت سے نکالا گیا اور حضرت آدم (علیہ السلام) اور حوا دونوں مل کر اللہ کے حکم کے موافق جنت میں راحت سے رہنے لگے تو شیطان کو اس کا بڑا قلق ہوا اور اس قلق میں اس نے جنت تک پہنچنے اور حضرت آدم ( علیہ السلام) کے بہکانے کی کوشش کی آخر جنت میں پہنچا اور پہلے حضرت حوا کو بہکا کر گیہوں کے دانے کھلائے اور پھر حوا کی رغبت ڈالنے سے آخر حضرت آدم (علیہ السلام) نے بھی گیہوں کے دانے کھائے جس کے نتیجہ کا ذکر آگے کی آیت میں آتا ہے صحیح بخاری میں ابوہریرہ ؓ کی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر حوا نہ ہوتی تو کوئی عورت اپنے شوہر کے برخلاف شیطان کے کہنے میں نہ آتی اس حدیث سے ان مفسروں کے قول کی پوری تائد ہوتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ شیطان کے بہکانے سے بغیر اجازت حضرت آدم ( علیہ السلام) کے پہلے حوا نے گیہوں کے دانے کھائے اور پھر حضرت آدم (علیہ السلام) کو بھی ان دانوں کے کھانے کی رغبت دلائی صحیح بخاری ومسلم میں انس بن مالک ؓ سے روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا شیطان آدمی کے تمام جسم میں اس طرح سرایت کرجاتا ہے جس طرح خون آدمی کے تمام جسم میں پھرتا ہے مطلب یہ ہے کہ اگرچہ شیطان آدمی کو ظاہر میں نظر نہیں آتا لیکن وہ آدمی کے تمام جسم میں سرایت کر کے آدمی کے دل میں اس طرح کا وسوسہ ڈالتا ہے کہ اپنے اس وسوسہ کا اثر آدمی کے تمام جسم میں پھیلا سکتا ہے اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ آیت اور حدیث کے ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ حضرت آدم ( علیہ السلام) اور حوا کے بہکانے کے خلاف عادت ان کو شیطان نظر بھی آیا اور جھوٹی قسم کھا کر اپنی خیر خواہی انہیں جتلائی جس سے اپنے وسوسہ کے اثر کو اور پکا کردیا برا کام کرنے کے لئے شیطان آدمی کے دل میں جو خیال ڈالتا ہے اس کو وسوسہ کہتے ہیں
Top