Mafhoom-ul-Quran - Al-A'raaf : 59
لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ
لَقَدْ اَرْسَلْنَا : البتہ ہم نے بھیجا نُوْحًا : نوح اِلٰي : طرف قَوْمِهٖ : اس کی قوم فَقَالَ : پس اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا : نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ اِلٰهٍ : کوئی معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا اِنِّىْٓ : بیشک میں اَخَافُ : ڈرتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر عَذَابَ : عذاب يَوْمٍ عَظِيْمٍ : ایک بڑا دن
ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو انہوں نے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ مجھے تمہارے بارے میں بڑے دن کے عذاب کا خوف ہے۔
سیدنا نوح (علیہ السلام) اور ان کی قوم پر عذاب تشریح :ــــ قرآن پاک میں جگہ جگہ کہا گیا ہے کہ قرانی آیات اور کائنات پر غور و فکر کرو۔ کیونکہ جیسے جیسے علم و عرفان اور سائنسی ترقی ہو رہی ہے رب اور اس کی صفات، قدرت، وحدانیت اور توکل کے دروازے زیادہ روشن اور زیادہ واضح ہوتے چلے جا رہے ہیں اور کفر و شرک کے دروازے آہستہ آہستہ بند ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہاں تک توحید، رسالت اور آخرت کا بیان بڑی وضاحت سے کیا گیا ہے اب سورة الاعراف میں آٹھویں رکوع سے انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی امتوں کا ذکر ہے اور آئندہ چودہ رکوع اسی مضمون پر مشتمل ہیں۔ جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر بیشمار رحمتیں اور برکتیں نازل کی ہیں۔ رحمتیں دو طرح کی ہیں۔ جسمانی اور روحانی، جسمانی نشوونما کے لیے کائنات کی ہر چیز مددگار ہے جیسا کہ یہاں بارش کی مثال دی گئی ہے کہ بارش کا پانی مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے جبکہ نبی، رسول اور پیغمبر اور ان کی شریعت مردہ نفس انسانی، یعنی روح کو شاداب کرتی ہے اور پھر آخرت اور یوم حشر کا نقشہ بڑے ہی خوفناک انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ پھر بھی کچھ مردہ دل، اندھے اور بہرے لوگ نیکی کی طرف نہ رجوع کرتے ہے اور نہ ہی دوسرے کو ہی اس طرف بلاتے ہیں تو ایسے ہی لوگوں کے لیے عبرت دلانے کے لیے گزری ہوئی قوموں کے حالات بیان کئے جارہے ہیں۔ تاکہ ان کو دیکھ کر لوگ عبرت حاصل کریں اور نیکی اختیار کر کے دنیا و آخرت میں نجات پاسکیں۔ تو سب سے پہلے یہاں سیدنا نوح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا ذکر مختصر انداز میں کیا گیا کیونکہ تفصیلاً انشاء اللہ سورة نوح اور ھود میں کیا جائے گا۔ سیدنا نوح (علیہ السلام) سیدنا آدم (علیہ السلام) کی آٹھویں پشت میں سے ہیں۔ سیدنا آدم (علیہ السلام) اور سیدنانوح (علیہ السلام) کے درمیان تقریباً ایک ہزار سال کا و قفہ ہے۔ ان کو 40 سال کی عمر میں نبوت ملی طوفان کے بعد ساٹھ سال زندہ رہے۔ سیدنا نوح کی قوم عراق میں آباد تھی۔ کیونکہ ان کے آثار آرمینیہ کی سرحد پر کوہ نوح میں پائے جاتے ہیں۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے اور قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا نوح (علیہ السلام) پہلے مرسل رسول ہیں جن کو توحید کا پیغام دے کر بھیجا گیا۔ سیدنا آدم (علیہ السلام) کی تعلیمات کے مطابق لوگ اللہ رب العزت کے وجود کو اس کی طاقت مانتے تھے مگر آہستہ آہستہ وہ اللہ کی وحدانیت سے پھرنا شروع ہوگئے اور اللہ کے ساتھ کئی شریک بنانے لگے۔ سیدنا نوح (علیہ السلام) کی تعلیمات یہی تھیں کہ اپنے رب کو پہچانو، صرف اسی کی ہی عبادت کرو کیونکہ وہی رزق دیتا ہے اور کوئی بھی اس کا شریک نہیں ہوسکتا وہ اکیلا ہے طاقت وقدرت اور بادشاہی اسی کی ہے اس لیے شرک سے باز آجاؤ۔ مگر ان کی قوم نے حیل اور حجت سے کام لیا اور سیدھی راہ اختیار نہ کی۔ جس کی وجہ سے بڑھتی ہوئی گمراہی کا علاج اللہ رب العزت نے یہ کیا کہ ان پر پانی کا عذاب نازل کردیا زمین سے پانی ابلنے لگا اور آسمان سے بھی زورداربرسنے لگا۔ پوری قوم اس میں غرق ہوگئی سوائے ان گنتی کے لوگوں کے جو سیدنا نوح (علیہ السلام) کے ساتھ ان کی کشتی میں سوار ہوئے تھے۔ اس سورت سے سبق ملتا ہے کہ رسولوں کی تعلیمات پر عمل کرنا بےحد ضروری ہے دوسرا یہ کہ اللہ اپنے بندوں کی حمایت ضرور کرتا ہے تیسرا انبیاء کو جھٹلانا عذاب دنیا اور عذاب آخرت کا نشان ہے۔ ہماری قوم بلکہ ساری دنیا کے لیے نبی اکرم ﷺ نبی بنا کر بھیجے گئے۔ ان کی تعلیمات ان کی شریعت انسانوں کے لیے اللہ کی رحمت ہے۔ کیونکہ دنیا میں بھلائیاں حاصل کرنے اور آخرت میں نجات حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ ہم سب کو ہر وقت اسی کوشش میں اور اسی دعا میں مگن رہنا چاہییے کہ اللہ اپنے فضل و کرم سے ہمیں ان راہوں پر چلائے جو جنت کو جاتی ہوں جہنم کو نہ جاتی ہو۔ آمین۔ ڈاکٹر اقبال فرماتے ہیں : عزائم کو سینوں میں بیدار کر دے نگاہ مسلمان کو تلوار کر دے مطلب یہ ہے طارق نے بھی اس وقت دعا کی جب انہوں نے اپنی کشتیاں تک جلا دیں تو اللہ سے اپنے مجاہدین کے بلندو پاکیزہ ارادوں میں کا میابی کی التجا کی۔ لیکن حقیقت میں مسلمانوں کا حسن سلوک اور بلند کر داری کی وجہ سے کئی ملک بغیر لڑائی کے ہی فتح کرلیے گئے، مثلاً انڈونیشیا، ملائیشیا اور مالدیپ وغیرہ کہ یہاں کبھی بھی کوئی مسلمان فوجی داخل نہیں ہوا تھا۔ سوائے مسلمان تاجروں کے۔ تو وہاں لوگ صرف نگاہ مسلمان سے ہی فتح کئے جاتے رہے اور لوگ حسن کردار سے متاثر ہو کر خود بخود اسلام قبول کرتے چلے گئے یا ایسی ہی نگاہ ہمیں پھر سے عطاکردے کہ بےتیغ ہی دنیا میں فتح و کامیابی حاصل کرتے چلے جائیں اور اگر تلوار سے بھی لڑنا پڑے تو گریز نہ کریں کیونکہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔
Top