Aasan Quran - Al-A'raaf : 59
لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ
لَقَدْ اَرْسَلْنَا : البتہ ہم نے بھیجا نُوْحًا : نوح اِلٰي : طرف قَوْمِهٖ : اس کی قوم فَقَالَ : پس اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا : نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ اِلٰهٍ : کوئی معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا اِنِّىْٓ : بیشک میں اَخَافُ : ڈرتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر عَذَابَ : عذاب يَوْمٍ عَظِيْمٍ : ایک بڑا دن
ہم نے نوح کو ان کی قوم کے پاس بھیجا (35) چنانچہ انہوں نے کہا : اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے۔ یقین جانو مجھے سخت اندیشہ ہے کہ تم پر ایک زبردست دن کا عذاب نہ آکھڑا ہو۔
35: اسرائیلی روایات کے مطابق حضرت نوح ؑ کی پیدائش اور حضرت آدم ؑ کی وفات کے درمیان ایک ہزار سال سے کچھ زیادہ کا فاصلہ ہے لیکن محقق علماء نے ان روایات کو مستند نہیں سمجھا۔ حقیقی فاصلے کا یقینی علم حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ البتہ اتنی بات قرآن کریم سے واضح ہوتی ہے کہ اس طویل عرصے کے دوران بت پرستی کا رواج بہت بڑھ گیا تھا۔ حضرت نوح ؑ کی قوم نے بھی بہت سے بت بنا رکھتے تھے، جن کے نام سورة نوح میں مذکور ہیں۔ سورة عنکبوت (14:29) میں ہے کہ حضرت نوح ؑ نے ساڑھے نو سو سال تک اس قوم کو حق کی تبلیغ فرمائی۔ اور سمجھانے کا کوئی طریقہ نہیں چھوڑا۔ کچھ نیک بخت ساتھی جو زیادہ تر غریب طبقے سے تعلق رکھتے تھے، ان پر ایمان لائے، لیکن قوم کی اکثریت نے کفر ہی کا راستہ اختیار کیے رکھا۔ حضرت نوح ؑ ان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈراتے رہے، لیکن جب وہ نہ مانے، تو انہوں نے بد دعا دی۔ اور پھر انہیں ایک شدید طوفان میں غرق کردیا گیا۔ حضرت نوح ؑ کے واقعے اور ان کی قوم پر آنے والے طوفان کی سب سے زیادہ تفصیل سورة ہود (25:11 تا 49) اور سورة نوح (سورت نمبر 71) میں آئے گی۔ اس کے علاوہ سورة مومنون (23:23) سورة شعراء 105:26) اور سورة قمر (9:54) میں ان کا واقعہ اختصار سے بیان ہوا ہے دوسرے مقامات پر ان کا صرف حوالہ دیا گیا ہے۔
Top