Tafheem-ul-Quran - Al-A'raaf : 59
لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ
لَقَدْ اَرْسَلْنَا : البتہ ہم نے بھیجا نُوْحًا : نوح اِلٰي : طرف قَوْمِهٖ : اس کی قوم فَقَالَ : پس اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا : نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ اِلٰهٍ : کوئی معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا اِنِّىْٓ : بیشک میں اَخَافُ : ڈرتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر عَذَابَ : عذاب يَوْمٍ عَظِيْمٍ : ایک بڑا دن
ہم نے نوح ؑ کو اُس کی قوم کی طرف بھیجا۔47 اس نے کہا”اے برادرانِ وقم، اللہ کی بندگی کرو، اُسکے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے۔48 میں تمہارے حق میں ایک ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔“
سورة الْاَعْرَاف 47 اس تاریخی بیان کی ابتدا حضرت نوح ؑ اور ان کی قوم سے کی گئی ہے، کیونکہ قرآن کی رو سے جس صالح نظام زندگی پر حضرت آدم ؑ اپنی اولاد کو چھوڑ گئے تھے اس میں سب سے پہلا بگاڑ حضرت نوح ؑ کے دور میں رونما ہوا اور اس کی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو مامور فرمایا۔ قرآن کے ارشادات اور بائیبل کی تصریحات سے یہ بات متحقق ہوجاتی ہے کہ حضرت نوح ؑ کی قوم اس سر زمین میں رہتی تھی جس کو آج ہم عراق کے نام سے جانتے ہیں۔ بابل کے آثار قدیمہ میں بائیبل سے قدیم تر جو کتبات ملے ہیں ان سے ملے ہیں ان سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے، ان میں تقریباً اسی قسم کا ایک قصہ مذکور ہے جس کا ذکر قرآن اور تورات میں بیان ہوا ہے اور اس کی جائے وقوع موصل کے نواح میں بتائی گئی ہے۔ پھر جو روایات کردستان اور آرمینیہ میں قدیم ترین زمانے سے نسلاً بعد نسل چلی آرہی ہیں ان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ طوفان کے بعد حضرت نوح ؑ کی کشتی اسی علاقہ میں کسی مقام پر ٹھہری تھی۔ موصل کے شمال میں جزیرہ ابن عمر کے آس پاس، آرمینیہ کی سرحد پر کوہ اراراط کے انواح میں نوح ؑ کے مختلف آثار کی نشان دہی اب بھی کی جاتی ہے، اور شہر نخچیوان کے باشندوں میں آج تک مشہور ہے کہ اس شہر کی نبا حضرت نوح ؑ نے ڈالی تھی۔ حضرت نوح ؑ کے اس قصے سے ملتی جلتی روایات یونان، مصر، ہندوستان اور چین کے قدیم لٹیریچر میں بھی ملتی ہیں اور اس کے علاوہ برما، ملایا، جزائر شرق الہند، آسٹریلیا، نیوگنی اور امریکہ و یورپ کے مختلف حصوں میں بھی ایسی ہی روایات قدیم زمانہ سے چلی آرہی ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قصہ اس عہد سے تعلق رکھتا ہے جبکہ پوری نسل آدم کسی ایک ہی خطہ زمین میں رہتی تھی اور پھر وہاں سے نکل کر دنیا کے مختلف حصوں میں پھیلی۔ اسی وجہ سے تمام قومیں اپنی ابتدائی تاریخ میں ایک ہمہ گیر طوفان کی نشان دہی کرتی ہیں، اگرچہ مرور ایام سے اس کی حقیقی تفصیلات انہوں نے فراموش کردیں اور اصل واقعہ پر ہر ایک نے اپنے اپنے تخیل کے مطابق افسانوں کا ایک بھاری خول چڑھادیا۔ سورة الْاَعْرَاف 48 یہاں اور دوسرے مقامات پر حضرت نوح ؑ اور ان کی قوم کا جو حال قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے اس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ یہ قوم نہ تو اللہ کے وجود کی منکر تھی، نہ اس سے ناواقف تھی، نہ اسے اللہ کی عبادت سے انکار تھا، بلکہ اصل گمراہی جس میں وہ مبتلا ہوگئی تھی، شرک کی گمراہی تھی۔ یعنی اس نے اللہ کے ساتھ دوسری ہستیوں کو خدائی میں شریک اور عبادت کے استحقاق میں حصہ دار قرار دے دیا تھا۔ پھر اس بنیادی گمراہی سے بیشمار خرابیاں اس قوم میں رونما ہوگئیں۔ جو خود ساختہ معبود خدائی میں شریک ٹھیرا لیے گئے تھے ان کی نمائندگی کرنے کے لیے قوم میں ایک خاص طبقہ پیدا ہوگیا جو تمام مذہبی سیاسی اور معاشی اقتدار کا مالک بن بیٹھا اور اس نے انسانوں میں اونچ اور نیچ کی تقسیم پیدا کردی، اجتماعی زندگی کو ظلم و فساد سے بھر دیا اور اخلاقی فسق و فجور سے انسانیت کی جڑیں کھوکھلی کردیں۔ حضرت نوح ؑ نے اس حالت کو بدلنے کے لیے ایک زمانہ دراز تک انتہائی صبر و حکمت کے ساتھ کوشش کی مگر عامتہ الناس کو ان لوگوں نے اپنے مکر کے جال میں ایسا پھانس رکھا تھا کہ اصلاح کی کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی۔ آخرکار حضرت نوح ؑ نے خدا سے دعا کی کہ ان کافروں میں سے ایک کو بھی زمین نہ چھوڑ، کیونکہ اگر تو نے ان میں سے کسی کو بھی چھوڑ دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان کی نسل سے جو بھی پیدا ہوگا بدکار اور نمک حرام ہی پیدا ہوگا۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورة ہود، رکوع 3۔ سورة شعراء رکوع 6۔ اور سورة نوح مکمل)۔
Top