Tafseer-e-Majidi - Az-Zukhruf : 10
وَ جَآءَهٗ قَوْمُهٗ یُهْرَعُوْنَ اِلَیْهِ١ؕ وَ مِنْ قَبْلُ كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ١ؕ قَالَ یٰقَوْمِ هٰۤؤُلَآءِ بَنَاتِیْ هُنَّ اَطْهَرُ لَكُمْ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ لَا تُخْزُوْنِ فِیْ ضَیْفِیْ١ؕ اَلَیْسَ مِنْكُمْ رَجُلٌ رَّشِیْدٌ
وَجَآءَهٗ : اور اس کے پاس آئی قَوْمُهٗ : اس کی قوم يُهْرَعُوْنَ : دوڑتی ہوئی اِلَيْهِ : اس کی طرف وَ : اور مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے السَّيِّاٰتِ : برے کام قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم هٰٓؤُلَآءِ : یہ بَنَاتِيْ : میری بیٹیاں هُنَّ : یہ اَطْهَرُ : نہایت پاکیزہ لَكُمْ : تمہارے لیے فَاتَّقُوا : پس ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَ : اور لَا تُخْزُوْنِ : نہ رسوا کرو مجھے فِيْ ضَيْفِيْ : میرے مہمانوں میں اَلَيْسَ : کیا نہیں مِنْكُمْ : تم سے (تم میں) رَجُلٌ : ایک آدمی رَّشِيْدٌ : نیک چلن
اور ان کے پاس ان کی قوم (کے لوگ) دوڑے ہوئے آئے،114۔ اور وہ پہلے ہی سے بدکاریاں کیا کرتے تھے،115۔ (لوط علیہ السلام) بولے اے میری قوم یہ میری بیٹیاں (بھی تو موجود) ہیں یہ تمہارے حق میں پاکیزہ ہیں سو اللہ سے ڈرو اور مجھے میرے مہمانوں میں رسوا نہ کرو کیا تم میں کوئی بھی بھلا آدمی نہیں،116۔
114۔ (اپنے اس ارادۂ بد کے ساتھ حسب معمول) (آیت) ” قومہ “۔ سے مراد ساری کی ساری قوم نہیں بلکہ مراد ہیں ان کی قوم کے کچھ لوگ۔ 115۔ قوم لوط (علیہ السلام) والے علاوہ اس مخصوص فسق کے اور بھی طرح طرح کی شناعتوں میں مبتلا تھے اور اجنبیوں اور پردیسیوں کے ساتھ تو ان کی بدسلوکی خاص طور پر بڑھی ہوئی تھی، ملاحظہ ہوں انگریزی تفسیر القرآن کے حواشی۔ 116۔ (آیت) ” بناتی “۔ کے لفظ پر بڑی بحث ہوئی ہے لیکن ظاہر ہے کہ اس سے مراد حضرت لوط (علیہ السلام) کی صلبی بیٹیاں تو ہو ہی نہیں سکتیں وہ تو کل دوتھیں اور یہاں مجمع کا مجمع نشہ فسق میں مست تھا۔ مراد امت کی عورتیں ہیں امت کی عورتیں پیغمبر کے لیے بہ منزلہ بیٹیوں ہی کے ہوتی ہیں۔ آپ نے اپنے دروازہ پر مجمع فساق دیکھ کر فرمایا کہ آخر عورتیں بھی تو موجود ہیں ان کے ساتھ نکاح کیوں نہیں کرلیتے ؟ المراد نساء امتہ (کبیر عن مجاہد و سعید بن جبیر) وھذا القول عندی ھو المختار (کبیر) یعنی نساء امتہ فانکحوھن (ابن جریر عن ابن جریج) الاحسن ان تکون الاضافۃ مجازیۃ ای بنات قومی اذا النبی یتنزل منزلۃ الاب لقومہ (بحر) (آیت) ” اطھر “۔ یہاں طاہر کے معنی میں ہے۔ جیسے اللہ اکبر میں، اکبر، کبیر کے معنی میں ہے یہ مراد نہیں کہ عمل نکاح نسبتہ طاہر تر ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ عمل نکاح فی نفسہ طاہر وپاکیزہ ہے (کبیر) وصیغۃ افعل فی ذلک مجاز ( روح) توریت میں اس موقع پر ہے۔ ” شہر کے مردوں یعنی سدوم کے مردوں نے جوان سے لیکر بوڑھے تک سب لوگوں نے ہر طرف سے اس گھر کو گھیر لیا اور انہوں نے لوط (علیہ السلام) کو پکار کے اس سے کہا کہ وہ مرد جو آج کی رات تیرے ہاں آئے کہاں ہیں۔ انہیں ہمارے پاس باہر لاتا کہ ہم ان سے صحبت کریں تب لوط (علیہ السلام) دروازہ سے ان کے پاس باہر گیا اور کواڑ اپنے پیچھے بند کیا اور کہا کہ اے بھائیو ایسا برا کام نہ کیجیو اب دیکھو میری دوبیٹیاں ہیں جو مرد سے واقف نہیں مرضی ہو تو ان کو تمہارے پاس نکال لاؤں اور جو تمہاری نظر میں پسند ہو ان سے کرو مگر ان مردوں سے کچھ کام نہ رکھو کیونکہ وہ اسی واسطے میری چھت کے سائے میں آئے۔ (پیدائش 19: 4۔ 8) (آیت) ” فاتقوا اللہ “۔ آپ (علیہ السلام) کی اصلی اپیل تو یہی ہے آپ نے انہیں خوف خدا سے ڈرایا کہ وہی اصل بنیاد ہر معصیت سے رکنے کی ہے۔ (آیت) ” ولا تخزون فی ضیفی “۔ آپ (علیہ السلام) نے دوسری اپیل فہم مخاطبین کی رعایت سے یہ کی کہ انہیں عرف عام کا واسطہ دلایا۔ مہمانوں کے سامنے سبکی عرفا بھی بہت معیوب تھی۔
Top