Tadabbur-e-Quran - Az-Zukhruf : 10
الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ مَهْدًا وَّ جَعَلَ لَكُمْ فِیْهَا سُبُلًا لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَۚ
الَّذِيْ : جس نے جَعَلَ : بنایا لَكُمُ الْاَرْضَ : تمہارے لیے زمین کو مَهْدًا : گہوارہ وَّجَعَلَ لَكُمْ : اور بنائے تمہارے لیے فِيْهَا : اس میں سُبُلًا : راستے لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ : تاکہ تم، تم ہدایت پاؤ
جس نے تمہارے لئے زمین کو گہوارہ بنایا اور اس میں تمہارے لئے راستے رکھے کہ تم راہ پائو۔
الذی جعل لکم الارض مھداً وجعل لکم فیھا بلا لعلکم تھتدون 10 چار آیتیں بطور تضمین یہ آیت اور بعد کی تین آیات مشرکین کے جواب کا حصہ نہیں ہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور تضمین اس حقیقت کے اظہار کے لئے ہیں کہ جو شخص اس کائنات کی خلقت پر تدبر کی نگاہ ڈالے گا وہ اس میں خالق کی قدرت، ربوبیت اور حکمت کے ایسے آثار ائے گا کہ لازماً وہ اس کی توحید کا بھی اقرار کرے گا اور ایک روز جزاء و سزا کا بھی۔ مقصد اس تفصیل سے یہ دکھانا ہے کہ مسترکین کا یہ اعتراف کہ آسمان و زمین کا خالق خدائے عزیز وعلیم ہی ہے، اگر اپنی صحیح سمت میں آگے بڑھے تو اس کے تضمنات یہ بھی ہیں جو آگے بیان ہو رہے ہیں۔ لیکن مشرکین پہلا قدم صحیح اٹھا کر پھر غلط سمت میں مڑ جاتے ہیں جس سے وہ اپنے مانے ہوئے عقیدہ کو باطل اور پائی ہوئی راہ کو گم کردیتے ہیں۔ خدا کے خالق ہونے کے تضمنات فرمایا کہ وہی خدائے عزیز وعلیم جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے (اور جس کا خالق ہونا تم کو بھی تسلیم ہے اسی نے تمہاری بود و باش کے لئے اس زمین کو گہوارہ بنایا۔ اس گہوارہ بنانے کی مزید وضاحت قرآن کے دوسرے مقامات میں اس طرح فرمائی ہے کہ اس نے اپنی عظیم قدرت و حکمت سے اس میں پہاڑ گاڑ دیئے ہیں کہ وہ تمہارے سمیت کسی طرف کو لڑھک نہ پڑے۔ پھر اس میں تمہارے لئے راستے رکھے ہیں یعنی زمین کے توازن کو قائم رکھنے کے لئے پہاڑ گاڑے تو اس طرح نہیں کہ وہ ہر طرف سے تمہاری راہ روک کر کھڑے ہوجائیں بلکہ خشکی اور تری دونوں کے اندر ان پہاڑوں کے درمیان سے تمہارے لئے راستے بھی رکھے ہیں کہ تمہارے قافلے اور تمہارے جہازات ایک ملک سے دوسرے ملک کا سفر کرسکیں۔ ایک معنی خیز ٹکڑا لعلکم تھتدون کا ٹکڑا یہاں نہایت معنی خیز اور بلیغ ہے۔ ایک مطلب تو اس کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس زمین میں پہاڑوں کی فلک بوس دیواروں کے درمیان تمہارے لئے جو راستے رکھے ہیں وہ اس لئے رکھے ہیں کہ تم ان ناقابل عبور دیواروں کے اندر محبوس و محصو رہو کے نہ رہ جائو بلکہ ان سے باہر نکلنے کے لئے بھی راہیں کھلی رہیں۔ دوسرا نہایت لطیف اشارہ اس سے یہ نکلتا ہے کہ تم اپنے رب کی قدرت، حکمت، ربوبیت اور اپنے حال پر اس کی ان بےپایاں عنایات پر غور کرو اور اس نتیجہ تک پہنچو کہ جس پروردگار نے تمہارے لئے یہ کچھ اہتمام فرمایا ہے وہی تمہاری شکر گزاری اور عبادت و اطاعت کا اصل سزا وار ہے اور اگر تم نے اس کے اصل حق کو نہ پہچانا تو ایک دن لازماً ایسا آئے گا جس میں تم کو اس ناسپاسی کی جواب دہی کرنی پڑے گی۔
Top