Ruh-ul-Quran - Az-Zukhruf : 10
الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ مَهْدًا وَّ جَعَلَ لَكُمْ فِیْهَا سُبُلًا لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَۚ
الَّذِيْ : جس نے جَعَلَ : بنایا لَكُمُ الْاَرْضَ : تمہارے لیے زمین کو مَهْدًا : گہوارہ وَّجَعَلَ لَكُمْ : اور بنائے تمہارے لیے فِيْهَا : اس میں سُبُلًا : راستے لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ : تاکہ تم، تم ہدایت پاؤ
وہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو گہوارہ بنایا اور اس میں تمہارے لیے راستے بنائے تاکہ تم راہ پا سکو
الَّذِیْ جَعَلَ لَـکُمُ الْاَرْضَ مَھْدًا وَّ جَعَلَ لَـکُمْ فِیْھَا سُبُلاً لَّعَلَّـکُمْ تَھْتَدُوْنَ ۔ (الزخرف : 10) (وہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو گہوارہ بنایا اور اس میں تمہارے لیے راستے بنائے تاکہ تم راہ پا سکو۔ ) اللہ تعالیٰ کے چند ارشادات بطورتضمین گزشتہ آیت میں مشرکین کے جواب پر اللہ تعالیٰ نے بطور تضمین کچھ باتیں ارشاد فرمائی ہیں تاکہ انسان اپنے عقیدہ و عمل کے تضادات کی جن بھول بھلیوں میں الجھا ہوا ہے، شاید ان سے نکل سکے۔ بات کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے صرف زمین و آسمان کو پیدا ہی نہیں فرمایا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس زمین کو بچھونے کی طرف بچھایا اور یہ وہ چیز ہے جس کا احساس زمین پر ہر لیٹنے والے کو ہوتا ہے۔ لیکن اگر تدبر کی نگاہ سے دیکھا جائے تو زمین صرف بچھونا ہی نہیں بلکہ اسے انسان کے لیے گہوارہ بنایا گیا ہے۔ جس طرح ایک بچہ پنگھوڑے میں آرام سے لیٹا ہوتا ہے اس میں وہ صرف آرام ہی نہیں کرتا بلکہ جھولا بھی جھولتا ہے۔ اسی طرح انسان تدبر کی نگاہ سے دیکھے تو محسوس کرے گا کہ زمین کا یہ عظیم الشان کُرّہ پنگھوڑے کی طرح فضا میں لٹکا ہوا ہے جو ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اپنے محور میں گھوم رہا ہے۔ اور 6660 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے رواں دواں ہے اور انسان اس میں سر کے بل لٹک رہا ہے۔ لیکن اسے کبھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ میں سر کے بل لٹک رہا ہوں۔ اور قرآن کریم میں دوسری جگہ وضاحت فرمائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس گہوارے کو محفوظ کرنے کے لیے اپنی عظیم قدرت و حکمت سے اس میں پہاڑ گاڑ دیئے تاکہ وہ تمہارے سمیت کسی طرف کو لڑھک نہ پڑے۔ اس گہوارے کو اتنا آرام دہ اور پرسکون بنایا گیا ہے کہ کبھی کسی کو اس کا احساس تک نہیں ہوتا کہ میں ایک ایسے گہوارے میں سوار ہوں جو بندوق کی گولی سے بھی زیادہ تیزرفتار ہے اور قدرت نے اس کے بطن میں چار ہزار فارن ہائٹ کا آگ کا وہ گولہ رکھا ہوا ہے کہ اگر قدرت اسے ہمارے لیے مسخر نہ کرتی تو انسانی زندگی اس میں ممکن نہ ہوتی۔ کبھی کبھی آتش فشاں پہاڑ وہ لاوا اگل کر اس کی موجودگی کی خبر دیتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت نے کبھی انسانوں کے لیے اسے بڑا مسئلہ بننے نہیں دیا۔ اسی طرح اس کی حکمت کا ایک عجیب تقاضا ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے اس میں پہاڑ تو کھڑے کردیئے لیکن اس کو ایک بند گھر کی طرح ہر طرف سے محصور نہیں کردیا۔ اس کے اندر راستے پیدا فرمائے، پہاڑوں میں درے رکھے اور کہیں سے جھیلیں نکالیں اور دریا رواں کیے۔ اگر یہ زمینی اور بحری راستے نہ ہوتے تو ہر ملک ایک بند گلی کی مانند ہوتا۔ نہ باہمی تجارت ہوسکتی نہ ایک دوسرے کے حالات سے آگاہی ہوتی اور انسانوں کو ایک دوسرے سے تمتع کا سفر رک جاتا۔ اس لیے فرمایا کہ ہم نے یہ راستے اس لیے رکھے ہیں تاکہ تم ایک دوسرے تک پہنچنے کا راستہ پا سکو۔
Top