Tafseer-e-Majidi - Ar-Ra'd : 7
فَانْطَلَقَا١ٙ حَتّٰۤى اِذَاۤ اَتَیَاۤ اَهْلَ قَرْیَةِ اِ۟سْتَطْعَمَاۤ اَهْلَهَا فَاَبَوْا اَنْ یُّضَیِّفُوْهُمَا فَوَجَدَا فِیْهَا جِدَارًا یُّرِیْدُ اَنْ یَّنْقَضَّ فَاَقَامَهٗ١ؕ قَالَ لَوْ شِئْتَ لَتَّخَذْتَ عَلَیْهِ اَجْرًا
فَانْطَلَقَا : پھر وہ دونوں چلے حَتّٰٓي : یہاں تک کہ اِذَآ اَتَيَآ : جب وہ دونوں آئے اَهْلَ قَرْيَةِ : ایک گاؤں والوں کے پاس اسْتَطْعَمَآ : دونوں نے کھانا مانگا اَهْلَهَا : اس کے باشندے فَاَبَوْا اَنْ : تو انہوں نے انکار کردیا کہ يُّضَيِّفُوْهُمَا : وہ ان کی ضیافت کریں فَوَجَدَا : پھر انہوں نے پائی (دیکھی) فِيْهَا جِدَارًا : اس میں (وہاں) ایک دیوار يُّرِيْدُ : وہ چاہتی تھی اَنْ يَّنْقَضَّ : کہ وہ گرپڑے فَاَقَامَهٗ : تو اس نے اسے سیدھا کردیا قَالَ : اس نے کہا لَوْ شِئْتَ : اگر تم چاہتے لَتَّخَذْتَ : لے لیتے عَلَيْهِ : اس پر اَجْرًا : اجرت
پھر دونوں چلے،111۔ یہاں تک کہ جب ایک گاؤں والوں پر گزر ہوا تو وہاں والوں سے کھانے کو مانگا،112۔ سو انہوں نے ان کی مہمانی سے انکار کردیا،113۔ پھر دونوں کو اس (بستی) میں ایک دیوار ملی جو گرا چاہتی تھی سو (خضرعلیہ السلام) نے اسے سیدھا کردیا (موسی (علیہ السلام) نے) کہا اگر آپ چاہتے تو اس (کام) پر اجرت ہی لے لیتے،114۔
111۔ (اور حضرت خضر (علیہ السلام) نے وہ بات رفت وگزشت ہوجانے دی) 112۔ (کہ ہم اسی اجنبی شہر میں مہمان ہیں) قدیم زمانہ میں جب کہ نہ قدم قدم پر مہمان سراؤں کا رواج تھا۔ نہ ہوٹلوں اور کھانے پینے کی دکانوں کا۔ مسافر اور نووارداپنا حق سمجھتے تھے کہ بستی والوں سے کھانا پانی طلب کریں اور بستی والے ان کی مہمانداری اپنا فرض سمجھتے تھے اور عموما اسے بڑی خوش دلی سے بجا لاتے تھے قرآن مجید سے اشارۃ یہ بات بھی نکل آئی کہ میزبانی اور مہمانی کا یہی جذبہ صحیح تھا۔ 113۔ (جو اس قدیم تہذیب میں ایک بہت ہی قبیح جرم تھا) 114۔ (کہ ہم لوگوں کا کام بھی چل جاتا اور ان لوگوں کی تادیب بھی کسی قدر ہوجاتی) (آیت) ” یرید ان ینقض “۔ ارادۃ یہاں مجازی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی قرب وقوع کو ارادہ وقوع سے تعبیر کردیا گیا ہے۔ والمراد من ارادۃ السقوط قربۃ من ذلک علی سبیل المجاز المرسل (روح) استعیرت الارادۃ للمداناۃ والمشارفۃ (کشاف) زمخشری صاحب کشاف نے لکھا ہے کہ عربی میں متعدد افعال ارادی کا انتساب مجازا جمادات لایعقل کے ساتھ ہوتا رہتا ہے مثلا ہم، عزم، قول، نطق، صدق، کذب، سکوت، تمردوغیرہا اور کلام عرب سے ان کی سندیں بھی پیش کی ہیں۔ مرشدتھانوی (رح) نے فرمایا کہ کس معیشت اور اس کے اسباب کا اختیار کرنا منافی کمال نہیں۔
Top