Tafseer-e-Majidi - An-Naml : 18
حَتّٰۤى اِذَاۤ اَتَوْا عَلٰى وَادِ النَّمْلِ١ۙ قَالَتْ نَمْلَةٌ یّٰۤاَیُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰكِنَكُمْ١ۚ لَا یَحْطِمَنَّكُمْ سُلَیْمٰنُ وَ جُنُوْدُهٗ١ۙ وَ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ
حَتّىٰٓ : یہانتک کہ اِذَآ : جب اَتَوْا : وہ آئے عَلٰي : پر وَادِ النَّمْلِ : چیونٹیوں کا میدان قَالَتْ : کہا نَمْلَةٌ : ایک چیونٹی يّٰٓاَيُّهَا النَّمْلُ : اے چینٹیو ادْخُلُوْا : تم داخل ہو مَسٰكِنَكُمْ : اپنے گھروں (بلوں) میں لَا يَحْطِمَنَّكُمْ : نہ روند ڈالے تمہیں سُلَيْمٰنُ : سلیمان وَجُنُوْدُهٗ : اور اس کا لشکر وَهُمْ : اور وہ لَا يَشْعُرُوْنَ : نہ جانتے ہوں (انہیں شعور نہ ہو
یہاں تک کہ ایک مرتبہ جب وہ چیونٹیوں کے میدان میں پہنچے،21۔ ایک چیونٹی نے کہا کہ اے چیونٹیو اپنے سوراخوں میں جاگھسو کہیں سلیمان اور ان کا لشکر تمہیں روند نہ ڈالیں اور انہیں خبر بھی نہ ہو،22۔
21۔ چیونٹیوں کا میدان اس لیے کہا گیا کہ وہاں جھنڈ کے جھنڈ چیونٹیاں جمع تھیں۔ ایک مرتبہ حضرت سلیمان کا لشکر خشکی میں کسی سرزمین سے گزر رہا تھا کہ راہ میں ایسا قطعہ پڑا جہاں چیونٹیاں بکثرت آباد تھیں اور وہیں ماجرا پیش آیا۔ 22۔ چیونٹی نہایت ذہین جانور ہوتی ہیں۔ جیسا کہ ماہر فن کا بیان ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو حاشیہ تفسیر انگریزی۔ نیز پارۂ ھذا کے صفحہ 785 پر ضمیمہ۔۔۔ حیوانات سے عقل کی بالکلیہ نفی کرنا کرنا قول بلادلیل ہے اور چیونٹی کے متعلق تو یہ خیال خلاف دلیل بھی ہے۔ چیونٹی کے باب میں تو ماہرین فن کا بیان ہے کہ ” تنظیم وتقسیم کار کے لحاظ سے ہو یا ذہانت وذکاوت کی بنا پر چیونٹی کی زندگی ہر طرح مربوط ومکمل ہوتی ہے “ منطق الطیرکا علم تو حضرت سلیمان کو حسب تصریح قرآن تھا ہی، اس قصہ سے معلوم ہوتا ہے کہ پرندوں کے علاوہ بھی حیوانات کی بولیوں کا علم آپ رکھتے تھے۔ (آیت) ” وھم لایشعرون “۔ سلیمان نبی معصوم تھے۔ ارادی ظلم آپ سے ممکن ہی نہ تھا۔ (آیت) ” وھم لایشعرون “ اسی دفع دخل کے لیے ہے۔ یعنی یہ زیادتی بیخبر ی اور لاعلمی کی حالت میں ان کے لشکریوں سے نہ سرزد ہوجائے، ضمنا یہ بھی آیت سے نکل آیا کہ علم غیب ہرگز کوئی جزو نبوت نہیں (چہ جائیکہ جزو ولایت ! ) اس قصہ کے حوالے اسرائیلی مذہبی نوشتوں میں بھی آتے ہیں۔ ملاحظہ ہو انگریزی تفسیر القرآن کے حاشیے۔ ضمیمہ پ 19 بہ سلسلہ حاشیہ نمبر 22: چیونٹی : (روز نامہ رہبر دکن حیدر آباد کے سائنسی کالموں سے) چیونٹی بظاہر بڑی حقیر اور بڑی غیر اہم معلوم ہوتی ہے لیکن محنت اور ذہانت کے لحاظ سے ایک ایسا نادر نمونہ ہے جس کی مثال ملنی دشوار ہے۔ یہ کبھی نہ نچلی بیٹھتی ہے نہ کبھی بیکار، ہر وقت مصروف، ہر وقت مشغول، اس کی زندگی کے مختلف ادوار اور اس کے رہنے سہنے کے طریقوں کا حال سنایا جائے تو آپ ششدررہ جائیں، تنظیم اور تقسیم کار کے لحاظ سے ہو یا ذہانت اور ذکاوت کی بنا پرچیونٹی کی زندگی ہر طرح مکمل اور مربوط ہوتی ہے ! حقیقت افسانہ سے زیادہ تعجب خیز ہوتی ہے۔ چیونٹی کس طرح اشرف المخلوقات حضرت انسان سے کمتر نہیں ہے۔ یہ جانور پالتی ہے۔ ان کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ فوج رکھتی ہے۔ دشمن پر حملہ کرتی ہے، اسے کھیتی باڑی کا سلیقہ بھی آتا ہے ! !۔ کھیتوں میں ن اگر چلاتی ہے، بیج بوتی ہے، کاشت تیار ہوتی ہے تو اسے دور کرتی اور احتیاط کے ساتھ تہ خانوں میں محفوظ اور منتقل کردیتی ہے۔ مدارج کے فرق البتہ اس میں بھی پائے جاتے ہیں۔ اس قوم میں بھی حیدر آباد کا نظام جاگیرداری موجود ہے، ان کے جاگیردار ہمارے جاگیرداروں کی طرح مطلبی، آرام پسند، قومی فرائض سے غافل، خود پسند اور تن آسان ہوتے ہیں۔ ان کو کسی کام سے کوئی غرض نہیں ہوتی، دن بھر کھاتے اور پڑے اینڈھا کرتے ہیں ! اب تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ اپنی نوع سے ہٹ کر دوسری نوع کے جانوروں کو پالنا، ان سے فائدہ اٹھانا صرف اشرف المخلوقات کا حصہ ہے لیکن تجربات نے اب یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچا دی ہے کہ چیونٹی جیسی حقیر خلقت بھی اس خصوص میں انسان کی رقیب ہے، چیونٹی کی گائے، بھینس ایک قسم کے کیڑے ہوتے ہیں جن کو (Aphieds) افائیڈس کہا جاتا ہے، ان کے شکم میں شہد بھرا رہتا ہے۔ چیونٹیاں اپنے چھوٹے چھوٹے ڈنکوں کی مدد سے ان کیڑوں سے شہد حاصل کرلیتی ہیں، بعض مرتبہ چیونٹیاں ان دودھیلے جانوروں کو اپنے چھتوں میں اٹھا لاتی ہیں۔ اور ان کے انڈے بچوں کی بڑی سخت نگہداشت کی جاتی ہے۔ چیونٹی کی ایک قسم وہ بھی ہوتی ہے۔ جو خود دودھ دیتی ہے۔ یہ میکسیکو اور آسٹریلیا کے بعض حصوں میں کثرت سے پائی جاتی ہے، ان کی زندگی کا مقصد اپنے دیگر ہم قوموں کو آرام اور غذا پہنچانا ہوتا ہے۔ ابتداء میں قومی مزدور اور رضا کار ان کو گائے بھینسوں کی طرح اچھی اچھی غذا مہیا کرتے ہیں، یعنی خوب چارہ ڈال کر ان کو دودھ حاصل کرنے کی غرض سے پالا اور پرورش کیا جاتا ہے جس طرح کبوتر اپنے بچوں کو غذا بھراتا ہے۔ رضاکار چیونٹیاں ان گائے بھینسوں کو شہد بھرایا کرتی ہیں۔ جوں جوں یہ عمل جاری رہے گائے بھینسوں کا جثہ بڑھتا جاتا ہے ...... یہاں تک کہ ان کے چلنا پھرنا حتی کہ سرکنا بھی دو بھر ہوجاتا ہے۔ یوں بھی ان کو چلنے پھرنے کی ضرورت نہیں رہتی اور یہ اپنے لیے بنے ہوئے مخصوص خانوں کی دیواروں سے چمٹ جاتی ہیں۔ یہ خاص کمرہ تقریبا تین انچ لمبا اور ایک انچ چوڑا ہوتا ہے۔ اس کی شکل کردی یعنی گول ہوتی ہے۔ یہ کمرے دراصل چوپال کا کام دیتے ہیں، جہاں گائے بھینس باندھی جاتی ہیں ! ! ان کی دیواروں سے شہد بھری چیونٹیاں اس طرح لٹکتی رہتی ہیں جیسے انگور کے خوشے لٹک رہے ہوں، مزدوروں اور رضاکاروں کو جب بھی بھوک ستائے وہ ان زندہ مرتبانوں کے پاس آکر اپنی غذا لیتے اور پھر کام میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ یوں تو عموما چیونٹیوں کی یہ گائیں چل پھر سکنے سے معذور ہوتی ہیں لیکن اگر ان کے شکم میں بھرا ہوا شہد کم ہوجائے تو ان کو چلتے پھرتے بھی دیکھا گیا ہے۔ آئیے اب چیونٹیوں کے جاگیرداروں، اور نوابین کا حال سن لیجئے۔ یہ دراصل مفت خورے ہوتے ہیں اور اپنی زندگی میں ایک آدھ مرتبہ مزدوروں رضا کاروں کے محلوں پر دھاوا بول کر ان کے انڈے اپنے پاس اٹھالاتے ہیں اور جب ان سے بچے نکلتے ہیں تو ان سے ملازمین کا ساکام لیتے ہیں، گھر بار کی نگہداشت، صفائی، تعمیر و ترمیم، بچوں کی نگرانی، غذا کی فراہمی یہ سب ان ہی رضاکاروں کے ذمہ ہوتی ہے۔ مشہور فرانسیسی سائنس داں ہیوبر نے اس خصوص میں ایک بڑا دلچسپ تجربہ دہرایا ہے۔ اس نے تقریبا (30) ” جاگیردار چیونٹیوں “ کو ان کے رضاکاروں سے علیحدہ کرکے ایک ڈبہ میں علیحدہ بند کردیا۔ ہاتھ پیر ہلانے کی توفیق تو خدا نے ان کو دی نہ تھی دو دن کے اندر نصف سے زیادہ جاگیردار دوسری دنیا کو سدھارچکے تھے اور جو باقی تھے وہ بھی لب گور، سکت جواب دے چکی تھی، چہرے زرد، موت آنکھوں کے سامنے کھیل رہی تھی، ہیوبر کو ان کی حالت پر رحم آگیا۔ اس نے صندوق میں ایک رضا کار کو بھی منتقل کردیا۔ اس رضا کار نے تن تنہا بغیر کسی دوسرے کی مدد کے سب کے رہنے کے لیے زمین میں ایک گھر بنالیا سب کو اس میں منتقل کیا، غذا مہیا کی، بیماروں کی تیمارداری کی، ان کو بھلا چنگا بنایا، اور دیکھتے دیکھتے اس چھوٹی سی جگہ میں زندگی کی ہماہمی پھر سے پیدا ہوگئی ! !۔ شہد کی مکھیوں کی طرح چیونٹیوں کی بھی تین گروہوں میں تقسیم ہوتی ہے۔ نر اور مادہ اور غیر نمو یافتہ مادہ یا رضا کا ر۔ یہ امر تو ہمیں بہت قدیم سے معلوم ہے کہ چیونٹیاں کفایت شعار اور گرہستی بھی ہوتی ہیں۔ غذائی دانے محفوظ کرلینا ان کا ایک عام وطیرہ ہے۔ لیکن یہ حالیہ انکشاف بےحد تعجب خیز ہے کہ چیونٹیوں کی بعض انواع نہ صرف یہ کہ آئندہ کے استعمال کے لیے اپنی غذا محفوظ کرتی ہیں۔ بلکہ ان کو باضابطہ طریقوں سے اور خوش سلیقگی سے کاشت کرنا بھی آتا ہے ! ان کسان چیونٹیوں کا رنگ بھورا ہوتا ہے۔ یہ جسامت میں بھی دوسری چیونٹیوں کے مقابلہ میں بڑی ہوتی ہیں اور مناسب موسم آنے پر بالکل کسانوں کی طرف بیج بونے کی تیاریاں شروع کردیتی ہیں۔ کھیت کے لیے زمین کے انتخاب کے بعد وہ ایک مٹی کا پٹھا بنا لیتی ہیں یہ چار تاچھ انچ اونچا ہوتا ہے پوری چوڑائی تین تا چار فیٹ ہوتی ہے۔ اس چھتہ کے اطراف تین چار فیٹ تک کی زمین بالکل صاف کردی جاتی ہے۔ جیسے کسی پائیں باغ کی تیاری ہو ! اس صاف شدہ اراضی پر کسی قسم کی نباتات اگنے نہیں دی جاتی ہے البتہ صرف ایک خاص قسم کی گھاس اگتی ہے جو بیج دار ہوتی ہے۔ یہی چیونٹیوں کا کھیت ہے، اگر دوسری قسم کی گھاس اس میں اگنے لگے تو بیکار گھاس کو چیونٹیاں فورا علیحدہ کردیتی ہیں۔ یہ بیج دار گھاس جو اہتمام سے اگائی جاتی ہے چاول سے بہت کچھ ملتی ہوتی ہے۔ فصل کے تیار ہونے پر چیونٹیاں بڑی احتیاط سے اس کو گودام میں منتقل کردیتی ہیں۔ گودام میں منتقل کرنے کے بعد ان کی صفائی کی جاتی ہے اور بھوسہ دوبارہ باہر پھینک دیا جاتا ہے ! ! اگر گودام میں غلہ نمی اور رطوبت کی وجہ سے خراب ہونے لگے تو کبھی کبھی باہر نکال کر دھوپ کھلا لیا جاتا ہے ! یہ تمام تحقیق سب سے پہلے ڈاکٹر لنکم نے کی تھی اور پھر میک کک نے 1877 ء ؁ میں اس کی تصدیق کی۔ اس کے بعد متواتر تجربات نے رہے سہے شبہ کو بھی بالکل دور کردیا۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ سائنس اور مذہب میں بڑا اختلاف ہے۔ لیکن کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ سائنس دراصل اپنے ان تجربات اور معلومات سے ایک ان دیکھے خدا کی عظمت اور قدرت کے تصور میں غیر معمولی اضافہ کردیتا ہے۔
Top