Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - An-Naml : 18
حَتّٰۤى اِذَاۤ اَتَوْا عَلٰى وَادِ النَّمْلِ١ۙ قَالَتْ نَمْلَةٌ یّٰۤاَیُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰكِنَكُمْ١ۚ لَا یَحْطِمَنَّكُمْ سُلَیْمٰنُ وَ جُنُوْدُهٗ١ۙ وَ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ
حَتّىٰٓ
: یہانتک کہ
اِذَآ
: جب
اَتَوْا
: وہ آئے
عَلٰي
: پر
وَادِ النَّمْلِ
: چیونٹیوں کا میدان
قَالَتْ
: کہا
نَمْلَةٌ
: ایک چیونٹی
يّٰٓاَيُّهَا النَّمْلُ
: اے چینٹیو
ادْخُلُوْا
: تم داخل ہو
مَسٰكِنَكُمْ
: اپنے گھروں (بلوں) میں
لَا يَحْطِمَنَّكُمْ
: نہ روند ڈالے تمہیں
سُلَيْمٰنُ
: سلیمان
وَجُنُوْدُهٗ
: اور اس کا لشکر
وَهُمْ
: اور وہ
لَا يَشْعُرُوْنَ
: نہ جانتے ہوں (انہیں شعور نہ ہو
یہاں تک کہ جب وہ وادیٔ نمل پر سے گزرے اور ایک نملہ نے کہا اے نملو ! اپنے اپنے مکانوں میں داخل ہوجاؤ کہیں سلیمان اور اس کا لشکر تم کو کچل نہ دے اور وہ حقیقت حال سے واقف ہی نہ ہوں
سلیمان (علیہ السلام) کا وادی نمل سے گزرنا اور ایک نملہ کی بات سن کر مسکرانا : 18۔ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کی تینوں افواج کا ذکر اوپر گزر چکا جو جنوں ‘ انسانوں اور طیر پر مشتمل تھی اور آپ کے سامنے ان تینوں افواج کی تفصیل اور ان کی کارکردگی پیش کی گئی اور یقینا ان کی پریڈ بھی آپ نے دیکھی ہوگی اور ان کی طاقت وقوت بھی مثالی تھی آپ کا گزر مع افواج کے وادی نمل سے ہوا جس کا تذکرہ زیر نظر آیت میں کیا گیا ہے ۔ وادی نمل کیا ہے اور وہ کہاں ہے ؟ نملہ سے کیا مراد ہے ؟ اس کا تفصیلی بیان چونکہ ہم ایک بار سورة الانبیاء کی آیت 81 ‘ 82 کے بعد سلیمان (علیہ السلام) کی مختصر سرگزشت کے عنوان میں عرض کرچکے ہیں اس لئے بار بار اس کے ذکر کی ضرورت نہیں اس کی تفسیر وہیں سے دیکھ لی جائے ، اس جگہ جو ارشاد فرمایا گیا وہ یہ ہے کہ ” جب آپ وادی نمل پر سے گزرے تو ایک نملہ نے کہا اے نملو ! اپنے اپنے مکانوں میں داخل ہوجاؤ کہیں سلیمان (علیہ السلام) اور اس کا لشکر تم کو کچل نہ دے اور وہ حقیقت حال سے واقف نہ ہوں نملہ چونکہ چیونٹی کو بھی کہا جاتا ہے اور ایک قوم کو بھی ہمارے زیادہ تر مفسرین نے اس سے مراد چیونٹیوں کی وادی لیا ہے ہمیں نہ تو چیونٹیوں کی وادی سے انکار ہے اور نہ چیونٹی کے اس بیان پر کوئی تعجب سے تعجب جو ہے وہ تو سارا اس بات پر ہے کہ ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ جہاں سے سینکڑوں اور ہزاروں انسانوں کا گزر ہوتا ہے وہاں چیونٹیاں اور چیونٹے بھی موجود ہوتے ہیں لیکن کبھی وہ پاؤں تلے روند کر مسلے نہیں جاتے اور اس سے بھی زیادہ بڑی بات یہ ہے کہ ہمارے خیال میں قرآن کریم صرف اور صرف انہیں واقعات کی طرف اشارہ کرتا ہے جن میں ہماری زندگی کے لئے کوئی نہ کوئی سبق موجود ہو جہاں ہماری زندگی کا کوئی سبق موجود نہ ہو بلکہ اس کی حیثیت صرف ایک قصہ اور کہانی کی ہو تو قرآن کریم اس کو مطلق بیان نہیں کرتا لیکن اس کو قرآن کریم نے ایک سے زیادہ بار بیان کیا ہے اور تفصیل سے کیا ہے پھر آخر ہماری زندگی کے لئے اس میں سبق کیا ہوا ؟ کیونکہ سلیمان (علیہ السلام) کے بعد کوئی ایسا نہیں گزرا جس نے یہ تلقین اپنی قوم کو نہ کی ہو کہ حشرات الارض میں سے جو تم کو تکلیف دینے والے ہیں ان کو تم ہر حال میں مار سکتے ہو یہاں تک کہ محرم ہونے کی صورت میں بھی بعض کو مارا جاسکتا ہے اور جو تکلیف نہیں دیتے ان کو خواہ مخواہ مت چھیڑو بہرحال مفسرین نے اس سے مراد چیونٹیاں ہی لیں ہیں اور ہمارا ذہن اس قوم کی طرف منتقل ہوتا ہے جن کی وادی سے گزرنا ضروری تھا اور ملکہ نملہ نے اپنی قوم کو ایک ایسا حکم دے کر ان کو بھی محفوظ کردیا ہے اور سلیمان (علیہ السلام) اور آپ کے لشکر کے لئے بھی یہ اطلاع کردی ہے کہ ہم آپ لوگوں کی مزاحمت نہیں کرتے بلکہ ہماری کمک تمہارے ساتھ ہے اس لئے ہمارے آدمیوں کو تم بھی کسی طرح کی کوئی گزند نہ پہنچانا بلکہ خیروعافیت کے ساتھ یہاں سے گزر جانا اور بلاشبہ کسی قوم کی مزاحمت نہ کرنا بلکہ گزرنے والوں کو خوش آمدید کہنا اخلاقیات کا ایک حصہ ہے جس میں ہماری زندگی کے لئے بھی سبق موجود ہے ۔ رہا چیونٹوں کا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا اور ان کے اندر عسکری نظم وضبط کا پایا جانا اور ایک فوج کی طرح مارچ کرنا اور ڈسپلن قائم رکھتے ہوئے اپنے قائدین کی قیادت میں کام کرنا ‘ خوراک کے لئے ذخائر جمع کرنا ‘ اپنی نسل وذریت کی حفاظت کرنا ‘ پیغام رسانی کا کام سرانجام دینا ‘ خوراک کے ذخائر معلوم کرنا اور پھر سب کا مل کر باقاعدہ اس پر ٹوٹ پڑنا اور دیکھتے ہی دیکھتے ڈھیروں کا صفایا کردینا ‘ ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرنا وغیرہ نہ ان باتوں میں کوئی تعجب کی بات ہے اور نہ ہی اس میں کوئی اچنبہ ہے بلکہ روز مرہ یہ باتیں ہمارے مشاہدے میں آتی رہیں ہیں لیکن یہ ساری باتیں معہ اپنی دوسری باتوں کے انسانوں کی طرح ان کو مکلف قرار نہیں دیتیں اور نہ ہی انسانوں کے ساتھ رشتے ناطے جوڑتی ہیں اور نہ ہی اس کی ضرورت ہے ہاں ! جن لوگوں کو ضرورت ہوتی ہے وہ کرتے رہیں ہم تو ایک بات سمجھ چکے ہیں جو اسلام نے ہم کو بتائی ہے کہ انسانوں کے سوال کوئی مخلوق بھی مکلف نہیں اس کو تکلیف کی آخر ضرورت کیا ہے ؟ ہاں ! خیالی باتیں اسی طرح ہوتی رہتی ہیں جیسے طوطے اور فاختہ کی کہانیاں لیکن ایسے قصے اور اس طرح کی باتیں قرآن کریم کے شایان شان نہیں اگر سیاق وسباق کوئی اس طرح کا سبق دے سکتا ہو تو بطور تمثیل کوئی بات بیان کی جاسکتی ہے اور پھر سب کو معلوم ہے کہ تمثیل کا تعلق حقیقت سے کیا ہوتا ہے ؟ اس جگہ کوئی بات بھی ایسی موجود نہیں جہاں کوئی تمثیل کی ضرورت پیش آئی ہو تاہم چیونٹی کی ایک کہانی رہبر وکن کی زبانی ہم آپ کو سنوا دیتے ہیں اگر آپ چیونٹوں ہی سے سبق حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہم ہار مان جاتے ہیں کیونکہ ہمارا مقصود تو تفہیم کرانا ہے ضد بازی قائم کرنا نہیں ۔ ” چیونٹی بظاہر بڑی حقیر اور بڑی غیر اہم معلوم ہوتی ہے لیکن محنت اور ذہانت کے لحاظ سے وہ ایک ایسا نادر نمونہ ہے جس کی مثال ملنا دشوار ہے ، یہ کبھی نہ نچلی بیٹھتی ہے نہ کبھی بیکار رہتی ہے ، ہر وقت مصروف ‘ ہر وقت مشغول اس کی زندگی کی مختلف ادوار اور اس کے رہنے سہنے کے طریقوں کا حال سنایا جائے تو آپ ششدر رہ جائیں ، تنظیم اور تقسیم کار کے لحاظ سے ہو یا ذہانت اور ذکاوت کی بنا پر چیونٹی کی زندگی ہر طرح مکمل اور مربوط ہوتی ہے کیا آپ اتفاق رکھتے ہیں کہ کبھی حقیقت افسانہ سے زیادہ تعجب خیز ہوتی ہے ، چیونٹی کسی طرح اشرف المخلوقات حضرت انسان سے کمتر نہیں ہے ، یہ جانور پالتی ہے ‘ ان کو اپنے فائدے کے لئے کرتی ہے ‘ فوج رکھتی ہے ‘ دشمن پر حملہ کرتی ہے ‘ اسے کھیتی باڑی کا سلیقہ بھی آتا ہے ‘ کھیتوں میں ن اگر ہے ‘ بیج بوتی ہے ‘ کاشت تیار ہوتی ہے تو اسے دور کرتی اور احتیاط کے ساتھ تہ خانوں میں محفوظ اور منتقل کردیتی ہے ہاں ! مدارج کا فرق اس میں بھی بلاشبہ پایا جاتا ہے ۔ ۔۔۔۔۔ اس قوم میں بھی گویا پاکستان کا نظام جاگیرداری پایا جاتا ہے اور انکے جاگیردار ہمارے جاگیرداروں کی طرح آرام پسند ‘ قومی فرائض سے غافل ‘ خود پسند اور تن آسان ہوتے ہیں ، ان کو کسی کام سے کوئی غرض نہیں ہوتی ‘ دن بھر کھاتے اور پڑے رہتے ہیں ، اب تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ اپنی نوع سے ہٹ کر دوسری نوع کے جانوروں کو پالنا ‘ ان سے فائدہ اٹھانا صرف اشرف المخلوقات بشر ہی کا حصہ ہے لیکن تجربات نے اب یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچا دی ہے کہ چیونٹی جیسی حقیر خلقت بھی اس خصوصیت میں انسان کی رقیب ہے ، چیونٹی کی گائے بھینس ایک قسم کے کیڑے ہوتے ہیں جن کو افائیڈس کہا جاتا ہے ، ان کے شکم میں شہد بھرا رہتا ہے ‘ چیونٹیاں اپنے چھوٹے چھوٹے ڈنگوں کی مدد سے ان کیڑوں سے شہد حاصل کرلیتی ہیں ، بعض مرتبہ چیونٹیاں ان دودھیلے جانوروں کو اپنے چھتوں میں اٹھا لاتی ہیں اور ان کے انڈوں بچوں کی بڑی سخت نگہداشت کی جاتی ہے ، چیونٹی کی ایک قسم وہ بھی ہے جو خود دودھ دیتی ہے یہ میکسیکو اور آسٹریلیا کے بعض حصوں میں کثرت سے پائی جاتی ہے ، ان کی زندگی کا مقصد اپنے دیگر ہم قوموں کو آرام اور غذا پہنچانا ہوتا ہے ، ابتداء میں قومی مزدور اور رضاکار انکو گائے بھینسوں کی طرح اچھی اچھی غذاہ مہیا کرتے ہیں یعنی خوب چارہ ڈال کر ان کو دودھ حاصل کرنے کی غرض سے پالا جاتا ہے اور پرورش کی جاتی ہے اور جس طرح کبوتر اپنے بچوں کو غذا بھراتا ہے رضا کار چیونٹیاں ان گائے بھینسوں کو شہد بھرایا کرتی ہیں ۔ جوں جوں یہ عمل جاری رہے گا گائے بھینسوں کا جسم بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ ان کے لئے چلنا پھرنا بلکہ بعض اوقات سرکنا بھی دوبھر ہوجاتا ہے اور یوں بھی ان کو چلنے پھرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہتی اور یہ اپنے بنے ہوئے مخصوص خانوں کی دیواروں سے چمٹ جاتی ہیں ، یہ خاص کمرے دراصل چوپال کا کام دیتے ہیں جہاں گائیں ‘ بھینسیں باندھی جاتی ہیں یہ خاص کمرہ تقریبا تین انچ لمبا اور ایک انچ چوڑا ہوتا ہے اور اس کی شکل کروی یعنی گول ہوتی ہے یہ کمرے دراصل چوپال کا کام دیتے ہیں جہاں کا ئے بھینس باندھی جاتی ہیں ان کی دیواروں سے شہد بھری چیونٹیاں اس طرح لٹکتی رہتی ہیں جیسے انگور کے خوشے لٹک رہے ہوں ، مزدوروں اور رضاکاروں کو جب بھی بھوک ستائے وہ ان زندہ مرتبانوں کے پاس آکر اپنی غذا لیتے اور پھر کام میں مشغول ہوجاتے ہیں یوں تو عموما چیونٹیوں کی یہ گائیں چل پھر سکنے سے معذور ہوتی ہیں لیکن اگر ان کے شکم میں بھرا ہوا شہد کم ہوجائے تو انکو چلتے پھرتے بھی دیکھا گیا ہے ۔ آئیے اب چیونٹیوں کے جاگیرداروں اور نوابیں کا حال بھی سن لیجئے یہ دراصل مفت خورے ہوتے ہیں اور اپنی زندگی میں ایک آدھ مرتبہ مزدوروں ‘ رضاکاروں کے محلوں پر دھاوا بول کر ان کے انڈھے اپنے پاس اٹھا لاتے ہیں اور جب ان سے بچے نکلتے ہیں تو ان سے ملا ازمین کا سا کام لیتے ہیں ، گھر بار کی نگہداشت ‘ صفائی تعمیر و ترمیم بچوں کی نگرانی ‘ غذا کی فراہمی یہ سب انہی رضا کاروں کے ذمہ ہوتی ہے مشہور فرانسیسی سائنس دان ہیوبر نے اس خصوصیت میں ایک بڑا دلچسپ تجربہ دہرایا ہے اس نے تقریبا تیس جاگیردار چیونٹیوں کو ان کے رضاکاروں سے علیحدہ کرکے ایک ڈبہ میں علیحدہ بند کردیا ۔ ہاتھ پیر ہلانے کی توفیق تو اللہ نے ان کو دی ہی نہ تھی دو دن کے اندر نصف سے زیادہ جاگیردار دوسری دنیا کو سدھار چکے تھے اور جو باقی تھے وہ بھی لب گور تھے اور ان کی سکت جواب دے چکی تھی ‘ چہرے زرد ‘ موت آنکھوں کے سامنے کھیل رہی تھی ، ہیوبر کو ان کی حالت پر رحم آگیا اس نے صندوق میں ایک رضاکار کو بھی منتقل کردیا اس رضاکار نے تن تنہا بغیر کسی دوسرے کی مدد کے رہنے کے لئے زمین میں ایک گھر بنا لیا اور پھر سب کو ان میں منتقل کیا ‘ غذا مہیا کی ‘ بیماروں کی تیمارداری کی ‘ ان کو صحت مند بنایا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس چھوٹی سی جگہ میں زندگی کی ہماہمی پھر سے پیدا ہوگئی ۔ شہد کی مکھیوں کی طرح چیونٹوں کو بھی تین گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے نر مادہ اور غیر نمو یافتہ مادہ یا رضا کار۔ یہ امر تو ہمیں بہت قدیم سے معلوم ہے کہ چیونٹیاں کفایت شعار اور گرہستی بھی ہوتی ہیں ، غذائی دانے محفوظ کرلینا ان کا ایک عام وطیرہ ہے لیکن یہ حالیہ انکشاف بیحد تعجب خیز ہے کہ چیونٹوں کی بعض انواع نہ صرف یہ کہ آئندہ کے استعمال کے لئے اپنی غذا محفوظ کرتی ہیں بلکہ انکو باضابطہ طریقہ سے اور سیلقہ شعاری سے کاشت کرنا بھی آتا ہے ان کسان چیونٹیوں کا رنگ بھورا ہوتا ہے ‘ یہ جسامت میں بھی دوسری چیونٹوں کے مقابلہ میں بڑی ہوتی ہیں اور مناسب موسم آنے پر بالکل کسانوں کی طرح بیج بونے کی تیاریاں شروع کردیتی ہیں کھیت کے لئے زمین کے انتخاب اور مناسب موسم کے انتخاب کے بعد وہ ایک مٹی کا پھٹا بنا لیتی ہیں یہ چار تا چھ انچ اونچا ہوا ہے پوری چوڑائی تین تا چار فیٹ ہوتی ہے ، اس چھتہ کے اطراف تین چار فیٹ تک کی زمین بالکل صاف کردی جاتی ہے جیسے کسی پائیں باغ کی تیاری ہو اس صاف شدہ اراضی پر کسی قسم کی نباتات اگنے نہیں دی جاتی البتہ صرف ایک خاص گھاس کو چیونٹیاں فورا علیحدہ کردیتی ہیں یہ بیج دار گھاس جو اہتمام سے اگائی جاتی ہے چاول سے بھی کچھ ملتی جلتی ہے ‘ فصل کے تیار ہونے پر چیونٹیاں بڑی احتیاط سے اس کو گودام میں منتقل کردیتی ہیں ، گودام میں منتقل کرنے کے بعد انکی صفائی کی جاتی ہے اور بھوسہ دوبارہ باہر پھینک دیا جاتا ہے ۔ اگر گودام میں غلہ نمی اور رطوبیت کی وجہ سے خراب ہونے لگے تو کبھی کبھی باہر نکال کر دھوپ کھلا لیا جاتا ہے یہ تمام تحقیق سب سے پہلے ڈاکٹر لنکم نے کی تھی اور پھر میک کک نے 1877 ء میں اس کی تصدیق کی اس کے بعد متواتر تجربات نے رہے سہے شبہ کو بھی بالکل دور کردیا ، یہ لوگ کہتے ہیں کہ سائنس اور مذہب میں بڑا اختلاف ہے لیکن کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ سائنس دراصل اپنے ان تجربات سے اور معلومات سے ایک ان دیکھے خدا کی عظمت اور قدرت کے تصور میں غیر معمول اضافہ کردیتی ہے ۔ اسی طرح ” ایوری ڈے تھنک “ کے مصنف نے دنیا کے اندر جتنے حشرات الارض ہیں ان کی تھیوری ‘ انکی عمریں اور ان کے حالات پر مفصل بحث کی ہے اور اس وقت شاید ہی کوئی ارضی کیڑا مکوڑا ایسا ہوگا جس کو زیر بحث نہ لایا گیا ہو اور اب اس اشرف المخلوقات انسان کی باری ہے اس کے متعلق سرجری کے جتنے تجربات ہوچکے ہیں آج کسی سے پوشیدہ نہیں اور اب اس کی تخلیق کو موضوع بحث بنایا جا رہا ہے اور خصوصا دو مادہ جانوروں کے تجربات نے ایک تیسری مخلوق پیدا کرکے ایک نیا دروازہ کھول دیا ہے اور اس کا نتیجہ تخلیق انسانی کے خاتمہ پر متنج ہو سکتا ہے کیونکہ اس طرح کی وہ مخلوق جو ایک جنس کے دو جانوروں سے یا ایک جنس کے دو مختلف جرثوموں سے پیدا ہوگی وہ یقینا مزید پیدائش کے قابل نہیں رہے گی نہ ایک جنس کے دو جانداروں سے اور نہ ہی ایک جنس کے دو مختلف جرثوموں سے اور نہ ہی دوسری مخلوق کے اپنے جوڑے سے اور اس طرح انسان کی پیدائش کا مکمل خاتمہ ہوجائے گا ہاں اگر اس کے ساتھ ان پیدا شدہ انسانوں کی زندگی ہی ایسا بنا دی جائے کہ اس میں موت کا دخل نہ رہے یہ دوسری بات ہے بہرحال تجربات جاری ہیں اور یہ فیصلہ آنے والی نسلوں پر ہی چھوڑا جاسکتا ہے کہ وہ اس کو کس طرف لے جاتی ہیں بلاشبہ اللہ رب ذوالجلال والاکرام کا فیصلہ اٹل ہے اور جو اس کو کرنا ہے بہرحال اس کو ہو کر ہی رہنا ہے ۔ لیکن ان تجربات سے جو کچھ لوگ ثابت کرنا چاہتے ہیں اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ اس کے لئے اصول خداوندی نے وضاحت کردی ہے کہ ولد بغیر زوجین کے نہیں اور رہی فی نفسہ مخلوق تو اس سے قرآن کریم نے کہیں انکار نہیں کیا بلکہ پہلے ہی روز سے وہ اس کا اقراری چلا آرہا ہے کوتاہ عقلوں اور کور چشموں کو نظر نہ آئے تو ان کا کیا کیا جاسکتا ہے ۔
Top