Tafseer-e-Mazhari - An-Naml : 18
حَتّٰۤى اِذَاۤ اَتَوْا عَلٰى وَادِ النَّمْلِ١ۙ قَالَتْ نَمْلَةٌ یّٰۤاَیُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰكِنَكُمْ١ۚ لَا یَحْطِمَنَّكُمْ سُلَیْمٰنُ وَ جُنُوْدُهٗ١ۙ وَ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ
حَتّىٰٓ : یہانتک کہ اِذَآ : جب اَتَوْا : وہ آئے عَلٰي : پر وَادِ النَّمْلِ : چیونٹیوں کا میدان قَالَتْ : کہا نَمْلَةٌ : ایک چیونٹی يّٰٓاَيُّهَا النَّمْلُ : اے چینٹیو ادْخُلُوْا : تم داخل ہو مَسٰكِنَكُمْ : اپنے گھروں (بلوں) میں لَا يَحْطِمَنَّكُمْ : نہ روند ڈالے تمہیں سُلَيْمٰنُ : سلیمان وَجُنُوْدُهٗ : اور اس کا لشکر وَهُمْ : اور وہ لَا يَشْعُرُوْنَ : نہ جانتے ہوں (انہیں شعور نہ ہو
یہاں تک کہ جب چیونٹیوں کے میدان میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا کہ چیونٹیوں اپنے اپنے بلوں میں داخل ہو جاؤ ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں اور ان کو خبر بھی نہ ہو
حتی اذا اتوا علی وادالنمل . یہاں تک کہ یہ سب جب چیونٹیوں کی وادی پر پہنچے۔ عَلٰی وَادٍ میں لفظ عَلٰی بتارہا ہے کہ وہ اوپر سے آئے تھے اور بات بھی معلوم ہو رہی ہے کہ اس وادی کو طے کر کے آکر کنارہ پر پہنچ گئے تھے (اور وہیں چیونٹیوں کے بل تھے) اتی علی الشئی کا معنی ہے کسی چیز کو ختم کردیا اور اس کے آخری حصہ پر پہنچ گئے۔ وہب بن منبہ نے بحوالۂ کعب بیان کیا ہے کہ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) جب تخت پر سوار ہوتے تو اہل و عیال کو نوکروں چاکروں کو اور لاؤ لشکر کو بھی سوار کرلیتے تھے۔ سالن پکانے کے برتن اور روٹیاں پکانے کے آہنی تنور بھی ساتھ ہوتے تھے۔ اتنی بڑی بری نو دیگیں بھی ہوتی تھیں کہ ایک دیگ میں دس اونٹوں کا گوشت آجائے۔ چوپایوں کے لئے میدان بھی اپنے سامنے بنواتے تھے۔ اثنائے سیر میں آسمان و زمین کے درمیان چوپائے اپنے میدانوں میں دوڑتے تھے اور باورچی کھانا اور روٹیاں پکانے میں مشغول رہتے تھے۔ ہوا ان سب کو لے کر چلتی تھی۔ ایک بار اصطخر سے یمن کو جاتے میں مدینہ شریف کے اوپر سے بھی گزرے اور فرمایا : یہ نبی آخر الزمان کی ہجرت گاہ ہے۔ خوش خبری ہے ان کے لئے جو ان کے اوپر ایمان لائے اور خوشی ہے اس کے لئے جس نے ان کا اتباع کیا۔ کعبہ کے اوپر سے گزرے تو کعبہ کے گرداگرد بت نظر آئے جن کی پوجا کی جاتی تھی۔ جب سلیمان ( علیہ السلام) کعبہ سے آے بڑھ گئے تو کعبہ رونے لگا۔ اللہ نے کعبہ کے پاس وحی بھیجی (اور دریافت فرمایا) تیرے رونے کا کیا سبب ہے ؟ کعبہ نے کہا : اے میرے رب ! مجھے اس بات نے رلایا کہ یہ تیرا نبی تھا اور تیرے دوستوں کی جماعت تھی۔ یہ لوگ میری طرف سے گزرے اور میرے پاس نماز نہیں پڑھی حالانکہ میرے آس پاس تجھے چھوڑ کر بتوں کی پوجا کی جاتی ہے۔ اللہ نے وحی بھیجی : تو نہ رو۔ کچھ مدت کے بعد میں تجھے سجدہ کرنے والے چہروں سے بھر دوں گا اور تیرے اندر جدید قرآن نازل کروں گا اور تیرے اندر سے آخر زمانہ میں ایک نبی پیدا کروں گا۔ میں اپنے انبیاء سے محبت رکھتا ہوں تیرے اندر اپنی مخلوق سے ایسے لوگوں کو آباد کروں گا جو میری عبادت کریں گے اور میں اپنے بندوں پر ایک فرض (یعنی فریضۂ حج) مقرر کر دوں گا (جس کو ادا کرنے کے لئے) وہ اتنی تیزی سے تیرے قریب پہنچیں گے جتنی تیزی سے گدھ اپنے آشیانوں کی طرف جاتے ہیں۔ وہ تیرے ایسے مشتاق ہوں گے جیسے اونٹنی کو اپنے بچہ کی طرف اور کبوتری کو اپنے انڈوں کی طرف اشتیاق ہوتا ہے (اونٹنی اپنے بچہ کے پاس اور کبوتری اپنے انڈوں کے پاس بڑی بےتابی سے پہنچنا چاہتی ہے) میں تجھے بتوں اور شیطانوں کے پجاریوں سے پاک کر دوں گا۔ پھر سلیمان ( علیہ السلام) چلتے چلتے وادئ سدیر کی طرف سے گزرے۔ وادئ سدیر وادئ طائف کا حصہ ہے وہاں آپ کا مرور وادئ نمل پر ہوا۔ کعب کا یہی قول ہے کہ وادئ نمل طائف میں تھی۔ مقاتل اور قتادہ نے کہا : وہ شام میں ایک زمین تھی۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس وادی میں جن رہتے تھے اور وہاں کی چیونٹیاں ان کی سواریاں تھیں۔ فرق حمیدی نے کہا : اس وادی کی چونٹیاں مکھیوں کی طرح تھیں۔ بعض نے کہا : نجاتی اونٹ کے برابر تھی۔ مشہور یہ ہے کہ یہ بات کہنے والی ایک چھوٹی چیونٹی تھی۔ قالت نملۃ . ایک چیونٹی نے کہا۔ شعبی نے کہا (وہ چیونٹی پر دار تھی) اس کے دو بازو تھے۔ بعض نے کہا : وہ لنگڑی تھی۔ ضحاک نے اس کا نام طاحیہ اور مقاتل نے حذمی بتایا۔ یایھا النمل ادخلو مسکنکم . اے چیونٹیو ! اپنے اپنے بلوں میں گھس جاؤ۔ اُدْخُلُوْا جمع مذکر حاضر کا صیغہ ہے۔ ضابطہ نحوی کے لحاظ سے اَدْخُلْن بصیغہ جمع مونث حاضر ہونا چاہئے۔ جمع مذکر کا خطابی صیغہ استعمال کرنے کی وجہ یہ ہے کہ انسان جب کلام کرتا ہے اور حیوانات کے متعلق بات کرتا ہے تو حیوانات کے بےعقل ہونے کی وجہ سے ان کے لئے وہ ضمیریں استعمال کرتا ہے جو جمادات کے لئے مستعمل ہیں۔ عورتوں کے لئے بھی ان کے ضعیف العقل ہونے کی وجہ سے جمادات کی ضمیریں استعمال کرلی جاتی ہیں۔ گویا ان کو بھی بےعقل مان کر جمادات کے ساتھ شامل کردیا جاتا ہے لیکن حیوانات جب دوسرے حیوانوں سے کلام کرتے ہیں تو وہ اپنی نظر میں اپنے کو ذیعقل سمجھتے ہیں اور دوسرے کو اہل عقل کی طرح خطاب کرتے ہیں۔ اس جگہ اللہ نے وہ کلام نقل کیا ہے جو ایک چیونٹی نے دوسری چیونٹیوں کو اہل عقل قرار دے کر کہا تھا اس لئے وہ صیغہ اختیار کیا جس کے مخاطب اہل عقل ہوتے ہیں۔ لا یحطمنکم سلیمن و جنودہ . تم کو سلیمان اور ان کی فوجیں کہیں پیس نہ ڈالیں۔ اس کلام میں (بظاہر) پیس ڈالنے کی ممانعت ہے (لیکن ایک چیونٹی حضرت سلیمان ( علیہ السلام) اور ان کی فوج کو پیسنے کی ممانعت کیسے کرسکتی تھی پھر چیونٹی کا روئے خطاب تو دوسری چیونٹیوں کی طرف تھا ‘ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) اور ان کی فوج کی جانب نہیں تھا) لیکن فی الحقیقت چیونٹیوں کو باہر نکلنے اور باہر رہنے کی ممانعت ہے تاکہ پامال ہونے سے بچ جاؤ جیسے عرب کہتے ہیں : لاَ اَراکَ ھٰھُنا میں تجھے یہاں نہ دیکھو یعنی یہاں نہ ٹھہرنا (یا پھر نہ آنا) ۔ وھم لا یشعرون . ایسی حالت میں کہ ان کو پتہ بھی نہ ہو۔ کیونکہ اگر ان کو معلوم ہوگا تو وہ خود ہی تم کو نہیں روندیں گے۔ گویا یہ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) اور آپ کے ساتھیوں کی طرف سے ممکن الواقع فعل کی معذرت کا اظہار ہے اور اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ دانستہ یہ قصور تو ان سے سرزد نہ ہوگا۔ افسوس شیعہ کو چیونٹی کو برابر بھی سمجھ نہیں کہ وہ صحابہ کرام کی جانب سے قصداً اہل بیت کو ایذاء پہنچانے کے قائل ہیں۔ ایک شبہ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کا تخت تو ہوا پر رواں تھا پھر پیس ڈالنے کا احتمال ہی کیا تھا۔ ایک ازالہ ممکن ہے حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کی کچھ پیادہ اور سوار فوج زمین پر چل رہی ہو جس کی طرف سے چیونٹی کو اندیشہ ہوا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ واقعہ تسخیر ہوا سے پہلے کا ہو ‘ اس وقت حضرت سلیمان اور آپ کا لشکر زمین پر ہی چل رہا ہو۔ بعض اہل عرفان نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ چیونٹی نے دوسری چیونٹیوں سے کہا : ایسا نہ ہو کہ تم حضرت سلیمان کے لشکر اور ان کے ساز و سامان اور شان و شوکت کی سیر کرنے میں اتنی مشغول ہوجاؤ کہ اللہ کے ذکر سے بھی غافل ہو اور ذکر خدا سے غفلت تمہاری ہلاکت کا ذریعہ ہوجائے۔ یہ بات سلیمان نے تین میل سے سن پائی۔ کذا قال مقاتل کیونکہ جہاں کہیں جو مخلوق بات کرتی تھی ہوا وہ بات حضرت سلیمان کے گوش گزار کردیتی تھی۔
Top