Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 24
قَالُوْا یٰمُوْسٰۤى اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَهَاۤ اَبَدًا مَّا دَامُوْا فِیْهَا فَاذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ
قَالُوْا : انہوں نے کہا يٰمُوْسٰٓى : اے موسیٰ اِنَّا : بیشک ہم لَنْ نَّدْخُلَهَآ : ہرگز وہاں داخل نہ ہوں گے اَبَدًا : کبھی بھی مَّا دَامُوْا : جب تک وہ ہیں فِيْهَا : اس میں فَاذْهَبْ : سو تو جا اَنْتَ : تو وَرَبُّكَ : اور تیرا رب فَقَاتِلَآ : تم دونوں لڑو اِنَّا : ہم ھٰهُنَا : یہیں قٰعِدُوْنَ : بیٹھے ہیں
وہ لوگ بولے اے موسیٰ (علیہ السلام) ہم ہرگز وہاں کبھی بھی نہ داخل ہوں گے جب تک وہ لوگ بولے اے موسیٰ ہم ہرگز وہاں کبھی بھی نہ داخل ہوں گے جب تک کہ وہ لوگ وہاں موجود ہیں، سو آپ خود اور آپ کے خداوند چلے جائیں اور آپ دونوں لڑبھڑلیں ہم تو یہاں سے ٹلتے نہیں،100 ۔
100 ۔ یہ کہنے والی بنی اسرائیل کی عام جماعت تھی، جو ان فہمائشوں سے غیر متاثر رہی تھی۔ توریت میں اس موقع کی منظر کشی یوں کی گئی ہے :۔” تب ساری جماعت چلا کر روئی اور لوگ اس رات بھر رویا کیے، پھر سارے بنی اسرائیل موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) پر کڑکڑائے اور ساری جماعت نے انہیں کہا کہ اے کاش ہم مصر میں مرجاتے اور کاش کہ ہم اسی بیابان میں فنا ہوتے ! خداوند کس لیے ہم کو اس زمین میں لایا کہ تلوار سے گرجائیں اور ہماری جوروں اور بچے پکڑے جائیں “۔ (گنتی۔ 14: 1 ۔ 3) ” تب ساری جماعت نے چاہا کہ ان پر (یوشع اور کالب پر) پتھراؤ کرے “۔ (گنتی۔ 14: 10) (آیت) ” فاذھب انت وربک “۔ اسرائیلیوں کی اس تقریر کا گستاخانہ طنز تو ظاہر ہی ہے۔ لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مشرک قوموں سے متاثر ہو کر یہ موحد قوم بھی اپنے عقیدہ میں شرک اس حدتک داخل کرچکی ہو۔ مشرک قوموں کا یہ ایک عام دستور تھا کہ میدان جنگ میں جاتے تو اپنی مورتیوں، ٹھاکروں کو اپنے ساتھ لے جاتے اور یہ عقیدہ بھی رکھتے کہ ان کے دیوتا بھی ان کے ساتھ ساتھ ہیں۔ (آیت) ” انا ھھنا قعدون “۔ یہ واضح رہے کہ اسرائیلیوں کی اس وقت تک کوئی الگ باقاعدہ فوج نہ تھی، بلکہ ساری قوم کا ہر بالغ وتندرست مرد مسلح اور فوجی سپاہی تھا۔
Top