Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 28
لَئِنْۢ بَسَطْتَّ اِلَیَّ یَدَكَ لِتَقْتُلَنِیْ مَاۤ اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیْكَ لِاَقْتُلَكَ١ۚ اِنِّیْۤ اَخَافُ اللّٰهَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ
لَئِنْۢ بَسَطْتَّ : البتہ اگر تو بڑھائے گا اِلَيَّ : میری طرف يَدَكَ : اپنا ہاتھ لِتَقْتُلَنِيْ : کہ مجھے قتل کرے مَآ اَنَا : میں نہیں بِبَاسِطٍ : بڑھانے والا يَّدِيَ : اپنا ہاتھ اِلَيْكَ : تیری طرف لِاَقْتُلَكَ : کہ تجھے قتل کروں اِنِّىْٓ : بیشک میں اَخَافُ : ڈرتا ہوں اللّٰهَ : اللہ رَبَّ : پروردگار الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہان
تو اگر تو اپنا ہاتھ مجھ پر اٹھائے گا کہ مجھے قتل کرڈالے،109 ۔ تو میں (جب بھی) اپنا ہاتھ تجھ پر اٹھانے کا نہیں کہ تجھے قتل کرڈالوں،110 ۔ (کیونکہ) میں تو اللہ پروردگار عالم سے ڈرتا ہوں،1 1 1 ۔
109 ۔ (باوجود اپنے اس علم کے کہ میں بےقصور ہوں) 110 ۔ (حالانکہ تیرے ارادۂ قتل پر مطلع ہو کر اور تیری آمادگی قتل دیکھ میرے پاس جواز قتل کا عذر بھی موجود ہے) فقرہ کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ تم جس طرح آغاز قتل میں دلیر ہو، میں ابتداء بالقتل کی جرأت نہیں رکھتا، یہ مطلب نہیں کہ مدافعت میں تلوار اٹھانا جائز نہ ہو، شریعت اسلامی میں جب قرآئن قوی سے یہ معلوم ہوجائے کہ قاتل حملہ کیا ہی چاہتا ہے، تو جواب ومدافعت میں تلوار اٹھانا بالکل جائز ہے، بلکہ اگر مصلحت اسلامی اس کی مقتضی ہو، تو اسے موقع پر واجب ہوجاتا ہے۔ قال ابن عباس ؓ لئن بدأتنی بقتل لم ابدأک بہ ولم یردانی لا ادفعک علی نفسی اذا قصدت قتلی (جصاص) یجب علی من قصدہ انسان بالقتل قتلہ اذا امکنہ (جصاص) انہ فی شرعنا یجوز دفعہ اجماعا وفی وجوب ذلک علیہ خلاف والاصح وجوب ذلک (قرطبی) واختلف فی ھذا الان فالصحیح من المذھب انہ یلزم الرجل دفع الفساد عن نفسہ وغیرہ وان ادی للقتل (روح) محققین اہل سنت نے اس فتوی پر علاوہ احادیث نبوی کے متعدد آیات قرآنی سے بھی استدلال کیا ہے۔ مثلا : ( 1) (آیت) ” وقتلوھم حتی لاتکون فتنۃ “۔ کہ قصد قتل یقیناً فتنہ میں شامل ہے۔ (2) (آیت) ” ولکم فی القصاص حیوۃ “۔ کہ اسی سزائے قتل کے خوف سے قاصد قتل باز رہے گا۔ (3) (آیت) ” فان بغت احدھما علی الاخری فقاتلوا التی تبغی “۔ الخ کہ فءۃ باغیہ قصد قتال ہی رکھتی ہے۔ اور انہی آیات قرآنی و احادیث نبوی سے استدلال کرکے حضرت علی ؓ نے خوارج سے قتال، ان کے قصد قتال کی بنا پر جائز رکھا تھا، اور سب صحابیوں نے آپ ؓ کی رائے سے اتفاق کیا، وقد قتل علی ابن ابی طالب الخوارج حین قصد وا قتل الناس واصحاب النبی ﷺ معہ وافقون علیہ وقدروی عن النبی ﷺ اثار فی وجوب قتلھم (جصاص) (آیت) ” ماانا بباسط “ کے فقرۂ نفی میں ایک تو بجائے فعل کے اسم فاعل اور پھر حرف ب نفی بسط کی تاکید و استمرار کے لیے ہے۔ تاکید النفی بما فی خبرھا من الباء للمبالغۃ فی اظھار برأتہ عن بسط الید ببیان استمرارہ علی نفی البسط (ابو سعود) واکد النفی بالباء (بیضاوی) ذکر الشرط بلفظ الفعل والجزاء بلفظ اسم الفاعل مقرونا بالباء المزیدۃ لتاکید النفی (نیشاپوری) 1 1 1 ۔ (اور مدافعت تک میں ہاتھ نہیں اٹھاتا، تیری سی جسارت کہاں سے لاسکتا ہوں کہ خدا سے ذرا نہیں ڈرتا، اور بالکل بلاوجہ میرے قتل پر آمادہ ہوگیا ہے) اصل مسئلہ شرعی تو وہی ہے جو اوپر کے حاشیہ میں مذکور ہوچکا، البتہ الفاظ قرآنی کے ظاہر سے سند پکڑ کے بعض بزرگوں نے ایسے موقع پر بھی عفو و درگزر ہی کو اختیار کیا ہے۔ اور بعض اکابر سے منقول ہے کہ خلیفہ راشد حضرت عثمان ؓ کا آخری وقت کا طرز عمل اسی آیت کے مطابق تھا۔ یعنی اپنی جان دینا گوارا کرلی، اور جان کے دشمنوں سے مقابلہ و قتال قبول نہ فرمایا۔ قال ایوب السختیانی ان اول من اخذ بھذا الایۃ من ھذہ الامۃ عثمان ؓ بن عفان رواہ ابن ابی حاتم (ابن کثیر) وھذا فی الشرع جائز لمن ارید قتلہ ان ینقاد ویستلم طلباللاجر کما فعل عثمان ؓ (معالم) قال بعضھم المقصود بالقتل ان اراد ان یستسلم جازلہ ذلک وھکذا فعل عثمان ؓ (کبیر) انما استسلم کما استسلم عثمان بن عفان ؓ (بحر) (آیت) ” انی اخاف “۔ جملہ تعلیلیہ ہے، اور اسی لیے ترجمہ میں ” کیونکہ “ بڑھا دیا گیا، اشارۃ الی کون الجملۃ تعلیلیۃ لما قبلہ وھذا التقریر احسن من کل مایوجد فی التفاسیر (تھانوی) علل ذلک بقولہ انی اخاف اللہ (ابوسعود) تعلیل للامتناع عن بسط یدہ لیقتلہ (روح)
Top