Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 35
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ وَ جَاهِدُوْا فِیْ سَبِیْلِهٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے اتَّقُوا : ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَابْتَغُوْٓا : اور تلاش کرو اِلَيْهِ : اس کی طرف الْوَسِيْلَةَ : قرب وَجَاهِدُوْا : اور جہاد کرو فِيْ : میں سَبِيْلِهٖ : اس کا راستہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح پاؤ
اے ایمان والو اللہ سے ڈرو،129 ۔ اور اس کا قرب تلاش کرو،130 ۔ اور اس کی راہ میں جدوجہد کرو،131 ۔ تاکہ (ہر طرح) فلاح پاؤ،132 ۔
129 ۔ یعنی اس کے احکام کی نافرمانی سے ڈرو اور بچو، تقوی ہی ایسی چیز ہے جو جاہ ومال کی ہر حرص بیجا سے بچا سکتا ہے۔ 130 ۔ (طاعتوں کے ذریعہ سے) وسیلۃ کے معنی قرب کے ہیں۔ اہل لغت اور تابعین سب سے یہی معنی مروی ہیں۔ یعنی بالوسیلۃ القربۃ (ابن جریر) توسلت الی فلان بکذا بمعنی تقربت الیہ (ابن جریر) الوسیلۃ القربۃ التی یبتغی ان یطلب بھا (قرطبی) الوسیلۃ ھی القربۃ عن ابی وائل والحسن و مجاھد وقتادہ وعطاء والسدی وابن زید وعبداللہ بن کثیر (قرطبی) الوسیلۃ القربۃ الزلفۃ یقال توسل الی ھکذا ای تقرب (ابن قتیبہ) اور قرب کا بہترین زریعہ احکام الہی کی تعمیل ہے۔ اطلبوا الیہ القرب فی الدرجات بالاعمال الصالحۃ (ابن عباس ؓ استعیرت لما یتوسل بہالی اللہ تعالیٰ من فعل الطاعات وترک السیئات (مدارک) فالمراد طلب الوسیلۃ الیہ فی تحصیل مرضاتہ وذلک بالعبادات والطاعات (کبیر) وحقیقۃ الوسیلۃ الی اللہ تعالیٰ مراعاۃ سبیلہ بالعلم والعبادۃ وتحری مکارم الشریعۃ وھی کالقربۃ (راغب) جن لوگوں نے وسیلہ کے تحت میں بزرگان دین کی استعانت اور انبیاء واولیاء سے استغاثہ جائز رکھا ہے، انہوں نے عربی کے وسیلہ (بہ معنی قرب) کو اردو کے وسیلہ (بہ معنی ذریعہ) کا مرادف سمجھ لیا ہے۔ اور ایسی شدید وفاحش غلطیاں نادر نہیں، کثیر الوقوع ہیں، علامہ آلوسی نے بڑے بسط و تفصیل سے اس موضوع پر گفتگو کی ہے اور لکھا ہے کہ واما اذا کان المطلوب منہ میتا او غائبا فلایستریب عالم انہ غیر جائز وانہ من البدع التی لم یفعلھا احد من السلف (روح) (میت یا غائب شخص سے دعا کرانے کے ناجائز ہونے میں کسی عالم کو بھی شک نہیں، اور یہ ایک ایسی بدعت ہے جس کا ارتکاب سلف میں کسی نے بھی نہیں کیا ہے) اور لکھا ہے کہ :۔ ولم یرو عن احد من الصحابۃ ؓ وھم احرص الخلق علی کل خیر انہ طلب من میت شیئا (حضرات صحابہ ؓ سے بڑھ کر نیکی اور ثواب کا حریص اور کون ہوا ہے، لیکن کسی ایک صحابی سے بھی منقول نہیں کہ انہوں نے صاحب قبر سے کچھ طلب کیا ہو) صحابیوں میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا اتباع سنت ضرب المثل کی حد تک شہرت رکھتا ہے، ان کی حالت میں تھی۔ قد صح عن ابن عمر ؓ انہ کان یقول اذا دخل الحجرۃ النبویۃ زائر السلام علیک یا رسول اللہ السلام علیک یا ابابکر السلام علیک یا ابت ثم ینصرف ولا یزید علی ذلک ولا یطلب من سید العلمین ﷺ او من ضجیعیۃ المکرمین شیا وھم اکرم من ضمتہ البسیطۃ وارفع قدرا من سائر من احاطت بہ الافلاک المحیطہ (جب روضہ نبوی میں زیارت کے لیے داخل ہوتے، تو صرف اس قدر کہتے کہ السلام علیک یا رسول اللہ، السلام علیک یا ابابکر، السلام علیک اباجان، اور اسے زائد کچھ نہ کہتے نہ کچھ مانگتے نہ سرور عالم سے نہ ان کے ان مکرم مقربین سے۔ درآنحالیکہ سارے زمین و آسمان کی مخلوقات میں ان سے بڑھ کر اور کون ہوسکتا ہے) روضہ مبارک کے سامنے دعا کرنے سے بڑھ کر کون سی شے مقبول ہوسکتی ہے۔ لیکن فقد کانت الصحابۃ تدعوا اللہ تعالیٰ ھناک مستقبلین القبلۃ ولم یرو عنھم استقبال القبر الشریف عند الدعاء مع افضل من العرش یہاں بھی صحابہ کرام ؓ اللہ تعالیٰ ہی سے دعا کرتے تھے قبلہ رخ ہوکر، اور یہ نہیں کرتے تھے کہ دعا کرتے وقت قبر شریف کی طرف منہ کرلیں باوجود اسکے کہ وہ مقام عرش سے بھی افضل ہے) اور تو اور سلام پڑھتے وقت تک کے لیے، واختلف الائمۃ فی استقبالہ عند السلام فعن ابی حنفیۃ انہ لا یستقبل بل یستدبر ویستقبل القبلۃ (ائمہ میں اختلاف ہے کہ منہ کس طرف رکھنا چاہیے، لیکن امام ابوحنیفہ (رح) کا فیصلہ اس موقع کے لیے بھی یہی ہے کہ منہ قبر شریف کی طرف نہ کرے، بلکہ ادھر پشت رکھے اور چہرہ قبلہ شریف کی طرف ہے) غرض کی بعض اہل بدعت نے لفظ وسیلہ سے جو اپنے لیے پناہ ڈھونڈی ہے، وہ سرتاسر بودی اور بےبنیاد ہے۔ 131 ۔ وسیلہ ہی کی طرف عربی کے جھاد کو بھی لوگوں نے اردد کے جہاد کے مفہوم میں لے رکھا ہے، اردو میں جہاد ایک دینی اصطلاح کی حیثیت سے صرف قتال فی سبیل اللہ کے معنی میں مخصوص ہوچکا ہے۔ عربی میں یہ حصروتحدید صحیح نہیں، عربی میں جہاد کا مفہوم بہت وسیع اور عام ہے۔ ہر سخت کوشش جو کسی بھی دینی غرض سے کی جائے، خاص کر دشمنان دین کے مقابلہ میں اصطلاح قرآنی میں جہاد کا درجہ رکھتی ہے۔ الجھاد والمجاھدۃ استفراغ الوسع فی مدافعۃ العدو (راغب) وھو المبالغۃ والا ستفراغ ما فی الوسع والطاقۃ من قول اوفعل (تاج) اور جہاد جس طرح میدان جنگ میں تیغ وتفنگ سے ہوسکتا ہے، اسی طرح جہاد مال و دولت سے اور قلم و زبان سے بھی ہوسکتا ہے۔ 132 ۔ فلاح کا لفظ دنیوی، اخروی، مادی وروحانی ہر طرح کی کامیابیوں اور کامرانیوں پر شامل ہے۔ لیس فی کلام العرب کلہ اجمع من لفظۃ الفلاح لخیری الدنیا والاخرۃ کما قالہ ائمۃ اللسان (تاج) اور سب سے بڑی کامیابی رضائے الہی کا حصول ہے۔ لعل پر حاشیے پہلے گزر چکے ہیں کہ جب اس کا استعمال حق تعالیٰ کی زبان سے ہوتا ہے، تو معنی میں مفہوم شک واحتمال کا باقی نہیں رہتا، بلکہ یقین پیدا ہوجاتا ہے۔
Top