Tafseer-e-Mazhari - An-Nahl : 66
وَ اِنَّ لَكُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةً١ؕ نُسْقِیْكُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْنِهٖ مِنْۢ بَیْنِ فَرْثٍ وَّ دَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَآئِغًا لِّلشّٰرِبِیْنَ
وَاِنَّ : اور بیشک لَكُمْ : تمہارے لیے فِي : میں الْاَنْعَامِ : چوپائے لَعِبْرَةً : البتہ عبرت نُسْقِيْكُمْ : ہم پلاتے ہیں تم کو مِّمَّا : اس سے جو فِيْ : میں بُطُوْنِهٖ : ان کے پیٹ (جمع) مِنْ : سے بَيْنِ : درمیان فَرْثٍ : گوبر وَّدَمٍ : اور خون لَّبَنًا : دودھ خَالِصًا : خالص سَآئِغًا : خوشگوار لِّلشّٰرِبِيْنَ : پینے والوں کے لیے
اور تمہارے لیے چارپایوں میں بھی (مقام) عبرت (وغور) ہے کہ ان کے پیٹوں میں جو گوبر اور لہو ہے اس سے ہم تم کو خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لیے خوشگوار ہے
وان لکم فی الانعام لعبرۃ اور (نیز) تمہارے لئے مویشیوں میں بھی غور درکار ہے۔ عبرت سے مراد ہے : ایسا غور جو جہالت سے نکال کر علم کی طرف لے جائے۔ نسقیکم مم فی بطونہ من بین فرث ودم لبنا خالصا سائغا للشربین (دیکھو) ان کے پیٹ میں جو گوبر اور خون (کا مادہ) ہے ‘ اس کے درمیان میں سے صاف اور گلے میں آسانی سے اترنے والا دودھ (بنا کر) ہم تم کو پینے کو دیتے ہیں۔ بُطُوْنِہٖ میں واحد مذکر کی ضمیر الْاَنْعَام کی طرف لوٹ رہی ہے۔ الْاَنْعَام اسم جمع ہے ‘ لفظ کے اعتبار سے مفرد ہے۔ سیبویہ نے اس لفظ کا شمار ان مفرد الفاظ میں کیا ہے جو بروزن افعال آتے ہیں ‘ جیسے اخلاق اور اکباش وغیرہ۔ فراء ‘ ابو عبیدہ اور اخفش کا بھی یہی قول ہے۔ نعم اور انعام دونوں مفرد کے صیغے ہیں ‘ مذکر و مؤنث دونوں طرح سے ان کا استعمال آیا ہے۔ جس نے مؤنث استعمال کیا ‘ اس نے ان کے جمعیتی معنی کا لحاظ کیا ہے اور جس نے مذکر قرار دیا ہے ‘ اس نے لفظ کا لحاظ کیا ہے۔ کسائی نے بُطُوْنِہٖ کی ضمیر کو مَا کی طرف راجع کیا ہے ‘ یعنی اس چیز کے پیٹ کے اندر سے جس کا ذکر اوپر کردیا گیا۔ مؤرخ نے کہا : سب انعام کے پیٹ سے تو دودھ نہیں نکلتا ‘ اسلئے بعض مراد ہیں اور بعض ہی کی طرف بطور کنایہ ضمیر کا رجوع ہے۔ بعض کے نزدیک جنس انعام مراد ہے اور جنس کی طرف ضمیر راجع ہے۔ فَرْث وہ گوبر جو اوجھ کے اندر ہو۔ جب باہر آجاتا ہے تو اس کو فَرْث نہیں کہا جاتا۔ خَالِصًا سے یہ مراد ہے کہ خون اور گوبر کے اثرات سے خالص ہوتا ہے۔ نہ اس میں خون کا رنگ ہوتا ہے نہ گوبر کی بو ‘ باوجودیکہ دودھ کی پیداوار انہی دونوں چیزوں سے ہوتی ہے۔ سَاءِغ حلق میں آسانی سے اتر جانے والا۔ بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا : جانور چارہ گھاس کھاتا ہے تو کھایا ہوا چارہ انتڑیوں میں جا کر ٹھہرتا ہے ‘ پھر وہاں اس کی پسائی ہوتی ہے ‘ پسنے کے بعد اس کا نچلا حصہ تو گوبر ہوجاتا ہے اور بالائی حصہ خون اور درمیانی حصہ دودھ (دونوں کے درمیان سے دودھ پیدا ہونے کا یہی مطلب ہے) اور یہ سب کام جگر کے زیر تسلط ہوتا ہے۔ جگر ‘ خون کو رگوں میں بہاتا ہے اور دودھ کو تھنوں میں اور گوبر کو وہیں باقی رکھتا ہے جہاں وہ ہے۔ بیضاوی نے لکھا ہے : شاید حضرت ابن عباس کے کلام کی مراد یہ ہے کہ درمیانی حصہ دودھ کا مادہ ہوجاتا ہے اور بالائی حصہ خون کا مادہ جو بدن کی غذا بنتا ہے اور جگر اس غذا کو جو انتڑیوں میں ہوتی ہے ‘ اس کا ہضم شدہ خلاصہ (کیلوس) اپنی طرف کھینچ لیتا اور فضلہ وہیں رہتا ہے جہاں ہوتا ہے (یعنی انتڑیوں میں) پھر کیلوس کو روک کر دوبارہ اس کو ہضم کرتا ہے (جس کے جوہر کو کیموس کہتے ہیں) پھر چار اخلاط تیار کرتا ہے جن کے اندر مائیت ہوتی ہے ‘ پھر جگر کی قوت ممیزہ (مائیت کو چھانٹ کر الگ کرنے والی قوت) قدر ضرورت سے زیادہ پانی کو اخلاط سے الگ کر کے گردوں اور پتے اور طحال کی طرف روانہ کردیتی ہے ‘ پھر باقی اخلاط کو تمام اعضاء کی طرف حسب ضرورت تقسیم کردیتی ہے ‘ اس طرح ہر عضو کو قادر ‘ حکیم ‘ علیم کے زیر انتظام اس کا حق مل جاتا ہے۔ پھر اگر حیوان مادہ ہے تو چونکہ اس کے مزاج میں برودت و رطوبت کا غلبہ ہوتا ہے ‘ اسلئے اس کے اخلاط غذائی ضرورت سے زائد ہوتے ہیں اور زائد حصہ جنین کی پرورش کیلئے رحم کی طرف چلا جاتا ہے اور بچہ پیدا ہوجاتا ہے تو ماں کے بدن کی غذائی ضرورت سے تمام زائد حصہ یا اس کا کچھ حصہ تھنوں کی طرف چلا جاتا ہے اور سفید شیریں گوشت کے قرب کی وجہ سے سفید ہو کر دودھ بن جاتا ہے۔ اخلاط اور دودھ کی پیدائش کیسے ہوتی ہے ‘ کن راستوں سے ‘ کس طرح ‘ کہاں جا کر یہ ٹھہرتے ہیں ‘ ان کو پیدا کرنے والے اسباب کیا کیا ہیں ‘ مناسب طور پر ہر وقت ان کی حالت کی تبدیلی کو نسی قوتوں کی ممنون ہے ‘ جو شخص ان امور پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرے گا ‘ اس کو صانع حکیم کی حکمت کاملہ اور قدرت تامہ کا اعتراف کرنا پڑے گا اور رحمت شاملہ کو ماننا پڑے گا۔
Top