Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 66
وَ اِنَّ لَكُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةً١ؕ نُسْقِیْكُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْنِهٖ مِنْۢ بَیْنِ فَرْثٍ وَّ دَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَآئِغًا لِّلشّٰرِبِیْنَ
وَاِنَّ : اور بیشک لَكُمْ : تمہارے لیے فِي : میں الْاَنْعَامِ : چوپائے لَعِبْرَةً : البتہ عبرت نُسْقِيْكُمْ : ہم پلاتے ہیں تم کو مِّمَّا : اس سے جو فِيْ : میں بُطُوْنِهٖ : ان کے پیٹ (جمع) مِنْ : سے بَيْنِ : درمیان فَرْثٍ : گوبر وَّدَمٍ : اور خون لَّبَنًا : دودھ خَالِصًا : خالص سَآئِغًا : خوشگوار لِّلشّٰرِبِيْنَ : پینے والوں کے لیے
اور بلاشبہ تمہارے لیے چوپایوں میں بڑی عبرت ہے ، ہم ان کے جسم سے خون اور کثافت کے درمیان دودھ پیدا کردیتے ہیں ، یہ پینے والوں کے لیے ایسی لذیذ چیز ہوتی ہے کہ بےغل و غش پی لیتے ہیں
ان جانوروں کے دودھ میں سمجھنے والوں کے لئے بڑی نشانی ہے : 76۔ زیر نظر آیت سے شروع کرکے آیت 69 تک ربوبیت الہی کی بخشائشوں کا خوب نقشہ کھینچا ہے اور ساتھ اس کی صنعت و حکمت کی کرشمہ سازیوں پر بھی توجہ دلائی ہے اور یہ بحیثیت مجموعی ربوبیت ‘ رحمت اور حکمت کا استدلال کیا ہے غور کرو کہ تمہاری غذا میں تین چیزیں سب سے زیادہ مفید اور لذیذ ہیں ، دودھ ‘ پھلوں کا عرق اور شہد ، تم میں سے کوئی نہیں جو ان تینوں نعمتوں سے آشنا نہ ہوا ہو ‘ یہ تمہاری روزانہ غذا کا جو ہر ‘ لذت طعام کا ذریعہ اور جسمانی شفا کا نسخہ ہے ، زیر نظر آیت میں دودھ کا ذکر فرمایا ۔ بلاشبہ ان گھریلو جانوروں کی ساخت و ترکیب اور ان کے اعضاء کے افعال میں جو صدہا عجائب ہیں ان کی تفصیلات بیالوجی اور زوالوجی کے ہر ماہر پر آج روشن ہیں لیکن ہمیں تو یہ غور کرنا ہے کہ یہ سب صناعیاں اور حکمتیں پتہ کس چیز کا دیتی ہیں ؟ ظاہر ہے کہ ایک صناع اعظم کا جو فی الواقع حکیم مطلق بھی ہے ، اور علام الغیوب بھی ، بس یہی ہے جس نے تمہاری گائے سے تمہارے لئے دودھ پیدا فرما دیا ‘ ہاں ہاں ! یہی دودھ جو طفولیت سے لے کر بڑھاپے تک تمہاری سب سے زیادہ دل پسند غذا ہوتی ہے ، خیال کرو کہ یہ کس طرح اور کہاں پیدا ہوتا ہے ؟ کیا تم نے کبھی غور کیا ؟ اگر غور کرتے تو تمہارے فہم و عبرت کے لئے صرف یہی ایک بات کافی تھی ، یہ اس جسم میں بنتا ہے جس جسم میں غلاظت یعنی گوبر بنتا ہے جو طرح طرح کی آلائشوں سے بھرا ہوا ہے جس میں اگر کوئی سیال شے موجود ہوتی ہے تو خون ہے جسے کبھی ہونٹوں سے لگانا کوئی بھی پسند نہ کرے گا ، پھر دیکھو جانوروں میں اس کے اترنے کا مخرج کہاں ہے ؟ وہی جس کے بالکل قریب بول وبراز کا مخرج ہے یعنی ایک ہی کارخانہ میں ‘ ایک ہی مادہ سے ‘ ایک ہی طرح کے ظروف میں ایک طرف تو غلاظت بنتی اور نکلتی رہتی ہے جسے تم دیکھنا بھی پسند نہ کرو گے ‘ دوسری طرف ایک ایسا جوہر غذا ولذت بھی بنتا ہے جسے تم دیکھتے ہی اٹھا لو اور بےغل وغش ایک ہی سانس میں سارا پی جاؤ ۔ وہ کون ہے جس نے یہ عجیب و غریب کارخانہ بنا دیا ؟ کون ہے جو ایسے عجیب طریقوں سے زندگی کے یہ بہترین وسائل بخش رہا ہے ‘ پھر کیا ممکن ہے کہ قدرت کی یہ کارفرمائی ‘ حکمت کی یہ صنعت طرازی ‘ ربوبیت کی یہ چارہ سازی بغیر کسی قدیر ‘ حکیم اور رب العالمین ہستی کے ظہور میں آگئی ہو ؟ یہ دودھ جو اس مادہ کے بطن سے پیدا ہو رہا ہے اور تم روزانہ اس کو اس مادہ ہی سے دوھ کر نکال رہے ہو شریعت اسلامی اس کو صرف اس مادہ کا نہیں بلکہ اس کے نر کا قرار دیتی ہے جس نے اس مادے سے جفتی کی جس سے اس مادہ نے بچہ جنا اور اللہ تعالیٰ نے اس بچہ کی ضرورت کے لئے اس دودھ کو پیدا کیا اور اتنی وافر مقدار میں پیدا کیا کہ اس مادہ کا بچہ پرورش پانے کے باوجود تمہاری غذا کے بھی یہ دودھ کام آیا اور اسی سے ” لبن الفحل “ ایک شرعی مسئلہ قرار پا گیا ۔ کسی بچہ کو دودھ پینے کی مدت کے اندر کسی عورت نے دودھ پلا دیا حالانکہ اس عورت نے اس بچہ کو جنم نہیں دیا لیکن شریعت میں وہ فقط دودھ پلانے کے باعث اس بچہ کی ماں ٹھہری اور اس عورت کا خاوند اس بچہ کا باپ قرار پاگای ۔ حالانکہ اس بچے نے جو دودھ پیا تو وہ فقط اس عورت کا پیا جو اس کی ماں ٹھہری لیکن اسلام نے اس عورت کے خاوند کو بھی اس بچہ کا باپ قرار دیا کیوں ؟ اس لئے کہ دراصل وہ دودھ جو اس بچہ نے پیا وہ اس مرد کا تھا جو اس عورت کا خاوند تھا ۔ اگر اس عورت کا کوئی خاوند نہ ہوتا جائز یا ناجائز تو یقینا یہ دودھ پیدا ہی نہ ہوتا ۔ وہ بچہ جو اس نے جنا جس طرح وہ فقط اس مادہ کا تھا بلکہ اس مادہ کے ساتھ جفتی کرنے والے نر اور اس مادہ دونوں کا تھا یہ جفتی خواہ مصنوعی طریقے سے کرائی گئی یا غیر مصنوعی اور فطری طریقہ سے بہرحال اس بچہ کے اجزاء نر اور مادہ دونوں سے قدرت الہی نے بنائے اور اس طرح اس بچہ کی غذا بھی دونوں ہی کے توسط سے معرض وجود میں آئی ۔ نبی کریم ﷺ نے مرد اور عورت دونوں کا ذکر کرکے یہ بات تفہیم کرائی جو ہر طرح کے نر اور مادہ پر صادق آتی ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : للرجل العظام والعروق والعصب وللمراۃ اللحم والدم والشعر “۔ (بخاری ومسلم بحوالہ مشکوۃ ص 48) باپ کی طرف سے ہڈیاں ‘ عروق اور اعصاب ہوتے ہیں اور ماں کی طرف سے گوشت ‘ خون اور بال ہوتے ہیں اور پھر اس کی تشریح میں کثرت سے احادیث موجود ہیں ۔ مسلم سائنس دان ان احادیث اور قرآن کریم کی آیات میں غور کرتے تو ان کے لئے بہت راہنمائی موجود تھی لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں غور وخوض کا نام تو موجود ہے لیکن اس سے کام لینا حرام سمجھا جاتا ہے اور خصوصا علمائے اسلام نے عقل وفکر پر جو پابندی عائد کی ہے اس نے پوری قوم کے ذہنوں کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے ۔
Top