Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 172
اَلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِلّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَصَابَهُمُ الْقَرْحُ١ۛؕ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا مِنْهُمْ وَ اتَّقَوْا اَجْرٌ عَظِیْمٌۚ
اَلَّذِيْنَ : جن لوگوں نے اسْتَجَابُوْا : قبول کیا لِلّٰهِ : اللہ کا وَالرَّسُوْلِ : اور رسول مِنْۢ بَعْدِ : بعد مَآ : کہ اَصَابَھُمُ : پہنچا انہیں الْقَرْحُ : زخم لِلَّذِيْنَ : ان کے لیے جو اَحْسَنُوْا : انہوں نے نیکی کی مِنْھُمْ : ان میں سے وَاتَّقَوْا : اور پرہیزگاری کی اَجْرٌ : اجر عَظِيْمٌ : بڑا
جنہوں نے باوجود زخم کھانے کے خدا اور رسول (کے حکم) کو قبول کیا جو لوگ ان میں نیکوکار اور پرہیزگار ہیں ان کے لئے بڑا ثواب ہے
الذین استجابو اللہ والرسول الذینمفعول ہے اَمْدَحُ فعل محذوف ہے یا مبتدا ہے اور آئندہ جملہ خبر ہے یا المؤ منین کی صفت ہے یعنی جن لوگوں نے اللہ اور رسول کی دعوت جہاد کو قبول کیا یا ایسے مؤمن جنہوں نے اللہ اور رسول کی دعوت جہاد کو لبیک کہا۔ من بعد ما اصابھم القرح جنگ احد میں زخموں کی تکلیف پہنچنے کے بعد۔ للذین احسنوا منھم واتقوا اجر عظیم ان میں سے جس نے نیک اعمال کیے اور تقویٰ اختیار کیا اس کے لیے بڑا اجر ہے۔ احسان اور تقویٰ کا ذکر بطور قید (یعنی بطور وصف تقیدی) نہیں ہے کیونکہ دعوت جہاد کو قبول کرنے والے سب ہی نیکو کار اور متقی تھے بلکہ ان دونوں کا ذکر بطور مدح ہے اور اجر عظیم ملنے کی علت کو ظاہر کرنے کے لیے ہے۔ (1) [ شیخ عبد القاہر جرجانی نے ذکر کیا ہے کہ علامۂ تفتازائی نے اس کو نقل بھی کیا ہے کہ اگر کسی کلام میں کسی صفت پر کوئی حکم مرتب کیا جائے تو وہ صفت اس حکم کی علت ہوتی ہے۔ اس آیت میں اجرعظیم کا حکم صفت احسان وتقویٰ پر مرتب کیا گیا ہے اس لیے یہ دونوں وصف اجرم عظیم کے استحقاق کی علت ہیں۔ (مترجم)] مجاہد اور عکرمہ نے اکثر اہل تفسیر کے خلاف صراحت کی ہے کہ اس آیت کا نزول غزوہ بدر صغرٰی کے متعلق ہوا جس کی تفصیل یہ ہے کہ احد سے واپسی کے وقت ابو سفیان نے کہا محمد اگر تم کو منظور ہو تو آئندہ سال بدر صغریٰ پر ہمارا تمہارا مقابلہ ہوگا۔ رسول اللہ نے فرمایا : انشاء اللہ ہمارے تمہارے درمیان یہی ہوگا 2 ؂۔ اگلے سال ابو سفیان مکہ سے قریش کو لے کر چلا کل تعداد دو ہزار تھی جن میں پچاس سوار تھے مکہ سے نکل کر مرا الظہران کے اطراف میں بمقام مجنہ اس نے پڑاؤ کیا یہاں پہنچ کر اللہ نے اس کے دل میں مسلمانوں کا رعب ڈال دیا اور واپس ہوجانے کا خیال پیدا ہوگیا نعیم بن مسعود اشجعی عمرہ کرنے کے لیے آیا ہوا تھا (مجنہ میں) ابو سفیان سے اسکی ملاقات ہوئی ابو سفیان نے اس سے کہا نعیم میں نے محمد اور اس کے ساتھیوں کو چیلنج تو کردیا تھا کہ آئندہ ہمارا تمہارا مقابلہ بدر صغریٰ کے میلہ میں ہوگا مگر یہ خشکی کا سال ہے اور ہمارے لیے جنگ اسی سال مناسب ہے جب ہم جانوروں کو سبزہ چرائیں اور خود دودھ پئیں اب میری رائے یہ ہوگئی کہ بدر صغریٰ کو نہ جاؤں لیکن یہ امر بھی مناسب نہیں کہ میں وہاں نہ جاؤں اور محمد ﷺ پہنچ جائیں اس سے مسلمانوں کی جرأت بڑھ جائے گی۔ میری طرف سے چیلنج کی خلاف ورزی سے یہ بہتر ہے کہ محمد ﷺ کی طرف سے خلاف وزری ہو لہٰذا تم مدینہ پہنچ کر مسلمانوں کو روک دو اور ان سے جا کر یہ کہو کہ ابو سفیان کے پاس بہت فوج ہے تم میں اس کے مقابلہ کی طاقت نہیں ہے اگر تم اس خدمت کو انجام دیدو گے تو میں تم کو دس اونٹ دوں گا جو سہیل بن عمرو کے پاس بطور ضمانت جمع کرا دوں گا۔ چناچہ سہیل اونٹوں کا ضامن ہوگیا اور نعیم مدینہ پہنچ گیا۔ وہاں لوگ ابو سفیان کے چیلنج کی تیاری کر رہے تھے نعیم نے پوچھا تم لوگوں کا کہاں کا ارادہ ہے ؟ لوگوں نے جواب دیا بدر صغریٰ کے میلہ کے موقع پر ہم نے ابو سفیان سے لڑنے کا معاہدہ کیا ہے نعیم نے کہا تمہاری رائے بری ہے وہ تمہارے گھروں میں اور تمہارے مستقر پر آئے تھے تو تم میں سے سوائے بھگوڑے کے اور کوئی بچ نہ سکا اب خود نکل کر (چڑھائی کرکے) جانا چاہتے ہو وہ بھی تمہارے مقابلہ کیلئے بدر صغریٰ کے موقع پر جمع ہوگئے خدا کی قسم (اگر تم وہاں گئے تو) تم میں سے کوئی نہیں بچے گا۔ بعض صحابہ کو یہ تقریر سن کر مدینہ سے نکلنا مناسب نہیں معلوم ہوا اور منافقوں اور یہودیوں کو بڑی خوشی ہوئی اور کہنے لگے محمد ﷺ اس گروہ سے نہیں بچ سکیں گے یہ اطلاع رسول اللہ کو بھی پہنچ گئی اور آپ کو اندیشہ ہوا کہ (شاید) کوئی نہ جائے۔ حضرت ابوبکر ؓ و حضرت عمر ؓ بھی یہ بات سن چکے تھے دونوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ بلاشبہ اللہ اپنے دین کو پھیلانے والا اور اپنے نبی کو غالب کرنے والا ہے ہم ان لوگوں سے معاہدہ کرچکے ہیں اب اس سے ہٹنا نہیں چاہتے آپ ﷺ وقت مقرر پر چلئے بخدا یہی بہتر ہے۔ رسول اللہ کو اس تقریر سے خوشی ہوئی اور فرمایا : قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں ضرور جاؤں گا خواہ کوئی میرے ساتھ نہ جائے۔ چنانچہ آپ صحابہ کو لے کر نکل کھڑے ہوئے اور بدر صغریٰ پر پہنچ گئے وہاں مشرکوں سے قریش کے احوال دریافت کئے مشرک مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے کے لیے کہتے تھے کہ قریش نے تمہارے مقابلہ کے لیے (بہت آدمی) جمع کئے ہیں مسلمان اس کے جواب میں کہتے تھے : حسبنا اللہ و نعم الوکیل جاہلیت کے زمانہ میں بدر کے مقام پر میلہ لگتا تھا لوگ جمع ہوتے تھے یکم ذیقعد سے آٹھ ذیقعد تک رہتا تھا آٹھویں تاریخ گذرنے کے بعد میلہ اکھڑتا تھا اور لوگ اپنے اپنے شہروں کو چلے جاتے تھے رسول اللہ ﷺ ٹھہر کر ابو سفیان کا انتظار کرنے لگے ابو سفیان مجنہ سے ہی لوٹ کر مکہ کو چلا گیا اور رسول اللہ نیز صحابہ سے کسی مشرک کا مقابلہ نہیں ہوا مسلمان بازار میں ٹھہرے رہے ان کے پاس کچھ تجارتی مال اور سودے بھی تھے جن کو بیچ کر انہوں نے ایک کے دو کئے اور مدینہ کو صحیح سالم نفع کما کر لوٹے اس وقت آیت : الذّین استجابوا اللہ۔۔ نازل فرمائی۔ صحیح اوّل قول ہے معمول بخاری بھی اسی کا مقتضی ہے اور ابن جریر نے بھی اسی کی تائید کی ہے میں کہتا ہوں آیت کی رفتار بھی اسی کی مؤید ہے کیونکہ آیت میں من بعد مَا اصابھم القرح آیا ہے اور مسلمانوں کی تعریف اس بنا پر کی ہے کہ زخمی ہونے اور زخموں کا دکھ پانے کے ساتھ ساتھ وہ جہاد کو نکلے اور اللہ و رسول کی دعوت کو قبول کیا اور ظاہر ہے کہ ایسا (اُحد کے بعد ہی) حمراء الاسد کے غزوہ میں ہوا۔ بدر صغریٰ کا غزوہ تو ایک سال بعد کو ہوا تھا جبکہ لوگ تندرست اور صحیح سالم ہوچکے تھے اگر یہ کہا جائے کہ غزوہ بدر صغریٰ بھی احد کے بعد ہوا تھا خواہ ایک سال بعد کو ہوا مگر ہوا بعد ہی کو اس لیے آیت کا مطلب صحیح ہے یعنی متصل بعدیت کی ضرورت نہیں تو میں کہتا ہوں پھر بدر صغریٰ کا غزوہ مراد لینے ہی کی کیا وجہ ہے اور کیوں غزوۂ خندق اور بعد کو آنے والے تمام غزوات پر آیت کو محمول نہ کیا جائے یہ بھی تو احد کے بعد ہی ہوئے تھے۔ وا اللہ اعلم
Top