Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - Al-Maaida : 33
اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْۤا اَوْ یُصَلَّبُوْۤا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ١ؕ ذٰلِكَ لَهُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌۙ
اِنَّمَا
: یہی
جَزٰٓؤُا
: سزا
الَّذِيْنَ
: جو لوگ
يُحَارِبُوْنَ
: جنگ کرتے ہیں
اللّٰهَ
: اللہ
وَرَسُوْلَهٗ
: اور اس کا رسول
وَ
: اور
يَسْعَوْنَ
: سعی کرتے ہیں
فِي الْاَرْضِ
: زمین (ملک) میں
فَسَادًا
: فساد کرنے
اَنْ يُّقَتَّلُوْٓا
: کہ وہ قتل کیے جائیں
اَوْ
: یا
يُصَلَّبُوْٓا
: وہ سولی دئیے جائیں
اَوْ
: یا
تُقَطَّعَ
: کاٹے جائیں
اَيْدِيْهِمْ
: ان کے ہاتھ
وَاَرْجُلُهُمْ
: اور ان کے پاؤں
مِّنْ
: سے
خِلَافٍ
: ایکدوسرے کے مخالف سے
اَوْ يُنْفَوْا
: یا، ملک بدر کردئیے جائیں
مِنَ الْاَرْضِ
: ملک سے
ذٰلِكَ
: یہ
لَهُمْ
: ان کے لیے
خِزْيٌ
: رسوائی
فِي الدُّنْيَا
: دنیا میں
وَلَهُمْ
: اور ان کے لیے
فِي الْاٰخِرَةِ
: آخرت میں
عَذَابٌ
: عذاب
عَظِيْمٌ
: بڑا
جو لوگ خدا اور اس کے رسول سے لڑائی کریں اور ملک میں فساد کرنے کو دوڑتے پھریں ان کی یہی سزا ہے کہ قتل کر دیئے جائیں یا سولی چڑھا دیئے جائیں یا ان کے ایک ایک طرف کے ہاتھ اور ایک ایک طرف کے پاؤں کاٹ دیئے جائیں یا ملک سے نکال دیئے جائیں یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے بڑا (بھاری) عذاب تیار ہے
انما جزآؤ الذین یحاربون اللہ ورسولہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں۔ ویسعون فی الارض فسادا اور زمین پر بگاڑ پیدا کرنے کے لئے دوڑے پھرتے ہیں ان کی سزا یہی ہے۔ اللہ سے لڑنے کا معنی ہے اللہ کے بندوں سے جنگ کرنا۔ اللہ کا رسول ﷺ راہ زندگی کا محافظ ہے اور اس کے جانشین خلیفہ ہوں یا بادشاہ رسول کے نائب ہیں (ان سب سے جنگ اللہ سے جنگ ہے) یا اللہ اور اللہ کے رسول سے جنگ کرنے سے مراد ہے دونوں کے احکام کی مخالفت اور اللہ کی قائم کی ہوئی حرمت مالی و جانی میں رخنہ اندازی۔ بیضاوی نے لکھا ہے حرب کا اصلی معنی ہے چھیننا۔ قاموس میں ہے کہ حرب کا معنی معروف ہے (یعنی جنگ) اور مال چھیننے کو بھی کہتے ہیں۔ بیضاوی کے کلام سے ثابت ہو رہا ہے کہ لفظ حرب منقول ہے اور قاموس کی صراحت بتارہی ہے کہ یہ لفظ مشترک ہے۔ فسادًاحال ہے بمعنی مفسدین۔ یا مفعولہ لہٗ یا مفعولہ مطلق ہے۔ اس آیت کے نزول کا سبب مختلف طور پر بیان کیا گیا ہے۔ (1) [ خرابطی نے مکارم الاخلاق میں لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا۔ قبیلۂ عرینہ کے کچھ لوگ رسول اللہ : ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مسلمان ہوگئے (لیکن مدینہ کی آب و ہوا ان کو موافق نہ آئی) ہاتھ پاؤں سوکھ گئے چہرے زرد پڑگئے اور پیٹ بڑے ہوگئے۔ حضور ﷺ نے ان کو صدقہ کے اونٹوں کے ساتھ (پڑاؤ پر جنگل میں) رہنے کا حکم دیا تاکہ اونٹوں کا پیشاب اور دودھ پیا کریں (وہ چلے گئے) اور دودھ وغیرہ پی کر تندرست اور موٹے ہوگئے پھر رسول اللہ ﷺ کے چرواہے کو قتل کر کے اونٹوں کو ہنکا کرلے گئے اور مرتد ہوگئے۔ حضرت جبرئیل ( علیہ السلام) نے آکر اطلاع دی اور مشورہ دیا کہ کسی کو ان کے تعاقب میں روانہ کیجئے حضور ﷺ نے ان کے پیچھے لوگوں کو روانہ کردیا۔ جبرئیل ( علیہ السلام) نے یہ بھی کہا آپ ان الفاظ سے دعا بھی کیجئے۔ اے اللہ بلاشبہ آسمان تیرا آسمان ہے۔ زمین تیری زمین ہے۔ مشرق تیرا اور مغرب تیرا ہے اے اللہ ان پر زمین کو باوجود فراخ ہونے کے تنگ کر دے یہاں تک کہ تو ان کو میرے قابو میں دے دے آخر لوگ ان کو گرفتار کر کے لے آئے۔ اس پر آیت : انما جزاء الذین یحاربون اللّٰہ ورسولہ۔۔ اللہ نے نازل فرمائی۔ جبرئیل نے حکم دیا کہ جس نے مال چھینا اور قتل کیا ہو اس کو صلیب دی جائے اور جس نے صرف قتل کیا ہو اس کو صرف قتل کیا جائے اور جس نے صرف مال لیا ہو قتل نہ کیا ہو اس کا ہاتھ اور پاؤں کاٹا جائے مگر دونوں ایک طرف کے نہیں بلکہ ایک دایاں اور دوسرا بایاں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا اگر کوئی غلام بھاگ جائے یا کوئی جانور یا آدمی گم ہوجائے تو یہ دعا پڑھی جائے اور کسی چیز پر لکھ کر کسی صاف پاک مقام میں دفن کی جائے اللہ ضرور فرار یا گم شدہ پر قابو عنایت فرما دے گا۔] ابن جریر نے یزید بن ابی حبیب کی روایت سے لکھا ہے کہ عبدالملک بن مروان نے حضرت انس ؓ کی خدمت میں عریضہ بھیجا اور اس آیت کے متعلق آپ سے دریافت کیا۔ حضرت انس ؓ نے جواب میں لکھا کہ اس آیت کا نزول عرینہ والوں کے متعلق ہوا تھا جنہوں نے مرتد ہو کر رسول اللہ ﷺ کے چرواہے کو قتل کردیا تھا اور اونٹوں کو ہنکا کرلے گئے تھے۔ الحدیث۔ ابن جریر نے حضرت جریر کی روایت سے اور عبدالرزاق وغیرہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بھی اسی طرح بیان کیا ہے اور بغوی نے سعید بن جبیر کا قول بھی یہی نقل کیا ہے۔ بخاری وغیرہ نے حضرت انس ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ قبیلۂ عکل کے کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مسلمان ہوگئے لیکن مدینہ کی آب و ہوا ان کو موافق نہ آئی اس لئے رسول اللہ ﷺ نے ان کو حکم دیا کہ صدقہ کے اونٹوں کے (پڑاؤ کے) پاس جا کر رہیں اور اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پئیں۔ انہوں نے حکم کی تعمیل کی۔ جب تندرست ہوگئے تو مرتد ہو کر چرواہوں کو قتل کر کے اونٹوں کو ہنکا کرلے گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے تعاقب میں آدمی بھیجے۔ جب گرفتار کر کے ان کو لے آئے تو آپ ﷺ نے ان کے ہاتھ پاؤں کٹوا دیئے اور آنکھوں میں سلائیاں پھروا کر حرہ میں پھنکوا دیں وہ انتہائی تشنگی میں پانی مانگتے تھے مگر ان کو پانی نہیں دیا جاتا تھا آخر اسی حالت میں مرگئے۔ ابو قلابہ نے کہا قتل بھی کیا تھا مال بھی چرایا تھا اللہ اور رسول سے جنگ بھی کی تھی اور زمین پر تباہی مچانے کے لئے کوشش بھی کی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ عرینہ والوں کو جو سزا دی اس کے متعلق علماء کا اختلاف ہے بعض کے نزدیک اس آیت کی وجہ سے وہ سزا منسوخ ہوگئی کیونکہ ناک کان اور پیشاب گاہ کو کاٹنا جائز نہیں۔ بعض نے کہا آنکھوں میں سلائی پھیر کر اندھا کرنا اور ناک کان کاٹنا تو اب جائز نہیں مگر باقی سزا بدستور قائم ہے۔ مگر یہ بات اسی وقت ممکن ہے جب حاکم کو چاروں مذکورہ احکام آیت میں تمییزی اختیار دے دیا جائے۔ قتادہ ؓ نے ابن سیرین کے حوالہ سے لکھا ہے کہ یہ سزا اس وقت تھی جب حدود (شرعیہ) کا نزول نہیں ہوا تھا۔ ابو الزناد نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے اس عمل کے بعد اللہ نے حدود نازل فرما دیں اور مثلہ کرنے سے رسول اللہ ﷺ : کو منع فرما دیا۔ پھر حضور ﷺ نے کسی کو مثلہ نہیں کیا۔ قتادہ کا بیان ہے ہم کو اطلاع ملی ہے کہ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ صدقہ کی ترغیب دیتے تھے اور مثلہ کرنے سے منع فرماتے تھے۔ سلیمان تیمی نے حضرت انس کا قول نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کی آنکھوں میں اس لئے سلائی پھروائی کہ انہوں نے بھی چرواہوں کی آنکھیں پھوڑی تھیں۔ لیث بن سعد نے کہا اس آیت کے نزول کا رخ رسول اللہ ﷺ : کی طرف بطور عتاب ہے اور ان لوگوں کو سزادینے کی تعلیم دینے کے لئے ہے اسی لئے فرمایا کہ ان کی سزا تو صرف یہ ہے کہ مثلہ کرنا (جائز) نہیں۔ ضحاک نے کہا اس آیت کا نزول اہل کتاب میں سے ایک قوم کے متعلق ہوا جن کا رسول اللہ ﷺ سے معاہدہ تھا مگر انہوں نے معاہدہ توڑ دیا راستے لوٹے اور زمین پر فساد پھیلایا۔ کلبی نے لکھا ہے کہ اس آیت کا نزول ہلال بن عویمر کے قبیلہ کے حق میں ہوا رسول اللہ ﷺ نے ہلال بن عویمر یعنی ابو برزہ اسلمی سے معاہدہ کیا تھا کہ ابو برزہ کی قوم نہ رسول اللہ ﷺ : کو مدد دے گی نہ رسول اللہ ﷺ کے خلاف کسی دشمن کو اور قبیلۂ ہلال بن عویمر کا کوئی آددمی اگر رسول اللہ ﷺ کی طرف سے گزرے گا تو وہ مامون رہے گا (اس سے کچھ تعرض نہیں کیا جائے گا اور) اس کو چھیڑا نہ جائے گا۔ ایک بار قبیلۂ کنانہ کے کچھ لوگ اسلام لانے کے ارادہ سے چلے اور قبیلۂ اسلام کے کچھ لوگوں کی طرف سے ان کا گزر ہوا قبیلۂ اسلم ہلال بن عویمر کا قبیلہ تھا۔ ہلال اس وقت موجود نہ تھا۔ بنی اسلم نے بنی کنانہ والوں پر چڑھائی کردی اور مال چھین کر ان کو قتل کردیا۔ یہ خبر لے کر جبرئیل ( علیہ السلام) آئے اور ان آیات کا نزول ہوا۔ فائدہ : باتفاق علماء اس آیت میں محاربین مفسدین سے مراد راہزن ڈاکو ہیں خواہ مسلمان ہوں یا ذمی ہوں اس مسئلہ پر بھی اتفاق ہے کہ جو شخص شہر سے باہر نکل کر ڈرانے کے لئے ہتھیار نکالے اور مقام ایسا ہوا کہ وہاں (حکومت یا راہگیروں کی طرف سے) مدد نہ پہنچ سکتی ہو وہ محارب اور راہزن ہے۔ اس پر اس آیت کے احکام جاری کئے جائیں گے۔ شہر کے اندر یا دو بستیوں کے درمیان مثلاً حیرہ اور کوفہ کے درمیان اگر کوئی شخص رات کو یا دن میں راستہ لوٹے تو اس کے حکم میں علماء کے اقوال مختلف ہیں۔ امام مالک ‘ امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک وہ رہزن محارب ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا لٹیرا ہونے کا حکم اسی وقت ہوگا جب شہر کے اندر اتنی دور وہ رہزنی کرے کہ مددگار کا پہنچنا ممکن نہ ہو۔ کذا ذکر صاحب رحمۃ الامۃ۔ بغوی نے لکھا ہے شہروں کے اندر زبردستی رہزنی کرنے والے اس آیت کے حکم میں داخل ہیں یہی قول مالک اوزاعی ‘ لیث بن سعد اور شافعی (رح) کا ہے۔ ابن ہمام نے لکھا ہے کہ امام شافعی (رح) کا یہی مذہب ہے کیونکہ ان کے وجیز (المسائل) میں صراحت ہے کہ جو شخص زبردستی شہر کے اندر مال چھینے گا وہ رہزن ہے۔ ظاہر روایت (یعنی امام محمد کی چھ کتابوں میں سے کسی ایک کتاب) میں امام اعظم کے نزدیک یہ شرط ہے کہ شہر اور رہزنی کے مقام کے درمیان بقدر سفر مسافت ہو۔ امام ابو یوسف کا قول ہے کہ شہر سے باہر دور جگہ پر اگر رہزنی ہو تو حد واجب ہے۔ کیونکہ مدد پہنچ نہ سکے گی اس لئے ایسے شخص کو لٹیرا کہا جائے گا بلکہ بیابانِ و صحرا میں لوٹنے سے ایسے مقام میں لوٹنا زیادہ سخت ہے اور نص (قرآن و حدیث) میں رہزنی کے مقام کی کوئی تعیین نہیں آئی (کہ ایک میل پر ہو یا 48 میل پر) امام مالک کے دو قول روایت میں آئے ہیں ایک میں آبادی سے تین میل دور ہونے کی صراحت ہے اور دوسرے قول میں آیا ہے کہ اگر اس طور پر مال چھینا کہ لوٹے جانے والے کے لئے مدد طلب کرنا ممکن نہ ہو تو ایسا شخص محارب ہوگا۔ امام احمد نے اس مسئلہ میں توقف اختیار کیا ہے لیکن اکثر حنابلہ کی رائے ہے کہ مقام رہزنی ایسا ہونا ضروری ہے جہاں مدد نہ پہنچنے۔ امام ابو یوسف کا ایک اور قول روایت میں آیا ہے کہ شہر کے اندر دن کے وقت اگر ہتھیار لے کر لوٹنے کا ارادہ کرے گا تو راہزن قرار دیا جائے گا اور اگر لکڑی (پتھر) وغیرہ سے لوٹنے کا ارادہ کرے گا تو وہ راہزن نہ ہوگا ہاں رات میں اگر پتھر لکڑی وغیرہ لے کر بھی لوٹے گا۔ تو لٹیرا ہی ہوگا۔ کیونکہ دن میں مدد پہنچنے کا امکان ہوتا ہے مگر ہتھیار مدد پہنچنے سے پہلے ہی اپنا کام کر چکتے ہیں لہٰذا دن میں ہتھیاروں کے ساتھ لوٹے گا تو اس کو لٹیرا کہا جائے گا ورنہ نہیں اور رات میں مدد پہنچنے میں دیر لگتی ہے یا مدد پہنچ نہیں سکتی ایسے وقت میں بغیر ہتھیاوں کے بھی رہزنی ہوسکتی ہے۔ شرح طحاوی میں ہے کہ فتویٰ امام ابو یوسف کے اس قول پر ہے۔ صاحب ہدایہ نے لکھا ہے کہ امام شافعی کا مسلک تقاضائے قیاس کے موافق ہے کیونکہ زبردستی کی صورت میں حقیقتاً رہزنی کا تحقق ہوجاتا ہے (خواہ شہر کے اندر ہی ہو) مگر امام ابوحنیفہ (رح) کا قول استحسان پر مبنی ہے استحسان کی وجہ یہ ہے کہ رہزنی کا وجود اس وقت ہوگا جب امداد پہنچنے کی جڑ کٹ جائے اور شہر کے اندر اور شہر کے قریب امداد کی جڑ کٹنے کی کوئی صورت نہیں۔ مدد پہنچنے کا کھلا ہوا احتمال ہے۔ ابن ہمام نے لکھا ہے کہ آیت میں جو سزا بیان کی گئی ہے وہ رہزنی کے (اصطلاحی) مفہوم سے وابستہ نہیں ہے۔ رہزنی کا لفظ تو لوگوں کا ساختہ پرداختہ ہے بلکہ اس سزا کا تعلق اللہ کے بندوں سے جنگ کرنے کے ساتھ ہے اور ایسا شہر کے باہر ہی ہوتا ہے۔ پھر شہر اور مقام رہزنی کے درمیان تین روز کی مسافت کا ہونا ضروری نہیں اس تعیین کی کوئی وجہ نہیں۔ حدیث عرینہ اس تعیین مسافت سے انکار کر رہی ہے (کیونکہ اونٹوں کے رہنے کا مقام جہاں عرینہ نے ڈاکہ مارا تھا مدینہ سے تین دن کی مسافت پر نہیں تھا اس سے کہیں قریب تھا) مسئلہ : ڈاکو ایک شخص ہو یا گروہ بہر طور ایسا طاقتور ہونا چاہئے کہ مقابلہ کر رہا ہو اور کرسکتا ہو اس نے وہ اچکے جو قافلہ کے پچھلے حصہ پر حملہ کر کے مال لے کر راہ فرار اختیار کرلیتے ہیں اور وہ لوگ جو چند آدمیوں پر اپنی قوت (جسمانی) کی وجہ سے غالب آجاتے ہیں قافلہ کے ڈاکو نہیں قرار پائیں گے۔ ہاں جن کو لوٹا ہوگا ان کے لحاظ سے ہم ان کو راہزن اور ڈاکو کہہ سکتے ہیں۔ ڈاکو کے اندر مقابلہ کی طاقت ہونا ضروری ہے یہ شرط خود آیت سے مستفاد ہے کیونکہ محاربت اور ملک میں فساد بغیر مقابلہ کی طاقت ہونے کے ممکن نہیں۔ ان یقتلوا او یصلبوا او تقطع ایدیہم وارجلہم من خلاف او ینفوا من الارض : کہ ان کو قتل کردیا جائے یا صلیب پر لٹکا دیا جائے یا ان کے ہاتھ پاؤں مخالف جہتوں سے کاٹ دیئے جائیں یا ان کو اس زمین سے نکال دیا جائے۔ باجماع امت مخالف جہت سے مراد ہے دایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں کاٹنا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ آیت میں بیان کی ہوئی چاروں سزاؤں میں سے کسی ایک سزا کا دینا امام کے تمییزی اختیار میں ہے ظاہر آیت سے یہی معلوم ہوتا ہے لفظ اوکلمۂ تخییر ہے (یعنی لفظ او فرما کر اللہ نے حاکم کو اختیار دیا ہے کہ چاروں سزاؤں میں سے جو سزا اس کے نزدیک مناسب ہو وہ دے) اس صورت میں کسی زائد قید کو محذوف قرار دینے کی ضرورت بھی نہ ہوگی۔ یہ قول سعید بن مسیب ‘ عطا ‘ داؤد ‘ حسن بصری ‘ ضحاک ‘ نخعی ‘ مجاہد اور ابو ثور کا ہے۔ امام مالک نے فرمایا امام اپنی رائے اور اجتہاد سے کام لے کر سزا دے۔ جو محارب طاقتور اور (سیاسی) سوجھ بوجھ والا ہو اس کو قتل کر دے۔ اگر سیاست کا تقاضا اس سے زائد ہو تو صلیب پر چڑھا دے اور جو محارب طاقتور نہ ہو اس کے پاس (فتنہ انگیزی والی) عقل بھی نہ ہو اس کو زمین سے نکال دے اور جو طاقتور تو ہو مگر (فتنہ انگیز) فکر نہ رکھتا ہو اس کے ہاتھ پاؤں کٹوا دے۔ امام مالک کے نزدیک جلا وطن کرنے سے مراد یہ ہے کہ جس میں محارب رہتا ہو اس سے نکال کر دوسری جگہ بھیج دیا جائے اور وہاں قید کردیا جائے (آزاد نہ چھوڑا جائے) محمد بن جبیر کا یہی قول ہے۔ امام مالک کے نزدیک یہ بھی شرط ہے کہ چھینا ہوا (کل) مال بقدر نصاب ہو تو تقسیم کے بعد ہر ڈاکو کے حصہ میں بقدر نصاب مال آنا ضروری نہیں۔ امام اعظم ‘ امام شافعی ‘ امام احمد اور امام اوزاعی کے نزدیک آیت میں لفظ او ڈاکو کے مختلف احوال کو ظاہر کر رہا ہے (تقسیم حال کے مطابق تقسیم سزا کی گئی ہے) اگر ڈاکوؤں نے رہزنی کا ارادہ کیا ہو اور ڈرایا دھمکایا ہو مال نہ لیا ہو نہ قتل کیا ہو تو ان کو جلا وطن کیا جائے جلا وطن کرنے سے مراد یہ ہے کہ ان کو قید کردیا جائے اور اس وقت تک بند رکھا جائے جب تک توبہ نہ کریں۔ کیونکہ اس صورت میں ان کا شر ملک سے دفع ہوجائے گا۔ گویا ان کو زمین سے نکال باہر کردیا جائے گا (یعنی ان کا وجود زمین کے اوپر نہ رہے گا ‘ زیر زمین پہنچ جائیں گے) ۔ مکحول کی روایت ہے کہ قید خانہ میں سب سے پہلے حضرت عمر ؓ نے (ڈاکوؤں کو) بند کیا اور فرمایا میں اس وقت تک ان کو بند رکھوں گا جب تک توبہ نہ کرلیں۔ یہاں سے نکال کر دوسرے شہر میں نہیں بھیجوں گا کہ وہاں لوگوں کو دکھ پہنچائیں۔ محمد بن جبیر نے کہا بستی سے نکال کر کسی دوسری بستی میں قید خانہ میں بند کردیا جائے۔ اس قول پر حقیقی اور مجازی معنی کا بیک وقت مراد ہونا لازم آتا ہے۔ اکثر علماء کا قول ہے کہ حاکم وقت اعلان کر دے کہ جس بستی میں ملے وہاں سے نکال باہر کردیا جائے اس طرح کسی جگہ قرار نہ پکڑنے دیا جائے۔ اگر ڈرایا بھی ہو اور کسی مسلمان یا ذمی کا مال بھی چھینا ہو مگر قتل نہ کیا ہو اور مال اتنا ہو کہ تقسیم کے بعد ہر ڈاکو کے حصہ میں چوری کے نصاب کے برابر آجائے (بر رای امام اعظم دس درہم اور برقول شافعی و احماد چہارم دینار یا تین درہم نصاب سرقہ ہے) تو اس صورت میں ڈاکوؤں کے ہاتھ پاؤں مختلف جہات سے کاٹے جائیں گے اور اگر قتل کیا ہو ‘ مال نہ لیا ہو تو اولیاء مقتول اگرچہ معاف کردیں پھر بھی ڈاکو قتل کیا جائے گا۔ یہ قتل بطور شرعی سزا کے ہوگا۔ اگر قتل یا مال چھیننے کے ارتکاب ایک نے کیا ہو باقی مددگار ہوں۔ مرتکب جرم نہ ہوں تو امام اعظم کے نزدیک شرعی سزا سب کو دی جائے گی۔ امام مالک اور امام احمد کا بھی یہی قول ہے یہ سزا محاربت (اللہ کے خلاف جنگی کوشش) کی ہوگی۔ کیونکہ اس کوشش میں سب باہم مددگار ہیں۔ ایک کا بھی پاؤں اکھڑ جائے تو سب بھاگ اٹھیں اور چونکہ سب کے قدم جمے ہوئے ہیں اس لئے سب مجرم ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ قتل کا وقوع ہوا ہو خواہ ایک سے ہی ہوا ہو دیکھو آیت میں یُقَتَّلُوْا اَوْ یُصَلَّبُوْا اور تقطع تشدید کے ساتھ (ثلاثی مزید کے صیغے) آئے ہیں جو تکثیر اور مبالغہ کو ظاہر کر رہے ہیں ‘ اس سے معلوم ہو رہا ہے کہ ارتکاب اگرچہ ایک نے کیا ہو مگر سزا سب کو یکے بعد دیگرے دی جائے گی۔ امام شافعی کے نزدیک مددگار کو صرف قید اور جلا وطنی کی سزا دی جائے گی۔ اگر ڈاکوؤں نے قتل بھی کیا اور مال بھی لیا ہو تو امام اعظم اور امام ابو یوسف کے نزدیک حاکم کو اختیار ہے کہ پہلے ہاتھ پاؤں کٹوائے پھر قتل کرائے پھر صلیب پر لٹکائے یا صرف قتل کرائے یا صرف صلیب دے ‘ امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک اس صورت میں قطع اعضا کی سزا نہیں دی جائے گی۔ صرف قتل کیا جائے گا اور صلیب دی جائے گی۔ ظاہر آیت کا ہی اقتضاء ہے امام محمد (رح) کے نزدیک قطع اعضاء نہ ہوگا صرف قتل کیا جائے گا یا صلیب دی جائے گی کیونکہ جرم ایک ہے دو سزائیں نہیں دی جا سکتیں۔ قتل سے کم درجہ کا جرم باب سزا میں قتل کے اندر شامل سمجھا جاتا ہے جیسے چوری کی سزا اور رجم (اگر جمع ہوجائیں تو رجم کیا جائے گا چوری کی سزا نہیں دی جائے گی۔ اعلیٰ سزا کے اندر ادنیٰ سزا کو داخل قرار دیا جاتا ہے) ۔ امام اعظم کے قول کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک سزا ہے چونکہ سبب سخت ہے اس لئے سزا بھی سخت ہے قتل کرنے اور مال چھیننے کی وجہ سے ڈاکو امن عام کو انتہائی طور پر تباہ کرتا ہے اس لئے اس کو سخت سزا دی جانی چاہئے اسی لئے بڑی چوری میں ہاتھ اور پاؤں کو کاٹنا ایک سزا قرار دیا جاتا ہے اور چھوٹی چھوٹی چوریوں میں دو سزائیں تجویز کی جاتی ہیں (ہاتھ کاٹنا ایک سزا پاؤں کاٹنا دوسری سزا) اور جب سزا ایک ہو (خواہ کتنی ہی سخت ہے مگر ہے ایک) تو تداخل ممکن نہیں کیونکہ تداخل دو سزاؤں میں ہوتا ہے ایک میں نہیں ہوتا۔ امام ابو یوسف (رح) : کا قول ہے کہ قتل بھی کیا جائے گا اور صلیب بھی یقیناً دی جائے گی کیونکہ نص قرآنی میں اس کی صراحت آگئی ہے اور اس سے غرض تشہیر دینی ہے تاکہ دوسروں کو عبرت حاصل ہو امام اعظم نے فرمایا اصل تشہیر تو قتل ہے صلیب دینے میں تشہیر کی زیادتی ہے لہٰذا حاکم کو اختیار ہے (صرف قتل کرا دے یا صلیب دے دے) امام شافعی کے نزدیک صلیب پر قتل کرنے کے بعد کھینچا جائے گا۔ امام شافعی کا ایک قول یہ بھی مروی ہے کہ زندہ کو صلیب پر چڑھا دیا جائے گا۔ پھر برچھے اور تیروں سے اس کو اتنا چھیدا جائے گا کہ وہ مرجائے۔ امام اعظم کا قول بھی دونوں طرح روایت میں آیا ہے۔ پہلی صورت کو طحاوی (رح) نے پسند کیا ہے ‘ اس صورت میں مثلہ کرنا نہیں پڑتا۔ دوسری صورت کو کرخی نے اختیار کیا ہے یہی زیادہ صحیح بھی ہے کیونکہ قتل یا صلیب کشی کی صراحت ہے اور (لفظ او دونوں کو جمع کرنے سے مانع ہے) ۔ امام اعظم کے نزدیک تین دن سے زائد صلیب پر لٹکا نہ چھوڑا جائے اس سے زیادہ چھوڑنے سے لاش بگڑ جائے گی اور لوگوں کو دکھ ہوگا۔ امام ابو یوسف کے نزدیک تختہ پر اس وقت تک لٹکارکھا جائے گا کہ خود ٹوٹ کر نہ گرپڑے تاکہ لوگوں کو عبرت ہوتی رہے۔ ہم کہتے ہیں عبرت آفرینی تو صرف صلیب پر لٹکانے سے ہی ہوجاتی ہے اور انتہائی عبرت آفرینی مقصود نہیں ہے۔ جمہور نے جس تفسیر کو اختیار کیا ہے۔ یہ امام شافعی نے حضرت ابن عباس ؓ کی طرف منسوب کی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے راہزنوں اور لٹیروں کے متعلق فرمایا اگر لٹیروں نے قتل کیا ہو اور مال لیا ہو تو ان کو قتل کیا جائے اور صلیب دی جائے اور اگر صرف قتل کیا ہو مال نہ لیا ہو تو ان کو قتل کیا جائے صلیب نہ دی جائے اور اگر صرف مال لیا ہو قتل نہ کیا ہو تو ان کے ہاتھ پاؤں مخالف جہت کے کاٹے جائیں اور اگر راہگیروں کو صرف خوفزدہ کیا ہو مال نہ چھیننا ہو تو جلاوطن کردیا جائے۔ بیہقی نے محمد بن سعد عوفی کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ کا قول بیان کیا ہے کہ اس آیت کے ذیل میں آپ نے فرمایا اگر محارب نے جنگ کی اور قتل کیا اور توبہ کرنے سے پہلے گرفتار کرلیا گیا تو اس کو قتل کیا جائے گا اور اگر محاربت کے ساتھ مال بھی چھینا اور قتل بھی کیا تو اس کو صلیب بھی دی جائے گی اور اگر (صرف مال لیا) قتل نہ کیا تو ہاتھ پاؤں مخالف جہت سے کاٹے جائیں گے اور اگر جنگ کی اور راہگیروں کو خوفزدہ کیا (مال نہیں چھینا نہ قتل کیا) تو شہر بدر کردیا جائے گا۔ امام محمد اور امام ابو یوسف (رح) کی وساطت سے بحوالۂ کلبی از ابو صالح بیان کیا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوبردہ ‘ ہلال بن عویمر اسلمی سے جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کرلیا۔ پھر کچھ لوگ (حوالی مکہ سے) مسلمان ہونے کے ارادہ سے (مدینہ کو) چلے (راستہ میں) ابوبردہ کے ساتھیوں نے ان کو لوٹ لیا (اور قتل بھی کردیا) اس پر حضرت جبرئیل ( علیہ السلام) نے یہ ضابطۂ سزا لے کر نازل ہوئے کہ جس نے قتل کیا ہو اور مال بھی لیا ہو اس کو صلیب دی جائے اور جس نے قتل کیا ہو مال نہ لیا ہو اس کو قتل کیا جائے اور جس نے مال لیا ہو قتل نہ کیا ہو اس کے ہاتھ پاؤں مخالف جہت سے کاٹے جائیں اور جو (گرفتار ہونے سے پہلے) مسلمان ہو کر آجائے تو حالت شرک میں اس سے جو گناہ ہوئے ہوں گے۔ اسلام ان کو ساقط کر دے گا۔ عطیہ کی روایت میں حضرت ابن عباس ؓ : کا قول آیا ہے کہ جس نے راہگیروں کو خوف زدہ کیا ہو ‘ قتل نہ کیا ہو نہ مال لیا ہو تو اس کو شہر بدر کردیا جائے۔ رواہ احمد بن حنبل فی تفسیرہ۔ مجرم کے احوال کے موافق تقسیم سزا قواعد شرع کے مطابق بھی ہے ایسے امور میں حاکم کو اختیار تمییزی دینا قواعد شرع کے مطابق نہیں ہے۔ کیونکہ اس جرم میں خفت اور ثقل ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے اب اگر حاکم کو اختیار تمیزی دیا جائے گا تو شدید ترین جرم پر خفیف ترین سزا اور خفیف ترین جرم پر شدید ترین سزا کا جواز پیدا ہوجائے گا۔ قتل کے عوض قتل۔ مال لینے کے عوض ‘ ہاتھ پاؤں کٹنا اور دونوں جرم ہوں تو قتل کے ساتھ صلیب بھی دینا تقاضائے عقل کے مطابق ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے موخر الذکر صورت میں جو صرف قتل کرنے کی سزا پر اکتفا کیا ہے اور صلیب دینے کی اجازت نہیں دی وہ صرف عرینہ والوں کے واقعہ کی وجہ سے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو صلیب نہیں دی تھی (ورنہ عقلی تقاضا تو صلیب دینے کے موافق ہے) مسئلہ : اگر ڈاکو نے قتل نہ کیا ہو اور مال بھی نہ لیا ہو ‘ صرف زخمی کردیا ہو تو جو قابل قصاص زخم ہوگا اس کا قصاص (بدلہ) لیا جائے گا اور جو قابل تاوان زخم ہوگا اس کا مالی معاوضہ لیا جائے گا اور لینے نہ لینے کا اختیار مجروح کو ہوگا وہ چاہے تو معاف کر دے۔ صاحب ہدایہ نے لکھا ہے اس جرم کی کوئی شرعاً مقرر سزا نہیں۔ صرف حق عبد کا اس سے تعلق ہے۔ لہٰذا مجروح کو اختیار ہوگا۔ لیکن صاحب ہدایہ کا یہ قول کہ اس جرم کی کوئی شرعی سزا نہیں۔ قابل تسلیم نہیں۔ کیونکہ ڈرانا دھمکانا تو موجود ہے اور (مال لینے اور قتل کرنے کے بغیر صرف) ڈرانے دھمکانے کی شرعی سزا شہر بدر کردینا مقرر ہے۔ مسئلہ : اور اگر ڈاکو نے مال کر زخمی بھی کردیا تو مال لینے کے عوض اس کا ہاتھ پاؤں کاٹا جائے گا اور زخمی کرنے کی کوئی سزا جدا نہیں دی جائے گی کیونکہ عصمت نفس بندہ کا حق ہے اور عصمت مال اللہ کا حق ہے۔ جب حد شرعی جاری ہوگئی۔ کیونکہ مجرم نے حق خداوندی میں دخل اندازی کی تھی تو اب عصمت نفس کا سقوط ہوگیا۔ امام شافعی نے کہا (دونوں حق جدا جدا ہیں اللہ کا حق عصمت مال اور بندہ کا حق عصمت نفس) حد شرعی جاری ہونے کی وجہ سے حق عبد ساقط نہیں ہوگا۔ زخموں کا قصاص بھی لیا جاسکتا ہے۔ امام اعظم اور امام شافعی (رح) کا یہی اختلاف اس صورت میں ہے جب ڈاکو کو جرم قتل کی وجہ سے قتل کردیا گیا ہو یا مال چھیننے کی وجہ سے اس کو ہاتھ پاؤں کاٹنے کی سزا دے دی گئی ہو اور جو مال اس نے چھینا تھا وہ تلف ہوگیا ہو یا مجرم نے تلف کردیا ہو تو اب چھینے ہوئے مال کا کوئی تاوان مجرم پر عائد نہ ہوگا ‘ لیکن امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک تلف شدہ اور تلف کردہ مال کا معاوضہ دینا پڑے گا۔ ہاں اگر مال موجود ہو (تلف نہ ہوا ہو) تو باتفاق ائمہ واپس دیا جائے گا حد سرقہ کی بحث میں اس اختلاف کی تفصیل انشاء اللہ آئے گی۔ مسئلہ : ڈاکوؤں میں اگر کوئی عورت بھی شامل ہو جس نے قتل کیا ہو اور مال لیا ہو تو امام مالک اور امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک اس کو بھی قتل کیا جائے گا اور یہ سزا شرعی ہوگی (یعنی اولیاء مقتول کو معاف کردینے کا حق نہ ہوگا) امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا عورت کو قصاص میں قتل کیا جائے گا اور لئے ہوئے مال کا تاوان بھی وصول کیا جائے گا (یعنی اولیاء مقتول کا معاف کردینے کا حق ہوگا) مسئلہ : اگر ڈاکوؤں میں کوئی بچہ یا دیوانہ شامل ہو تو (ان دونوں کے علاوہ) باقی لوگوں پر حد شرعی جاری کی جائے گی یہ تینوں اماموں کا قول ہے۔ امام اعظم اور امام زفر کے نزدیک باقی لوگوں سے بھی حد شرعی ساقط ہوجائے گی (صرف قصاص کا حق باقی رہے گا) اور امام ابو یوسف کا قول ہے کہ اگر صرف صحیح الدماغ لوگوں نے جرم کا ارتکاب کیا ہے (اور بچہ یا دیوانہ جرم قتل و غصب میں شریک نہیں ہوئے صرف ساتھ تھے) تو باقی ڈاکوؤں پر شرعی حد جاری کی جائے گی (اور اگر بچہ یا دیوانہ بھی شریک جرم ہو تو باقی لوگوں سے بھی حد شرعی ساقط ہوجائے گی صرف قصاص کا حکم باقی رہے گا) یہی اختلاف اس صورت میں ہے جب ڈاکو قافلہ والوں کے محرم قرابت دار ہوں۔ امام صاحب کی دلیل یہ ہے کہ جرم ایک ہی ہے جو سب پر عائد ہو رہا ہے (خواہ اصل مجرم کوئی ایک ہی ہو اور دوسرے مددگار ہوں) لہٰذا باقی لوگوں کے متعلق شبہ پیدا ہوجاتا ہے (اور شبہ کی صورت میں حد شرعی جاری نہیں ہوسکتی) جمہور نے کہا ایسے شبہ کا اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ ورنہ حد شرعی کا دروازہ بند ہوجائے گا۔ مسئلہ : اگر قافلہ والوں میں سے ایک نے دوسرے کو لوٹ لیا تو حد واجب نہ ہوگی پورا قافلہ ایک پناہ گاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ جیسے ایک مکان کے اندر دو آدمی رہتے ہوں اور ایک دوسرے کا سامان چرا لے تو حد جاری نہیں ہوتی۔ جب حد واجب نہیں تو قصاص اور مالی معاوضہ واجب ہوگا۔ ذلک لہم خزی فی الدنیا یہ (حد شرعی جس کا ذکر کیا گیا) ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے۔ یعنی ذلت و رسوائی (کا ذریعہ ہے) ۔ ولہم فی الاخرۃ عذاب عظیم اور آخرت میں ان کے لئے بڑا عذاب ہے کیونکہ ان کا جرم بڑا ہے۔
Top