Tafseer-e-Mazhari - Al-A'raaf : 79
فَتَوَلّٰى عَنْهُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَكُمْ وَ لٰكِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِیْنَ
فَتَوَلّٰى : پھر منہ پھیرا عَنْهُمْ : ان سے وَقَالَ : اور کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ : تحقیق میں تمہیں پہنچا دیا رِسَالَةَ : پیغام رَبِّيْ : اپنا رب وَنَصَحْتُ : اور خیر خواہی کی لَكُمْ : تمہاری وَلٰكِنْ : اور لیکن لَّا تُحِبُّوْنَ : تم پسند نہیں کرتے النّٰصِحِيْنَ : خیر خواہ (جمع)
پھر صالح ان سے (ناامید ہو کر) پھرے اور کہا کہ میری قوم! میں نے تم کو خدا کا پیغام پہنچا دیا اور تمہاری خیر خواہی کی مگر تم (ایسے ہو کہ) خیر خواہوں کو دوست ہی نہیں رکھتے
فتولی عنہم وقال یقوم لقد ابلغتکم رسالہ ربی ونصحت لکم ولکن لا تحبون النصحین۔ اس وقت صالح ان سے منہ موڑ کر چلے اور کہا اے میری قوم میں نے تو تم کو اپنے رب کا حکم پہنچا دیا تھا اور تمہاری خیر خواہی کی تھی لیکن تم خیرخواہوں کو ہی پسند نہیں کرتے تھے۔ ایک شبہ زلزلہ سے ساری قوم ہلاک ہوچکی تو پھر ان مردوں کو حضرت صالح نے کس طرح مخاطب بنایا اور لقد ابلغتکم کس سے فرمایا۔ ازالہ : مردوں سے خطاب رسول اللہ ﷺ نے بھی کیا تھا بدر کے مقولین کو جب ایک گڑھے میں ڈال دیا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے (نام لے لے کر) ان کو مخاطب بنایا۔ صحیحین میں حضرت ابو طلحہ ؓ کی روایت سے آیا ہے کہ بدر سے تیسرے دن رسول اللہ ﷺ نے اونٹنی کسوانے کا حکم دیا اونٹنی پر پالان باندھ دیا گیا پھر آپ صحابہ ؓ : کو لے کر پیدل چل دیئے صحابہ ؓ : کو خیال ہوا کہ کسی ضروری کام سے کہیں تشریف لئے جا رہے ہیں لیکن آپ جا کر اس کنویں کے کنارے کھڑے ہوگئے (جس کے اندر مقتولین کی لاشیں پھینک دی گئی تھیں) اور پکارنے لگے اے ابو جہل بن ہشام اے امیہ بن خلف اے عتبہ بن ربیعہ اے شیبہ بن ربیعہ کیا تمہارے لئے اس وقت یہ امر باعث مسرت ہوتا کہ کاش تم نے اللہ اور اس کے رسول کا حکم مان لیا ہوتا اللہ اور اس کے رسول نے جس چیز کی تم کو وعید کی تھی کیا تم نے اس کو صحیح پا لیا میں نے تو اس وعدہ کو حق پا لیا جو اللہ نے مجھ سے کیا تھا تم اپنے نبی کے لئے بدترین قبیلہ ہو تم نے میری تکذیب کی اور دوسرے لوگوں نے مجھے سچا جانا تم مجھ سے لڑے اور دوسرے لوگوں نے میری مدد کی۔ اے گروہ شر تم کو اللہ نے میری طرف سے سزا دے دی میں امین تھا تم نے مجھے خائن قرار دیا میں سچا تھا تم نے مجھے جھوٹا کہا حضرت عمر ؓ نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ کیا تین روز کے بعد آپ ان کو پکار رہے ہیں بےجان لاشوں سے آپ کس طرح کلام فرما رہے ہیں فرمایا تم میری بات کو ان سے زیادہ نہیں سن رہے ہو جو کچھ میں ان سے کہہ رہا ہوں اس وقت وہ سن رہے ہیں لیکن لوٹا کر جواب نہیں دے سکتے۔ بعض علماء کا قول ہے کہ حضرت صالح نے مردوں کو خطاب اس لئے کیا کہ آنے والے لوگوں کو عبرت ہو۔ بعض کا قول ہے کہ آیت میں تقدیم تاخیر ہے (جو واقعہ پہلے ہوا ترتیب عبارت میں اس کو پیچھے ذکر کیا ہے اور جو واقعہ پیچھے ہوا ترتیب عبارت میں اس کو پہلے ذکر کردیا) اصل کلام اس طرح تھا۔ فَتَوَلّٰی عَنْہُمْ وَقَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتَکُمْ رِسَالَۃَ رَبِّیْ وَنَصَحْتُ لَکُمْ وَلٰکِنْ لاَّ تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِیْنَ فَاَخَذَتَہُمْ الرَّجْفَۃُ فَاصْبَحُوْا فِی دَارِہِمْ جٰثِمِیْنَ ۔ قصہ ثمود محمد بن اسحاق ‘ وہب بن منبہ ‘ ابن جریر اور حاکم نے اسناد کے ساتھ حضرت عمرو بن خارجہ ؓ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب قوم عاد تباہ کردی گئی تو ثمود ان کی بستیوں میں بس گئے اور ان کے جانشین ہوگئے یہ خوب پھلے پھولے انہوں نے لمبی لمبی عمریں پائیں لوگ مٹی (کچی پکی اینٹوں) کے مکان بناتے تھے مکان گرجاتے تھے مگر بنانے والا زندہ رہتا تھا مجبور ہو کر انہوں نے پہاڑوں کو تراش تراش کر غاروں کے اندر مکان بنا لئے معاش کی طرف سے یہ لوگ بڑی کشائش میں تھے آخر ملک میں انہوں نے تباہی پھیلائی اور اللہ کے سوا دوسروں کو پوجنے لگے۔ اللہ نے ان کی ہدایت کے لئے صالح کو پیغمبر بنا کر بھیجا یہ لوگ خالص عرب تھے اور صالح نسبی لحاظ سے متوسط درجہ کے تھے۔ مگر اخلاق فاضلہ کے لحاظ سے سب سے برتر تھے صالح ابتداء رسالت کے وقت نوجوان تھے اور قوم کو اللہ کی طرف بلاتے بلاتے سفید مو ہوگئے مگر سوائے قلیل آدمیوں کے کسی نے آپ کی پیروی نہیں کی اور قلیل بھی وہ تھے جن کو کمزور سمجھا جاتا تھا (یعنی غریب تھے) صالح برابر جمے رہے اور تبلیغ کرتے رہے اور اللہ کے عذاب سے بہت زیادہ ڈراتے اور خوف دلاتے رہے آخر قوم والوں نے کہا کوئی ایسی نشانی دکھاؤ جس سے تمہارے قول کی سچائی ثابت ہو۔ حضرت صالح ( علیہ السلام) نے فرمایا کون سی نشانی چاہتے ہو قوم والوں نے کہا کل تم ہمارے ساتھ ہمارے تہوار کے میلے میں چلو یہ تہواری میلہ سال میں ایک معین دن ہوتا تھا جہاں لوگ اپنے بتوں کو لے کر جاتے تھے۔ پھر تم اپنے معبود سے دعا کرو اور ہم اپنے معبودوں سے دعائیں کریں اگر تمہاری دعا قبول ہوگئی تو ہم تمہارے ساتھ ہوجائیں گے اور اگر ہماری دعا قبول ہوگئی تو تم ہمارے ساتھ ہوجانا۔ حضرت صالح ( علیہ السلام) نے فرمایا بہت اچھا چناچہ قوم والے میلہ کو بت لے کر گئے اور صالح بھی ان کے ساتھ گئے قوم والوں نے بتوں سے دعائیں کیں کہ صالح ( علیہ السلام) کی دعا قبول نہ ہو۔ پھر جندع بن عمرو بن جو اس نے جو ثمود کا سردار تھا۔ حضرت صالح سے کہا یہ پتھر جو حجر کے ایک گوشہ میں الگ تھلگ پڑا ہے جس کو کا ثبہ کہا جاتا ہے اس کے اندر سے بختی اونٹ کی شکل کی ایک بڑے پیٹ والی دس ماہہ گابھن خوب بالوں سے بھرپور اونٹنی برآمد کر دو اگر ایسا کرو گے تو ہم تم کو سچا مان لیں گے اور تم پر ایمان لے آئیں گے۔ حضرت صالح ( علیہ السلام) نے ان سے ایمان کا پختہ وعدہ لے لیا تو کھڑے ہو کر دو رکعت نماز پڑھی اور اپنے مالک سے دعا کی۔ یکایک پتھر میں سے ایک ایسی آواز نکلنے لگی جیسی پیدائش کے وقت بیاہنے والی اونٹنی کی نکلتی ہے پھر اس ٹیلہ سے وہی آواز نکلنے لگی یکدم پتھر شق ہوگیا اور اس کے اندر سے فرمائش کے مطابق اونٹنی برآمد ہوگئی اس کے دونوں پہلوؤں کی درمیانی چوڑائی بہت زیادہ تھی پھر اس کے پیٹ سے اسی کی طرح ایک بچہ پیدا ہوا یہ دیکھ کر جندع بن عمر اور اس کے قبیلہ کے کچھ لوگ مسلمان ہوگئے اور سرداران ثمود نے بھی ایمان لانے کا وعدہ کرلیا لیکن ذواب بن عمرو بن لبید اور حباب مجاور اصنام اور دباب بن صحر کاہن نے ان کو منع کردیا یہ تینوں شخص ثمود کے سردار تھے۔ حضرت صالح ( علیہ السلام) نے قوم والوں سے کہا ایک دن یہ اونٹنی پانی پئے گی اور ایک دن تمہارے جانوروں کو پانی کا کوٹہ ملے گا اس کے بعد کچھ مدت تک اونٹنی ایک بچہ کے ساتھ آزاد پھرتی درختوں کی پتیاں چرتی اور پانی پیتی رہی مگر ایک دن ناغہ کر کے پانی پیتی تھی اور اس طرح پیتی تھی کہ کنوئیں میں سر ڈال کر سب پانی پی جاتی۔ ایک قطرہ بھی باقی نہ چھوڑتی تھی اور اس دوران میں ٹانگیں چیر کر کھڑی ہوجاتی تھی اور لوگ جتنا چاہتے اس کا دودھ دوہ لیتے ‘ جتنا پیا جاتا پیتے اور جتنے برتن تھے سب بھر کر رکھ لیتے تھے پھر اونٹنی بغیر ٹانگیں چیرے باہر نکل آتی۔ معاملہ یونہی چلتا رہا۔ گرمی کے زمانے میں اونٹنی وادی کے اوپر آجاتی اور اس کے خوف سے تمام مویشی بکریاں گائے اور اونٹ بھاگ کر وادی کے اندر چلے جاتے اور سردی کے زمانہ میں اونٹنی وادی کے اندر اتر جاتی تو تمام جانور اوپر آجاتے (اس طرح اونٹنی تو گرمی سردی کی تکلیف سے بچ جاتی اور) تمام جانور گرمی اور سردی کی طرف سے دکھی رہتے۔ اس سے مویشیوں کو نقصان پہنچا اور لوگوں کو یہ بات اتنی کھلی کہ وہ اللہ کے حکم سے سر کشی کرنے لگے اور اونٹنی کو قتل کر ڈالنے کے درپے ہوگئے یہاں تک کہ اونٹنی کو مار ڈالنے پر متفق الرائے ہوگئے قبائل ثمود میں دو عورتیں تھیں ایک کا نام صدوف اور دوسری کا نام عنیزہ تھا ‘ عنیزہ کی کنیت ام غنم تھی یہ غنم بن مجاز کی بیٹی اور ذواب بن عمرو کی بیوی تھی اور بڑھیا سال خوردہ ہوگئی تھی اس کی متعدد خوبصورت بیٹیاں تھیں اس کے پاس اونٹ گائے اور بکریاں بھی بہت تھیں بڑی مالدار تھی۔ صدوف مختار کی بیٹی تھی اور خوبصورت جوان تھی اس کے پاس بھی اونٹ گائے اور بکریاں بہت تھیں بڑی مالدار تھی دونوں کو حضرت صالح ( علیہ السلام) سے سخت عداوت تھی اور چونکہ اونٹنی سے ان کے جانوروں کو سخت ضرر پہنچتا تھا اس لئے اونٹنی کو قتل کرا دینے کی دونوں خواستگار تھیں۔ صدوف نے ایک ثمودی شخص کو جس کا نام حباب تھا آمادہ کیا اور کہا تو اگر اونٹنی کو قتل کر دے تو میں تیری ہوجاؤں گی حباب نے انکار کردیا صدوف نے اپنے چچا کے بیٹے سے جس کا نام مصدع بن مہرج بن مختار تھا۔ یہی کہا اور چونکہ صدوف بہت حسین اور بڑی مالدار تھی اس لئے مصدع نے صدوف کی درخواست مان لی۔ ادھر غنیزہ بنت غنم نے قذار بن سالف سے کہا اگر تو اونٹنی کو قتل کر دے تو پھر میری جس بیٹی کو چاہے لے لینا۔ قذار سرخ رنگ نیلگوں چشم پستہ قد آدمی تھا۔ اہل روایت کا خیال ہے کہ وہ حرامی تھا۔ سالف کے بستر پر پیدا ہوا تھا اس لئے اس کو قذار بن سالف کہا جاتا تھا۔ یہ شخص قوم میں باعزت اور طاقتور تھا رسول اللہ ﷺ نے آیت (واذا نبعث اشفاہا) کی تفسیر کے ذیل میں فرمایا تھا وہ ابو زمعہ کی طرح اپنی قوم میں باعزت صاحب عزم اور طاقتور تھا۔ رواہ البخاری من حدیث عبداللہ بن زمعۃ۔ غرض مصدع اور قذار تیار ہوگئے۔ قبیلۂ ثمود میں سے اپنی مدد کے لئے سات آدمی انہوں نے اور اپنے ساتھ لئے اور چل دیئے قذار اونٹنی کی واپسی کی راہ میں ایک پتھر کی آڑ لے کر گھات لگا کر بیٹھ گیا اور مصدع دوسرے راستہ میں جا چھپا ‘ اونٹنی مصدع کی طرف سے گزری مصدع نے تیر مارا جس سے اونٹنی کی ٹانگ کا عضلہ چھد گیا ادھر ام غنم عنیزہ اپنی حسین ترین بیٹی کو لے کر قذار کے پاس آپہنچی اور قذار کو بھڑکایا اور گھات کی جگہ سے اس کو اٹھا کرلے آئی ‘ قذار نے آتے ہی اونٹنی پر تلوار کا وار کیا جس سے اس کی کونچ کھل گئی اونٹنی بھاگی اور اپنے بچہ کو تنبیہ کرنے کے لئے اس نے چیخ ماری قذار نے اس کے سینہ پر برچھا مارا اور اونٹنی کو قتل کردیا پھر بستی والوں نے آکر اس کا گوشت بانٹ لیا اور پکایا ‘ بچہ نے ماں کی یہ حالت دیکھی تو بھاگ کر ایک محفوظ پہاڑ پر چلا گیا اس پہاڑ کا نام کسی نے صور لکھا ہے اور کسی نے فازہ۔ حضرت صالح تشریف لائے تو بستی والوں نے کہا یا نبی اللہ ہمارا کوئی قصور نہیں فلاں شخص نے اونٹنی کو قتل کیا ہے حضرت صالح ( علیہ السلام) نے فرمایا بچہ کی تلاش کرو اگر وہ تم کو مل جائے گا تو ممکن ہے تم سے عذاب ٹل جائے لوگ بچہ کی تلاش میں نکلے اور پہاڑ کے اوپر دیکھ کر پکڑنے کے لئے گئے مگر اللہ نے پہاڑ کو اتنا اونچا کردیا کہ پرندے بھی اس کی چوٹی تک نہ پہنچ سکیں۔ روایت میں آیا ہے کہ بچہ نے حضرت صالح ( علیہ السلام) کو دیکھا تو آنسوؤں سے رو دیا اور تین چیخیں ماریں پھر ایک پتھر پھٹا اور بچہ اس میں گھس گیا حضرت نے فرمایا بچہ کی ہر چیخ تمہارے لئے ایک دن کی مہلت (کی طرف اشارہ ہے) صرف تین دن تک گھروں میں رہ سکتے ہو یہ وعدۂ عذاب غلط نہیں ہوسکتا۔ ابن اسحاق کی روایت میں آیا ہے کہ جو نو آدمی اونٹنی کو قتل کرنے کے لئے نکلے تھے ان میں سے چار شخص بچہ کو قتل کرنے نکلے ان میں مصدع بن مہرج اور اس کا بھائی ذاب بن مہرج بھی تھا مصدع نے اس کے تیر مارا جس سے اس کا دل چھید گیا۔ مصدع نے اس کو ٹانگ پکڑ کر کھینچا اور سب نے نیچے لا کر ماں کی طرح اس کا گوشت بھی آپس میں بانٹ لیا۔ حضرت صالح ( علیہ السلام) نے فرمایا تم لوگوں نے حرمت خداوندی کو توڑا اب اللہ کے عذاب اور انتقام کے لئے تیار ہوجاؤ۔ لوگوں نے آپ کی بات کا مذاق بنایا اور استہزاء کے طور پر کہنے لگے صالح عذاب کب آئے گا اس کی علامت کیا ہوگی ثمودیوں کی زبان میں اتوار کو اوّل پیر کو عون منگل کو دبار بدھ کو جبار جمعرات کو مونس جمعہ کو عروبہ اور سنیچر کو شیار کہتے تھے بدھ کے روز انہوں نے اونٹنی کو قتل کیا تھا۔ حضرت صالح نے جواب میں فرمایا جب مونس کی صبح ہوگی تو تمہارے چہرے زرد ہوں گے عروبہ کی صبح اٹھو گے تو تمہارے چہرے سرخ ہوں گے اور شیار کی صبح کو تمہارے منہ کالے ہوجائیں گے پھر اوّل (اتوار) کے دن صبح کو تم پر عذاب آجائے گا یہ بات سن کر وہ نو آدمی جنہوں نے اونٹنی کو قتل کیا تھا آپس میں کہنے لگے آؤ صالح کو ہی ختم کردیں اگر یہ سچا ہے تو (عذاب آنے سے) پہلے ہی ہم اس کو قتل کر چکیں گے اور جھوٹا ہے تو اونٹنی کے پاس اس کو بھیج دیں گے اس مشورہ کے بعد رات کو شب خون مارنے کے لئے حضرت صالح ( علیہ السلام) کے مسکن پر پہنچے لیکن فرشتوں نے پتھر مار مار کر ان کو دفع کردیا جب ان کے ساتھ والوں نے دیکھا کہ دیر ہوگئی اور وہ واپس نہیں لوٹے تو صالح کے گھر پہنچے دیکھا کہ ان کے آدمی پتھروں سے کچلے پڑے ہیں کہنے لگے صالح تو نے ان کو قتل کیا ہے یہ کہہ کر حضرت صالح کو قتل کرنے کا ارادہ کیا لیکن دوسرے ساتھ والوں نے جو مسلح تھے ان سے کہا تم صالح کو کبھی قتل نہیں کرسکتے صالح نے وعدہ کیا ہے کہ تین روز کے بعد تم پر عذاب آئے گا اگر یہ سچے ہیں تو ان کو قتل کرنے کا ارادہ کر کے تم اپنے رب کے غضب کو اور بھڑکا رہے ہو اور اگر یہ جھوٹے ہیں تو جو کچھ تم ارادہ کر رہے ہو وہ اس کے بعد ہوجائے گا یہ تقریر سن کر لوگ اسی رات کو منتشر ہوگئے پھر جمعرات کی صبح ہوئی تو ان کے چہرے زرد ہوگئے معلوم ہوتا تھا کہ چھوٹے بڑے عورت مرد ہر ایک کے چہرہ پر خلوف (ایک زرد خوشبو) ملی ہوئی ہے یہ علامت دیکھ کر ان کو عذاب کا یقین ہوگیا اور سمجھ گئے کہ صالح نے صحیح بات کہی تھی (پھر توبہ کرنے کے بجائے) حضرت صالح کو قتل کرنے کے لئے تلاش کرنے لگے لیکن آپ بھاگ کر ثمود کے قبیلۂ بنی غنم میں پہنچ کر قبیلہ کے سردار کے پاس جس کا نام تقبل تھا اور کنیت ابوہرب جا ٹھہرے تھے یہ شخص مشرک ضرور تھا مگر اس نے آپ کو چھپالیا اس لئے تلاش کرنے والوں کی دسترس سے آپ باہر رہے اور صبح کو حضرت صالح کے مؤمن ساتھیوں کے پاس جا کر ان کو طرح طرح سے اذیتیں دے کر صالح کا پتہ پوچھنے لگے ایک شخص نے جس کا نام صدع بن ہرم تھا حضرت سے دریافت کیا یا نبی اللہ یہ لوگ آپ کا پتہ بتانے کے لئے ہم کو اذیتیں دے رہے ہیں کیا ہم ان کو آپ کا پتہ نشان بتادیں آپ نے فرمایا ہاں تم کو کہہ دو کہ میرے پاس صالح ہے مگر تم اس پر دسترس نہیں پاسکتے (اس شخص نے حسب اجازت کہہ دیا مگر) وہ لوگ اس کو چھوڑ کر چل دیئے اور جس عذاب میں مبتلا تھے اس نے ان کو آگے کچھ کرنے کا موقعہ ہی نہیں دیا بلکہ ایک دوسرے کو دیکھ کر اس کے چہرے کی زردی بتاتا تھا اسی میں شام ہوگئی تو سب چیخ پڑے ‘ میعاد مقرر کا ایک دن گزر گیا جب دوسرے دن کی صبح ہوئی تو ان کے چہرے سرخ ہوگئے معلوم ہوتا تھا خون سے رنگے ہوئے ہیں یہ دیکھ کر چیخنے اور چلانے اور رونے لگے شام ہوئی تو چیخ کی میعاد کے دو دن گزر گئے اب عذاب آ ہی پہنچا تیسرے دن کی صبح ہوئی تو سب کے منہ کالے ہوگئے جیسے تارکول مل دیا گیا ہو ‘ یہ دیکھ کر (مزید) روئے پیٹے شام ہوئی تو حضرت صالح مسلمانوں کو اپنے ساتھ لے کر شام کی طرف چل دیئے اور فلسطین کے ایک ریگستان میں جا کر فروکش ہوگئے اتوار کی صبح ہوئی تو لوگوں نے کفن پہن لئے ‘ مردہ کی خوشبو مل لی اور زمین پر پڑگئے کبھی آسمان کی طرف دیکھتے تھے کبھی زمین کی طرف سمجھ نہ سکے کہ عذاب کدھر سے آئے گا جب خوب دن چڑھ گیا تو زلزلہ نے ان کو آدبوچا اور سب گھروں کے اندر پڑے کے پڑے رہ گئے اور ایک ایسی زور کی چیخ آسمان کی طرف سے آئی جس میں ابر کی ہر کڑک اور زمین کی ہر تڑک سے زیادہ قوت تھی جس سے سب کے دل سینوں کے اندر پھٹ گئے اور ہر بچہ بڑا ہلاک ہوگیا صرف ایک اپاہج لڑکی بچ گئی جس کا نام ذریعۃ بنت سلف تھا یہ کافر تھی اور حضرت صالح سے اس کو سخت دشمنی تھی عذاب کو دیکھنے سے اس کے پاؤں یک دم کھل گئے اور تیزی سے بھاگ کر یہ قرخ یعنی وادی القری میں پہنچ گئی اور عذاب کی جو کیفیت اس نے دیکھی تھی وادی القری کے باشندوں سے بیان کردی پھر پانی مانگا اور پانی پیتے ہی مرگئی۔ سدی نے قتل ناقہ کے سلسلہ میں بیان کیا ہے کہ اللہ نے حضرت صالح ( علیہ السلام) کے پاس وحی بھیجی تیری قوم عنقریب اونٹنی کو قتل کر دے گی حضرت نے قوم سے یہی بات کہہ دی قوم والوں نے کہا ہم ہرگز ایسا نہیں کرسکتے حضرت صالح نے فرمایا اس مہینہ میں ایک لڑکا پیدا ہوگا اور آئندہ وہ قتل کرے گا اور اسی کے سبب سے تمہاری ہلاکت ہوگی کہنے لگے اس مہینہ میں ہمارا جو بچہ پیدا ہوگا ہم اس کو قتل کردیں گے چناچہ اس مہینہ میں دس لڑکے پیدا ہوئے نو کو تو انہوں نے قتل کردیا ایک نیل گوں چشم سرخ رنگ والا بچہ بچ گیا اور اس کا بڑھاؤ بہت تیزی سے ہوا۔ مقتول بچوں کے باپ جب اس کو دیکھتے تو کہتے ہمارے بچے بھی اگر زندہ ہوتے تو ایسے ہی ہوتے یہ سوچ سوچ کر ان کو حضرت صالح ( علیہ السلام) پر غصہ آیا کہ یہ ہی شخص ہمارے بچوں کے قتل کا سبب ہے پھر انہوں نے قسم کھا کر باہم معاہدہ کرلیا کہ ہم رات کو جا کر اس کو اور اس کے گھر والوں کو ضرور مار ڈالیں گے پھر مشورہ ہوا کہ ہم کو بستی سے نکل جانا چاہئے لوگ ہم کو جاتے دیکھ کر خیال کریں گے کہ ہم سفر کو جا رہے ہیں ہم باہر جا کر کہیں غار میں چھپ جائیں گے اور صالح جس وقت (رات کو) مسجد کو جائیں گے ہم آکر ان کو قتل کردیں گے پھر لوٹ کر غار میں چلے جائیں گے پھر (صبح کو) گھروں کو واپس آجائیں گے اور کہیں گے ہم تو قتل کے وقت موجود بھی نہ تھے لوگ ہم کو سچا سمجھیں گے کیونکہ ان کا تو یہی خیال ہوگا کہ ہم سفر کو گئے ہوئے تھے۔ حضرت صالح قوم کے ساتھ بستی میں نہیں سوتے تھے بلکہ اپنی مسجد میں جس کو مسجد صالح کہا جاتا تھا جا کر رات گزارتے تھے اور صبح کو آکر لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے تھے شام ہوتی تو پھر مسجد کو جاکر رات کو وہیں رہتے غرض وہ لوگ جن کے بچے قتل ہوئے تھے بستی سے باہر جا کر ایک غار میں گھس گئے اور اللہ کے حکم سے غار ان پر گرپڑا اور سب مرگئے اسی کو اللہ نے فرمایا ہے : (فمکروا مکرا ومکرنا مکرا وہم لا یشعرون) ۔ کچھ لوگ جو اس بات سے واقف تھے نکل کر گئے جا کر دیکھا کہ سب لوگ کچلے پڑے ہیں انہوں نے بستی میں آکر شور مچا دیا اللہ کے بندو ! صالح نے بچوں کے قتل پر ہی بس نہیں کیا بلکہ ان لوگوں کو بھی مار ڈالا یہ سن کر بستی والے اونٹنی کو قتل کرنے پر متفق ہوگئے۔ ابن اسحاق نے کہا اونٹنی کو قتل کرنے کے بعد ان نو آدمیوں نے شب خون مار کر حضرت صالح کو قتل کرنے کا معاہدہ کیا تھا۔ یعنی قتل ناقہ کا واقعہ حضرت صالح کو قتل کرنے کے معاہدہ سے پہلے ہوچکا تھا۔ سدی وغیرہ کا بیان ہے دسواں بچہ قذار جب قتل ہونے سے بچ گیا تو تیزی سے بڑھنے لگا ایک دن میں اتنا بڑھ جاتا جتنا دوسرے بچے ایک ہفتہ میں بڑھتے ہیں اور ایک ماہ میں اتنا بڑھ جاتا جتنا دوسرے بچے ایک سال میں بڑھتے ہیں جب بڑا ہوگیا تو لوگوں کے ساتھ ایک روز شراب پینے بیٹھا اور شراب بنانے کے لئے پانی کی ضرورت ہوئی اور چونکہ وہ دن اونٹنی کے پانی پینے کا تھا اس لئے پانی نہیں ملا ‘ یہ بات ان لوگوں کو بہت کھلی اور کہنے لگے ہم دودھ کا کیا کریں ہمیں تو اس پانی کی ضرورت ہے جو یہ اونٹنی پی جاتی ہے تاکہ مویشیوں کو پلائیں اور کھیتیاں سینچیں۔ قذار بولا کیا میں تمہارے لئے اس اونٹنی کو قتل کر دوں۔ اہل مجلس نے کہا ہاں ! چناچہ سب نے اونٹنی کو قتل کردیا۔ عبداللہ بن دینار کے چچا کے بیٹے کی روایت سے بخاری نے صحیح میں بیان کیا ہے کہ غزوۂ تبوک میں جب رسول اللہ ﷺ حجر میں فروکش ہوئے تو حکم دیا لوگ یہاں کے کنوئیں کا پانی نہ پئیں ‘ نہ جانوروں کو پلائیں لوگوں نے عرض کیا ہم نے تو اس پانی سے آٹا گوندھ لیا ہے اور پانی لے بھی لیا ہے فرمایا گوندھے ہوئے آٹے کو پھینک دو اور پانی کو بہا دو ۔ بغوی نے حضرت ابن عمر ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا تھا کہ حجر کے کنوئیں سے لیا ہوا پانی بہا دیں اور گوندھا ہوا آٹا اونٹوں کو کھلا دیں اور اس کنوئیں کا پانی لیں جس کا پانی اونٹنی پیتی تھی۔ بغوی نے لکھا ہے کہ ابوالزبیر نے حضرت جابر ؓ کا قول نقل کیا کہ جب غزوۂ تبوک میں رسول اللہ ﷺ کا گزر حجر سے ہوا تو صحابہ کو حکم دیا تم میں سے کوئی اس (ویران) بستی میں نہ جائے نہ ان کا پانی پیو ان عذاب یافتہ لوگوں کی طرف سے گزرو تو روتے ہوئے ڈرتے ڈرتے کہیں تم پر بھی وہی عذاب نہ آجائے جو ان پر آیا تھا پھر فرمایا تم اپنے رسول سے معجزات نہ طلب کرو۔ یہ صالح کی قوم تھی جس نے اپنے رسول سے معجزہ طلب کیا تھا تو اللہ نے ایک اونٹنی برآمد کردی جو اس پہاڑی راستہ سے پانی پر جاتی اور (پانی پی کر) اس راستہ سے واپس آتی تھی اور اپنی باری کے دن ان کا (سارا) پانی پی جاتی تھی ان لوگوں نے اپنے رب کے حکم سے سرتابی کی اور اونٹنی کو قتل کردیا نتیجہ میں اللہ نے ان سب لوگوں کو ہلاک کردیا جو اس سرزمین میں مشرق سے مغرب لے کر مغرب تک آسمان کے خیمہ کے نیچے رہتے تھے صرف ایک آدمی بچا جس کو ابو رغال کہا جاتا تھا یہ ہی قبیلۂ ثقیف کا مورث اعلیٰ تھا یہ اس وقت حرم کے اندر تھا اور حرم میں ہونے کی وجہ سے اللہ کے عذاب سے بچ گیا لیکن جب حرم سے باہر نکلا تو اس پر بھی وہی عذاب آیا جو دوسروں پر آیا تھا اور وہیں دفن ہوگیا دفن ہونے کے وقت اس کے پاس سونے کی ایک سلاخ بھی تھی جو اسی کے ساتھ زمین میں دب گئی۔ حضور ﷺ نے صحابہ کو ابو رغال کی قبر بھی دکھائی اور لوگوں نے تلواروں سے (کرید کر) زمین کھود کر سونے کی وہ ڈنڈی برآمد کرلی۔ قوم ثمود میں سے جو لوگ حضرت صالح پر ایمان لائے تھے ان کی تعداد چار ہزار تھی۔ حضرت صالح ان لوگوں کو لے کر حضرموت چلے گئے۔ حضرموت میں پہنچ کر آپ کی وفات ہوگئی اسی لئے اس بستی کا نام حضرموتہو گیا پھر ان لوگوں نے ایک بستی بسائی جس کا نام حاصورا ہوا۔ بعض علماء روایت کا قول ہے کہ حضرت صالح کی وفات مکہ میں ہوئی وفات کے وقت آپ کی عمر 58 سال کی تھی آپ صرف بیس سال اپنی قوم میں رہے تھے۔
Top