Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Baghwi - Al-A'raaf : 79
فَتَوَلّٰى عَنْهُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَكُمْ وَ لٰكِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِیْنَ
فَتَوَلّٰى
: پھر منہ پھیرا
عَنْهُمْ
: ان سے
وَقَالَ
: اور کہا
يٰقَوْمِ
: اے میری قوم
لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ
: تحقیق میں تمہیں پہنچا دیا
رِسَالَةَ
: پیغام
رَبِّيْ
: اپنا رب
وَنَصَحْتُ
: اور خیر خواہی کی
لَكُمْ
: تمہاری
وَلٰكِنْ
: اور لیکن
لَّا تُحِبُّوْنَ
: تم پسند نہیں کرتے
النّٰصِحِيْنَ
: خیر خواہ (جمع)
پھر صالح ان سے نامید ہو کر پھرے اور کہا اے میری قوم میں نے تم کو خدا کا پیغام پہنچادیا اور تمہاری خیر خواہی کی اور تم ایسے ہو خیرخواہوں کو دوست نہیں رکھتے۔
(79) حضرت صالح (علیہ السلام) نے ان سے اعراض کیا (فتولی عنھم وقال یقوم لقد ابلغتکم رسالۃ ربی ونصحت لکم ولکن لاتحبون النصحین) اگر یہ اعتراض ہو کہ صالح (علیہ السلام) نے ان کے ہلاک ہونے کے بعد ان کو کیسے خطاب کیا ؟ ان الفاظ سے لقد ابلغتکم رسالۃ ربی ونصحت لکم تو جواب یہ ہے کہ جس طرح نبی کریم ﷺ نے غزوہ بدر کے مقتولین میں سے ہر ایک کا نام لے کر آاز دی تھی اور ان کو کہا تھا کہ ہم نے اپنے رب کے وعدہ کو حق پایا۔ کیا تم نے بھی اپنے رب کے وعدہ کو حق پایا ؟ تو حضرت عمر ؓ نے کہا اے اللہ کے رسول ! آپ ان جسموں سے کیا بات کر رہے ہیں جن میں کوئی روح ہی نہیں ہے تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے تم میری بات کو ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو لیکن یہ جواب نہیں دے سکتے۔ (رواہ النسائی) بعض نے یہ جواب دیا ہے کہ صالح (علیہ السلام) نے ان مردہ لوگوں کو خطاب کیا تاکہ پیچھے رہ جانے والوں کے لئے عبرت بنے۔ بعض نے یہ جواب دیا ہے کہ آیت میں تقدیم و تاخیر ہے۔ اصل یہ ہے کہ ” صالح (علیہ السلام) نے ان سے اعراض کیا اور کہا کہ میں اپنے رب کا پیغام تم کو پہنچا چکا تو ان کو زلزلہ نے آپکڑا۔ “ ثمود کا واقعہ قوم ثمود کا واقعہ محمد بن اسحاق اور وہب وغیرہ نے یہ ذکر کیا ہے کہ قوم عاد جب ہلاک ہوگئی اور ان کا معاملہ ختم ہوگیا تو ثمود ان کے بعد زمین میں ان کی خلیفہ بنی تو ان کی تعداد بہت ہوگئی اور لمبی عمریں ہوئیں یہاں تک کہ وہ مٹی کے مکان بنتاے تو وہ ان کی زندگی میں منہدم ہوجاتے تو انہوںں نے پہاڑوں میں گھر بنانا شروع کردیئے اور ان لوگوں کی معاش وسیع تھی تو انہوں نے زمین میں فساد برپا کیا اور غیر اللہ کی عبادت کی تو اللہ تعالیٰ نے ان میں صالح (علیہ السلام) کو نبی بنا کر بھیجا۔ یہ عرب قوم تھی صالح (علیہ السلام) اچھے حسب و نسب والے تھے۔ صالح (علیہ السلام) جو انی کے زمانہ میں نبی بنا کر بھیجے گئے اور ان کو اللہ کی طرف بلاتے رہے یہاں تک کہ بالکل بوڑھے ہوگئے لیکن صرف چند غریب لوگوں نے آپ (علیہ السلام) کی اتباع کی۔ جب صالح (علیہ السلام) نے ان پر تبلیغ میں خوب محنت کی اور ان کو بہت زیادہ ڈرایا تو وہ کہنے لگے کہ ان کو کوئی نشانی دکھائیں جو آپ (علیہ السلام) نے ان پر تبلیغ میں خوب محنت کی اور ان کو بہت زیادہ ڈرایا تو وہ کہنے لگے کہ ان کو کوئی نشانی دکھائیں جو آپ (علیہ السلام) کے سچا وہنے کی دلیل ہو تو آپ (علیہ السلام) نے پوچھا کون سی نشانی چاہتے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ آپ ہماری عید کی طرف نلکیں۔ ان کی عید سال میں ایک بار آتی تھی جس میں یہ اپنے بتوں کی طرف جاتے تھے تو آپ ہمارے ساتھ چلیں۔ آپ اپنے معبود کو بلائیں ۔ اگر آپ (علیہ السلام) کی دعا قبول ہوئی ہم آپ کی اتباع کریں گے اور اگر ہماری دعا قبول ہئی تو آپ ہماری اتباع کرنا۔ صالح (علیہ السلام) نے فرمایا ٹھیک ہے تو وہ اپنے بت لے کر عید کے دن نکلے اور صالح (علیہ السلام) بھی ان کے ساتھ تھے تو انہوں نے اپنے بتوں سے دعا کی کہ صالح (علیہ السلام) کی کوئی دعا قبول نہ ہو۔ پھر ثمود کا سردار جندع بن عمرو بن حراش کہنے لگے اے صالح ! (علیہ السلام) ہمارے لئے اس چٹان سے ایک اونٹنی نکال جو بہت پشم والی ہو جو دس ماہ کی حاملہ ہو، بڑے پیٹ والی ہو، بختی اونٹ کے مشابہ نہ ہو اور اس نے پہاڑ کی ایک الگ چٹان کی طرف اشارہ کیا کہ اس سے نکالیں۔ اگر آپ نے ایسا کردیا تو ہم آپ کی تصدیق کریں گے اور آپ پر ایمان لائیں گے۔ صالح (علیہ السلام) نے ان سے پختہ عہد لئے کہ اگر میں نے ایسا کردیا تو مجھ پر ایما نلے آئو تو وہ کہنے لگے جی ہاں تو صالح (علیہ السلام) نے دو رکعت نماز پڑھی اور اللہ تعالیٰ سے دعا ماگنی تو وہ چٹان حاملہ جانور کی طرح آواز نکالنے لگی ار پھر اس کے ایک حصہ نے حرکت کی اور اس سے دس ماہ کی حاملہ اونٹنی بڑے پیٹ والی بہت زیادہ پشم والی جیسی انہوں نے مانگی تھی آگئی اس کے دونوں پہلوئوں کے درمیان کا فاصلہ اللہ تعالیٰ ہی خوب جانتے ہیں یہ سارا منظر ان کی آنکھوں کے سامنے ہوا۔ پھر اس کا بچہ پیدا ہوا جو اسی کی طرح بڑا تھا تو جندع بن عمرو اور اس کی قوم کے چند لوگ ایمان لے آئے ار قوم ثمود کے معزز لوگ بھی ایمان لانا چاہتے تھے مگر ان کو ذواب بن عمر بن لبید اور حباب جوان کے بتوں کے پجاری تھے اور رباب بن صمغر جو کہ کاہن تھا تو ان لوگوں نے باقی لوگوں کو ایمان لانے سے روک دیا۔ جب اونٹنی نکلی تو صالح (علیہ السلام) نے فرمایا اللہ کی اونٹنی ہے اس کی اور تمہاری پانی پینے کی باری متعین ہے تو اوہ اونٹنی اور اس کا بچہ قوم ثمود میں ٹھہر گئے، درختوں سے چرتی اور پانی پیتی، وہ ایک دن کے وقفہ سے پانی پینے آتی اور اپنی باری کے دن اپنا سر کنوئیں میں ڈالتی اور سارا پانی پی جاتی ایک قطرہ پانی بھی نہ بچاتی۔ پھر سر اٹھاتی اور ٹانگیں کشادہ کرلیتی، پھر وہ لوگ جتنا چاہتے دودھ نکالتے خود بھی پیتے برتن بھی بھر لیتے پھر وہ جس راستہ سے آئی ہوتی اس کے علاو ہ راستے سے چلی جاتی۔ جب قوم ثمود کی پانی کی باری آتی تو وہ جتنا چاہتے پانی پیتے اور اونٹنی کی باری کے دن کے لئے بھی ذخیرہ کرلیتے۔ یہ اونٹنی سائے کیلئے جہاں جاتی وہاں سے پالتو جانور بھاگ جاتے تو ان کے چرواہوں کو یہ بات تکلیف دیتی تھی تو انہوں نے اللہ کے حکم سے سرکشی کی اور اونٹنی کی ٹانگیں کاٹنے پر تیار ہوگئے۔ قوم ثمود میں دو عوتریں تھیں۔ ایک ذواب بن عمر کی بیوی اس کا نام عنیزہ بنت غنم بن مجلز تھا، کنیت ام غنم تھی ۔ یہ بوڑھی عورت تھی لیکن اس کی بیٹیاں بہت خوبصورت تھیں اور اس کے پاس مال اور مویشیوں کی فراوانی تھی اور دوسری عورت کا نام صدوف بن مخیا تھا یہ بہت خوبصورت عورت تھی اور بڑی مالدار اور اس کے پاس مویشی بہت زیادہ تھے۔ ان دو عورتوں کو صالح سے بہت زیادہ دشمنی تھی اور اونٹنی کی ٹانگیں کاٹنا ان کو بڑا پسند تھا کیونکہ وہ ان کے جانوروں کو نقصان پہنچا رہی تھی تو ان دونوں نے ایک تدبیر نکالی کہ صدوف نے ثمود کے ایک آدمی حباب کو بلایا کہ تو اونٹنی کی ٹانگیں کاٹ دے تو میں تیری ہو جائوں گی۔ اس نے انکار کردیا تو اس نے اپنے چچا زاد بھائی کو بلایا جس کا نام مصدع بن مھرج بن محیا تھا۔ یہ بڑا خوبصورت اور صاحب مال شخص تھا۔ اس پر اپنا آپ پیش کیا تو یہ اونٹنی کی ٹانگیں کاٹنے پر آمادہ ہوگیا اور عنیزہ بنت غنم نے قدر بن سالف کو بلایا یہ سرخ رنگ نیلی آنکھوں والا چھوٹے قد کا شخص تھا۔ لوگوں کا گمان تھا کہ قدار کسی زانی کی اولاد تھا، سالف کی اولاد نہ تھا لیکن اس کی بیوی سے پیدا ہوا ہے تو عنیزہ نے کہا کہ اگر تو اونٹنی کی ٹانگیں کاٹ دے تو میری جو بیٹی تو چاہے تجھے دے دوں گی۔ یہ قدرار اپنی قوم میں غالب شخص تھا۔ ہشام نے اپنے والد سے نقل کیا کہ ان کو عبد اللہ بن زمعتہ ؓ نے خبر دی کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے سنا کہ آپ (علیہ السلام) نے صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی اور اس کی ٹانگیں کاٹنے الے کے بارے میں فرمایا کہ ” اذا نبعث اشقاھا “ کہ اس کام کے لئے قوم ثمود میں سے قوت اور غلبہ والا شخص کھڑا ہوا جو ابو زرمعتہ ؓ کی مثل تھا تو قدار بن سالف اور مصدع بن مھرج چل پڑے اور قوم ثمود کے گمراہ لوگوں کو بھی اپنے ساتھ ملایا تو سات آدمی ان میں سے بھی چل پڑے، وہ اونٹنی جب پانی پر آنے لگی تو قدار اس کے راستے میں چٹان کے پیچھے گھات لگا کر بیٹھ گیا اور مصدع دوسرے راستے میں گھات لگا کر بیٹھ گیا تو وہ اونٹنی مصدع والے رسات ی سے گزری تو اس نے تیر مارا جو اس کی پنڈلی کے جوڑ میں لگا۔ اتنے میں ام غنم عنیزہ اپنی بیٹی کے ساتھ آگئی اور اس کو کہا کہ قدار کے سامنے چہرہ کھول دے۔ یہ لڑکی عورتوں میں سب سے زیادہ خوبصورت تھی تو قدار نے یہ دیکھتے ہی اونٹنی پر تولار سے سخت حملہ کیا جسے وہ گرگئی اور ایک آواز لگائی جس سے اپنے بچہ کو ڈرا رہی تھی پھر دوسرا وار اس کی گردن پر کر کے اس کو نحر کردیا اور سارے شہر والے نکل آئے اور اس کا گوشت تقسیم کر کے پکا لیا۔ اونٹنی کے بچہ نے جب یہ منظر دیکھا تو وہ بھاگ گیا اور ایک پہاڑ کے پاس آیا جس کو صنو کہا جاتا تھا اور بعض نے کہا پہاڑ کا نام قارۃ تھا اور صالح (علیہ السلام) آئے تو لوگوں نے بتایا کہ اونٹنی کو مار دیا گیا ہے تو آپ (علیہ السلام) وہاں پہنچے تو دیکھا کہ لوگ اس کا گوشت لے رہے ہیں اور عذر کرنے لگے اے اللہ کے نبی اس کو فلاں نے قتل کیا ہے، ہمارا کوئی گناہ نہیں تو صالح (علیہ السلام) نے فرمایا تم اس کے بچہ کو تلاش کرو، اگر وہ مل گیا تو شاید اللہ تعالیٰ تم سے عذاب کو دور کردیں تو لوگ اس بچہ کو تلاش کرنے نکل پڑے جب اس کو پہاڑ پر دیکھا تو اس کو پکڑنے کے لئے دوڑے تو اللہ تعالیٰ نے پہاڑ کو حکم دیا تو وہ اس بچہ کو لے کر آسمان کی طرف اتنا بلند ہوگیا کہ وہاں تک پر نے بھی نہ پہنچ سکتے تھے تو صالح (علیہ السلام) بھی وہاں پہنچ گئے۔ جب اس بچہ نے صالح (علیہ السلام) کو دیکھا تو رونے لگا اور اس کے آنسو بہنے لگے پھر اس نے تین دفعہ آواز نکالی، پھر پہاڑ پھٹا اور وہ اس میں چلا گیا۔ حضرت صالح (علیہ السلام) فرمانے لگے کہ ہر آواز ایک دن کی مہلت ہے تو تم اپنے گھروں میں تین دن تک نفع اٹھا لو یہ وعدہ جھوٹا نہیں ہے۔ یہ ان لوگوں نے ہفتے کے ایام کے نام رکھے ہوئے تھے اتوار کا اول، سوموار کا اھون، منگل کا دبار، بدھ کا جبار، جمعرات کا مئونس، جمعہ کا عروبہ اور ہفتے کا نام شبا رکھا ہوا تھا۔ انہوں نے اونٹنی کو بدھ کے دن قتل کیا تو صالح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ جمعرات کی صبح تمہارے چہرے زرد ہوں گے اور عروبہ یعنی جمعہ کی صبح سرخ ہوں گے اور شبار یعنی ہفتے کی صبح سیاہ ہوں گے۔ پھر اتوار کے دن تمہارے پاس عذاب آئے گا۔ جب صالح (علیہ السلام) نے یہ بات کہی تو وہ نو افراد جنہوں نے اونٹنی کو قتل کیا تھا کہنے لگے آئو صالح (علیہ السلام) کو بھی قتل کردیں۔ اگر یہ سچے ہیں تو ان کو ہم اپنے سے پہلے بھیج دیتے ہیں اور اگر جھوٹے ہیں تو ان کو ان کی اونٹنی کے پاس بھیج دیتے ہیں۔ یہ لوگ رات کو صالح (علیہ السلام) کو قتل کرنے گئے کہ ان کو قتل کر کے رات سکون سے اپنے گھر گزاریں گے تو فرشتوں نے ان کو پتھروں سے کچل دیا وہ اپنے ساتھیوں کے پاس نہ پہنچے تو انہوں نے آ کر دیکھا کہ ان کے سر کچلے پڑے ہیں تو صالح (علیہ السلام) کو قتل کرنے گئے کہ ان کو قتل کر کے رات سکون سے اپنے گھر گزاریں گے تو فرشتوں نے ان کو پتھروں سے کچل دیا وہ اپنے ساتھیوں کے پاس نہ پہنچے تو انہوں نے آ کر دیکھا کہ ان کے سر کچلے پڑے ہیں تو صالح (علیہ السلام) کو کہنے لگے کہ آپ نے ان کو قتل کیا ہے تو صالح (علیہ السلام) کو قتل کرنے لگے تو آپ (علیہ السلام) کا قبیلہ ہتھیار لے کر آپ (علیہ السلام) کے دفاع کے لئے آگیا اور ان کو کہا کہ اللہ کی قسم تم ان کو کبھی قتل نہ کرسکو گے، انہوں نے تم سے وعدہ کیا ہے کہ تین دن میں تم پر عذاب آئے گا ۔ اگر یہ سچے ہیں تو ان کو قتل کر کے تم اپنے رب کو مزید ناراض کر دو گے اور اگر یہ جھوٹے ہیں تو اپنا مقصد پورا کرلینا تو وہ چلے گئے تو جب جمعرات کی صبح آئی تو ان سب کے چہرے زرد ہوگئے، چھوٹے بڑے مرد و عورت سب کے۔ ایسا لگتا تھا کہ خلوف بوٹی ان پر مل دی گئی ہے تو اس وقت ان کو عذاب اور صالح (علیہ السلام) کے سچا ہونے کا یقین ہوگیا تو صالح (علیہ السلام) کو قتل کرنے کے لئے تلاش کرنے لگے، صالح (علیہ السلام) اس جگہ سے چلے گئے اور ثمود کی ایک شا خ بنو غنم کے پاس آگئے اور ان کے سردار نفل جس کی کنیت ابوھدب تھی کے مہمان ہوئے اس نے آپ (علیہ السلام) کو چھپا دیا۔ وہ آپ (علیہ السلام) کے قتل پر قادر نہ ہو سکے۔ یہ شخص مشرک تھا وہ حضرت صالح (علیہ السلام) کے ساتھیوں کو تکلیفیں دینے لگے تاکہ وہ آپ (علیہ السلام) کا پتہ بتادیں تو صالح (علیہ السلام) کے ایک ساتھی نے ان سے آ کر پوچھا کہ وہ ہمیں آپ (علیہ السلام) کے بارے میں پوچھنے کے لئے تکلیف دے رہے ہیں، کیا آپ (علیہ السلام) کا پتہ بتادیں تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا ہاں تو انہوں نے بتادیا وہ ابو ھدب کے پاس آئے۔ اس نے کہا ہاں صالح (علیہ السلام) میرے پاس ہیں لیکن تم ان کو کچھ نہیں کہہ سکتے تو یہ لوگ چلے گئے اور پھر ان کو اپنی پڑگئی۔ ایک دوسرے کے چہرے کی زردی دیکھ کر پریشان ہوتے تھے اور چیختے تھے۔ دوسرے دن چہرے سرخ ہوگئے۔ گویا کہ ان کو خون سے رنگ دیا گیا ہے تو رونے اور چیخنے چلانے لگے کہ عذاب کا ایک دن گزر گیا ہے۔ تیسرے دن کی صبح چہرے اتنے ایسے سیاہ ہوگئے جیسے ان پر تارکول چڑھا دیا گیا ہو اب وہ چیخنے لگے کہ عذاب آگیا۔ صالح (علیہ السلام) اپنے مسلمان ساتھیوں کو لے کر شام کی طرف چل پڑے اور ملتہ فلسطین کے علاقہ میں پڑائو ڈالا۔ اتوار کی صبح قوم ثمود نے کفن پہنے خوشبو لگائو اور زمین پر گرگئے اور کبھی آسمان کی طرف دیکھتے اور کبھی زمین کی طرف کہ کس طرف سے عذاب آئے گا جب اتوار کے دن چاشت کا وقت ہوگیا تو آسمان سے ایک چیخ آئی جس میں بجلی وغیرہ کی کڑک اور زمین کی ہر آواز والی چیز کی آاز تھی۔ اس آواز نے ان کے دل پھاڑ دیئے، ان میں سے کوئی چھوٹا یا بڑا زندہ نہ رہا سوائے ایک اپاہج لڑکی کے اس کا نام ذریعہ بنت سالف تھا یہ صالح (علیہ السلام) سے شدید دشمنی رکھنے والی کافرہ تھی۔ اللہ تعالیٰ نے عذاب کے وقت اس کی ٹانگیں ٹھیک کردیں تو یہ بڑی تیزی سے اس جگہ سے اور حجاز اور شام کے درمیان وادی قزح تک پہنچ گئی وہاں کے لوگوں کو بتایا کہ میں نے قوم ثمود کے عذاب کا خود مشاہدہ کیا ہے پھر پانی مانگا، انہوں نے پانی پلایا تو پیتے ہی مرگئی۔ سدی نے قتل ناقہ کے سلسلہ میں بیان کیا ہے کہ اللہ نے حضرت صالح (علیہ السلام) کے پاس کے وحی بھیجی تیری قوم عنقریب اونٹنی کو قتل کر دے گی۔ حضرت نے یوم سے یہی بات کہہ دی قوم والوں نے کہا ہم ہرگز ایسا نہیں کرسکتے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے فرمایا اس مہینہ میں ایک لڑکا پیدا ہوگا اور آئندہ وہ قتل کرے گا اور اسی کے سبب سے تمہاری ہلاکت ہوگی کہنے لگے اس مہینہ میں ہمارا جو رنگ والا بچہ بچ گیا اور اس کا بڑھائو بہت تیزی سے ہوا۔ مقتول بچوں کے باپ جب اس کو دیکھتے تو کہتے ہمارے بچے بھی اگر زندہ ہوتے تو ایسے ہی ہوتے، یہ سوچ سوچ کر ان کو حضرت صالح (علیہ السلام) پر غصہ آیا کہ یہ ہی شخص ہمارے بچوں کے قتل کا سبب ہے۔ پھر انہوں نے قسم کھا کر باہم معاہدہ کرلیا کہ ہم رات کو جا کر اس کو اور اس کے گھر والوں کو ضرور مار ڈالیں گے۔ پھر مشورہ ہوا کہ ہم کو بستی سے نکل جانا چاہیے لوگ ہم کو جاتے دیکھ کر خیال کریں گے کہ ہم سفر کو جا رہے ہیں۔ ہم باہر جا کر کہیں غار میں چھپ جائیں گے اور صالح جس وقت (رات کو) مسجد کو جائیں گے ہم آ کر ان کو قتل کردیں گے۔ پھر لوٹ کر غار میں چلے جائیں گے پھر (صبح کو) گھروں کو واپس آجائیں گے اور کہیں گے ہم تو قتل کے وقت موجود بھی نہ تھے لوگ ہم کو سچا سمجھیں گے۔ کیونکہ ان کا تو یہی خیال ہوگا کہ ہم سفر کو گئے ہوئے تھے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کے ساتھ بستی میں نہیں سوتے تھے بلکہ اپنی مسجد میں جس کو مسجد صالح کہا جاتا تھا جا کر رات گزارتے تھے اور صبح کو آ کر لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے تھے شام ہوتی تو پھر مسجد کو جا کر رات کو وہیں رہتے غرض وہ لوگ جن کے بچے قتل ہوئے تھے۔ بستی سے باہر جا کر ایک غار میں گھس گئے اور اللہ کے حکم سے غار ان پر گرپڑا اور سب مرگئے۔ اسی کو اللہ نے فرمایا ہے فمکروا مکرا و مکرنا مکر اوہم لایشعرون کچھ لوگ جو اس بات سے واقف تھے نکل کر گئے جا کر دیکھا کہ سب لوگ کچلے پڑے ہیں۔ انہوں نے بستی میں آ کر شور مچا دیا اللہ کے بندو ! صالح نے بچوں کے قتل پر ہی بس نہیں کیا۔ بلکہ ان لوگوں کو بھی مار ڈالا یہ سن کر بستی والے اونٹنی کو قتل کرنے پر متفق ہوگئے۔ ابن اسحاق نے کہا اونٹنی کو قتل کرنے کے بعد ان نو آدمیوں نے شب خون مار کر حضرت صالح کو قتل کرنے کا معاہدہ کیا تھا۔ یعنی قتل ناقہ کا واقعہ حضرت صالح کو قتل کرنے کے معاہدہ سے پہلے ہوچکا تھا۔ سدی وغیرہ کا بیان ہے دسواں بچہ قذار جب قتل ہونے سے بچ گیا تو تیزی سے بڑھنے لگا ایک دن میں اتنا بڑھ جاتا جتنا دوسرے بچے ایک ہفتہ میں بڑھتے ہیں اور ایک ماہ میں اتنا بڑھ جاتا دوسرے بچے ایک سال میں بڑھتے ہیں جب بڑا ہوگیا تو لوگوں کے ساتھ ایک روز شراب پینے بیٹھا اور شراب بنانے کے لئے پانی کی ضرورت ہوئی اور چونکہ وہ دن اونٹنی کے پانی پینے کا تھا۔ اس لئے پانی کا نہیں ملا۔ یہ بات ان لوگوں کو بہت کھلی اور کہنعے لگے ہم دودھ کا کیا کریں ہمیں تو اس پانی کی ضرورت ہے جو یہ اونٹنی پی جاتی ہے تاکہ مویشیوں کو پلائیں اور کھیتیاں سینچیں۔ قذار بولا کیا میں تمہارے لئے اس اونٹنی کو قتل کر دوں۔ اہل مجلس نے کہا ہاں ! چناچہ سب نے اونٹنی کو قتل کردیا۔ ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے غزوہ تبوک کے سفر میں مقام حجر پر پڑائو ڈالا تو حکم دیا کہ اس کنوئیں سے کوئی پانی نہ پئے اور نہ جانوروں کو پلائیں تو صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کہ ہم نے اس پانی سے آٹا گوندھا ہے اور مشکینروں میں پانی بھرا ہے تو آپ (علیہ السلام) نے حکم دیا کہ وہ آٹا پھینک دو اور وہ پانی گرا دو ۔ ابو الزبیر نے حضرت جابر ؓ کا قول نقل کیا کہ جب غزوہ تبوک میں رسول اللہ ﷺ کا گزر حجر سے ہوا تو صحابہ کو حکم دیا تم میں سے کوئی اس (ویران) بستی میں نہ جاتے نہ ان کا پانی پیو ان عذاب یافتہ لوگوں کی طرف سے گزرو تو روتے ہوئے ڈرتے ڈرتے کہیں تم پر بھی وہی عذاب نہ آجائے جو ان پر آیا تھا پھر فرمایا تم اپنے رسول سے معجزات نہ طلب کرو۔ یہ صالح کی قوم تھی جس نے اپنے رسلو سے معجز طلب کیا تھا تو اللہ نے ایک اونٹنی برآمد کردی جو اس پہاڑی راستہ سے پانی پر جاتی اور (پانی پی کر) اس راستہ سے واپس آتی تھی اور اپنی لوگوں کو ہلاک کردیا جو اس سر زمین میں مشرق سے مغرب لے کر مغرب تک آسمان کے خیمہ کے نیچے رہتے تھے صرف ایک آدمی بچا جس کو ابو رغال کہا جاتا تھا یہ قبیلہ ثقیف کا مورث اعلیٰ تھا یہ اس وقت جرم کے اندر تھا اور حرم میں ہونے کی وجہ سے اللہ کے عذاب سے بچ گیا لیکن جب حرم سے باہر نکلا تو اس پر بھی وہی عذاب آیا جو دوسروں پر آیا تھا اور وہیں دفن ہوگیا۔ دفن ہونے کے وقت اس کے پاس سونے کی ایک سلاخ بھی تھی جو اسی کے ساتھ زمین میں دب گئی۔ حضور ﷺ نے صحابہ کو ابو رغال کی قبر بھی دکھائی اور لوگوں نے تلواروں سے (کرید کر) زمین کھود کر سونے کی وہ ڈنڈی برآمد کرلی۔ قوم ثمود میں سے جو لوگ حضرت صالح پر ایمان لائے تھے ان کی تعداد چار ہزار تھی۔ حضرت صالح ان لوگوں کو لے کر حضرت موت چلے گئے۔ حضر ت موت میں پہنچ کر آپ کی وفات ہوگئی۔ اسی لئے اس بستی کا نام حضرت موت ہوگیا پھر ان لوگوں نے ایک بستی بسائی جس کا نام حاصورا ہوا۔ بعض علماء روایت کا قول ہے کہ حضرت صالح کی وفات مکہ میں ہوئی۔ وفات کے وقت آپ کی عمر 58 سال کی تھی آپ صرف بیس سال اپنی قوم میں رہے تھے۔
Top