Tafseer-e-Baghwi - Al-A'raaf : 79
فَتَوَلّٰى عَنْهُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَكُمْ وَ لٰكِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِیْنَ
فَتَوَلّٰى : پھر منہ پھیرا عَنْهُمْ : ان سے وَقَالَ : اور کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ : تحقیق میں تمہیں پہنچا دیا رِسَالَةَ : پیغام رَبِّيْ : اپنا رب وَنَصَحْتُ : اور خیر خواہی کی لَكُمْ : تمہاری وَلٰكِنْ : اور لیکن لَّا تُحِبُّوْنَ : تم پسند نہیں کرتے النّٰصِحِيْنَ : خیر خواہ (جمع)
پھر صالح ان سے نامید ہو کر پھرے اور کہا اے میری قوم میں نے تم کو خدا کا پیغام پہنچادیا اور تمہاری خیر خواہی کی اور تم ایسے ہو خیرخواہوں کو دوست نہیں رکھتے۔
(79) حضرت صالح (علیہ السلام) نے ان سے اعراض کیا (فتولی عنھم وقال یقوم لقد ابلغتکم رسالۃ ربی ونصحت لکم ولکن لاتحبون النصحین) اگر یہ اعتراض ہو کہ صالح (علیہ السلام) نے ان کے ہلاک ہونے کے بعد ان کو کیسے خطاب کیا ؟ ان الفاظ سے لقد ابلغتکم رسالۃ ربی ونصحت لکم تو جواب یہ ہے کہ جس طرح نبی کریم ﷺ نے غزوہ بدر کے مقتولین میں سے ہر ایک کا نام لے کر آاز دی تھی اور ان کو کہا تھا کہ ہم نے اپنے رب کے وعدہ کو حق پایا۔ کیا تم نے بھی اپنے رب کے وعدہ کو حق پایا ؟ تو حضرت عمر ؓ نے کہا اے اللہ کے رسول ! آپ ان جسموں سے کیا بات کر رہے ہیں جن میں کوئی روح ہی نہیں ہے تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے تم میری بات کو ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو لیکن یہ جواب نہیں دے سکتے۔ (رواہ النسائی) بعض نے یہ جواب دیا ہے کہ صالح (علیہ السلام) نے ان مردہ لوگوں کو خطاب کیا تاکہ پیچھے رہ جانے والوں کے لئے عبرت بنے۔ بعض نے یہ جواب دیا ہے کہ آیت میں تقدیم و تاخیر ہے۔ اصل یہ ہے کہ ” صالح (علیہ السلام) نے ان سے اعراض کیا اور کہا کہ میں اپنے رب کا پیغام تم کو پہنچا چکا تو ان کو زلزلہ نے آپکڑا۔ “ ثمود کا واقعہ قوم ثمود کا واقعہ محمد بن اسحاق اور وہب وغیرہ نے یہ ذکر کیا ہے کہ قوم عاد جب ہلاک ہوگئی اور ان کا معاملہ ختم ہوگیا تو ثمود ان کے بعد زمین میں ان کی خلیفہ بنی تو ان کی تعداد بہت ہوگئی اور لمبی عمریں ہوئیں یہاں تک کہ وہ مٹی کے مکان بنتاے تو وہ ان کی زندگی میں منہدم ہوجاتے تو انہوںں نے پہاڑوں میں گھر بنانا شروع کردیئے اور ان لوگوں کی معاش وسیع تھی تو انہوں نے زمین میں فساد برپا کیا اور غیر اللہ کی عبادت کی تو اللہ تعالیٰ نے ان میں صالح (علیہ السلام) کو نبی بنا کر بھیجا۔ یہ عرب قوم تھی صالح (علیہ السلام) اچھے حسب و نسب والے تھے۔ صالح (علیہ السلام) جو انی کے زمانہ میں نبی بنا کر بھیجے گئے اور ان کو اللہ کی طرف بلاتے رہے یہاں تک کہ بالکل بوڑھے ہوگئے لیکن صرف چند غریب لوگوں نے آپ (علیہ السلام) کی اتباع کی۔ جب صالح (علیہ السلام) نے ان پر تبلیغ میں خوب محنت کی اور ان کو بہت زیادہ ڈرایا تو وہ کہنے لگے کہ ان کو کوئی نشانی دکھائیں جو آپ (علیہ السلام) نے ان پر تبلیغ میں خوب محنت کی اور ان کو بہت زیادہ ڈرایا تو وہ کہنے لگے کہ ان کو کوئی نشانی دکھائیں جو آپ (علیہ السلام) کے سچا وہنے کی دلیل ہو تو آپ (علیہ السلام) نے پوچھا کون سی نشانی چاہتے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ آپ ہماری عید کی طرف نلکیں۔ ان کی عید سال میں ایک بار آتی تھی جس میں یہ اپنے بتوں کی طرف جاتے تھے تو آپ ہمارے ساتھ چلیں۔ آپ اپنے معبود کو بلائیں ۔ اگر آپ (علیہ السلام) کی دعا قبول ہوئی ہم آپ کی اتباع کریں گے اور اگر ہماری دعا قبول ہئی تو آپ ہماری اتباع کرنا۔ صالح (علیہ السلام) نے فرمایا ٹھیک ہے تو وہ اپنے بت لے کر عید کے دن نکلے اور صالح (علیہ السلام) بھی ان کے ساتھ تھے تو انہوں نے اپنے بتوں سے دعا کی کہ صالح (علیہ السلام) کی کوئی دعا قبول نہ ہو۔ پھر ثمود کا سردار جندع بن عمرو بن حراش کہنے لگے اے صالح ! (علیہ السلام) ہمارے لئے اس چٹان سے ایک اونٹنی نکال جو بہت پشم والی ہو جو دس ماہ کی حاملہ ہو، بڑے پیٹ والی ہو، بختی اونٹ کے مشابہ نہ ہو اور اس نے پہاڑ کی ایک الگ چٹان کی طرف اشارہ کیا کہ اس سے نکالیں۔ اگر آپ نے ایسا کردیا تو ہم آپ کی تصدیق کریں گے اور آپ پر ایمان لائیں گے۔ صالح (علیہ السلام) نے ان سے پختہ عہد لئے کہ اگر میں نے ایسا کردیا تو مجھ پر ایما نلے آئو تو وہ کہنے لگے جی ہاں تو صالح (علیہ السلام) نے دو رکعت نماز پڑھی اور اللہ تعالیٰ سے دعا ماگنی تو وہ چٹان حاملہ جانور کی طرح آواز نکالنے لگی ار پھر اس کے ایک حصہ نے حرکت کی اور اس سے دس ماہ کی حاملہ اونٹنی بڑے پیٹ والی بہت زیادہ پشم والی جیسی انہوں نے مانگی تھی آگئی اس کے دونوں پہلوئوں کے درمیان کا فاصلہ اللہ تعالیٰ ہی خوب جانتے ہیں یہ سارا منظر ان کی آنکھوں کے سامنے ہوا۔ پھر اس کا بچہ پیدا ہوا جو اسی کی طرح بڑا تھا تو جندع بن عمرو اور اس کی قوم کے چند لوگ ایمان لے آئے ار قوم ثمود کے معزز لوگ بھی ایمان لانا چاہتے تھے مگر ان کو ذواب بن عمر بن لبید اور حباب جوان کے بتوں کے پجاری تھے اور رباب بن صمغر جو کہ کاہن تھا تو ان لوگوں نے باقی لوگوں کو ایمان لانے سے روک دیا۔ جب اونٹنی نکلی تو صالح (علیہ السلام) نے فرمایا اللہ کی اونٹنی ہے اس کی اور تمہاری پانی پینے کی باری متعین ہے تو اوہ اونٹنی اور اس کا بچہ قوم ثمود میں ٹھہر گئے، درختوں سے چرتی اور پانی پیتی، وہ ایک دن کے وقفہ سے پانی پینے آتی اور اپنی باری کے دن اپنا سر کنوئیں میں ڈالتی اور سارا پانی پی جاتی ایک قطرہ پانی بھی نہ بچاتی۔ پھر سر اٹھاتی اور ٹانگیں کشادہ کرلیتی، پھر وہ لوگ جتنا چاہتے دودھ نکالتے خود بھی پیتے برتن بھی بھر لیتے پھر وہ جس راستہ سے آئی ہوتی اس کے علاو ہ راستے سے چلی جاتی۔ جب قوم ثمود کی پانی کی باری آتی تو وہ جتنا چاہتے پانی پیتے اور اونٹنی کی باری کے دن کے لئے بھی ذخیرہ کرلیتے۔ یہ اونٹنی سائے کیلئے جہاں جاتی وہاں سے پالتو جانور بھاگ جاتے تو ان کے چرواہوں کو یہ بات تکلیف دیتی تھی تو انہوں نے اللہ کے حکم سے سرکشی کی اور اونٹنی کی ٹانگیں کاٹنے پر تیار ہوگئے۔ قوم ثمود میں دو عوتریں تھیں۔ ایک ذواب بن عمر کی بیوی اس کا نام عنیزہ بنت غنم بن مجلز تھا، کنیت ام غنم تھی ۔ یہ بوڑھی عورت تھی لیکن اس کی بیٹیاں بہت خوبصورت تھیں اور اس کے پاس مال اور مویشیوں کی فراوانی تھی اور دوسری عورت کا نام صدوف بن مخیا تھا یہ بہت خوبصورت عورت تھی اور بڑی مالدار اور اس کے پاس مویشی بہت زیادہ تھے۔ ان دو عورتوں کو صالح سے بہت زیادہ دشمنی تھی اور اونٹنی کی ٹانگیں کاٹنا ان کو بڑا پسند تھا کیونکہ وہ ان کے جانوروں کو نقصان پہنچا رہی تھی تو ان دونوں نے ایک تدبیر نکالی کہ صدوف نے ثمود کے ایک آدمی حباب کو بلایا کہ تو اونٹنی کی ٹانگیں کاٹ دے تو میں تیری ہو جائوں گی۔ اس نے انکار کردیا تو اس نے اپنے چچا زاد بھائی کو بلایا جس کا نام مصدع بن مھرج بن محیا تھا۔ یہ بڑا خوبصورت اور صاحب مال شخص تھا۔ اس پر اپنا آپ پیش کیا تو یہ اونٹنی کی ٹانگیں کاٹنے پر آمادہ ہوگیا اور عنیزہ بنت غنم نے قدر بن سالف کو بلایا یہ سرخ رنگ نیلی آنکھوں والا چھوٹے قد کا شخص تھا۔ لوگوں کا گمان تھا کہ قدار کسی زانی کی اولاد تھا، سالف کی اولاد نہ تھا لیکن اس کی بیوی سے پیدا ہوا ہے تو عنیزہ نے کہا کہ اگر تو اونٹنی کی ٹانگیں کاٹ دے تو میری جو بیٹی تو چاہے تجھے دے دوں گی۔ یہ قدرار اپنی قوم میں غالب شخص تھا۔ ہشام نے اپنے والد سے نقل کیا کہ ان کو عبد اللہ بن زمعتہ ؓ نے خبر دی کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے سنا کہ آپ (علیہ السلام) نے صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی اور اس کی ٹانگیں کاٹنے الے کے بارے میں فرمایا کہ ” اذا نبعث اشقاھا “ کہ اس کام کے لئے قوم ثمود میں سے قوت اور غلبہ والا شخص کھڑا ہوا جو ابو زرمعتہ ؓ کی مثل تھا تو قدار بن سالف اور مصدع بن مھرج چل پڑے اور قوم ثمود کے گمراہ لوگوں کو بھی اپنے ساتھ ملایا تو سات آدمی ان میں سے بھی چل پڑے، وہ اونٹنی جب پانی پر آنے لگی تو قدار اس کے راستے میں چٹان کے پیچھے گھات لگا کر بیٹھ گیا اور مصدع دوسرے راستے میں گھات لگا کر بیٹھ گیا تو وہ اونٹنی مصدع والے رسات ی سے گزری تو اس نے تیر مارا جو اس کی پنڈلی کے جوڑ میں لگا۔ اتنے میں ام غنم عنیزہ اپنی بیٹی کے ساتھ آگئی اور اس کو کہا کہ قدار کے سامنے چہرہ کھول دے۔ یہ لڑکی عورتوں میں سب سے زیادہ خوبصورت تھی تو قدار نے یہ دیکھتے ہی اونٹنی پر تولار سے سخت حملہ کیا جسے وہ گرگئی اور ایک آواز لگائی جس سے اپنے بچہ کو ڈرا رہی تھی پھر دوسرا وار اس کی گردن پر کر کے اس کو نحر کردیا اور سارے شہر والے نکل آئے اور اس کا گوشت تقسیم کر کے پکا لیا۔ اونٹنی کے بچہ نے جب یہ منظر دیکھا تو وہ بھاگ گیا اور ایک پہاڑ کے پاس آیا جس کو صنو کہا جاتا تھا اور بعض نے کہا پہاڑ کا نام قارۃ تھا اور صالح (علیہ السلام) آئے تو لوگوں نے بتایا کہ اونٹنی کو مار دیا گیا ہے تو آپ (علیہ السلام) وہاں پہنچے تو دیکھا کہ لوگ اس کا گوشت لے رہے ہیں اور عذر کرنے لگے اے اللہ کے نبی اس کو فلاں نے قتل کیا ہے، ہمارا کوئی گناہ نہیں تو صالح (علیہ السلام) نے فرمایا تم اس کے بچہ کو تلاش کرو، اگر وہ مل گیا تو شاید اللہ تعالیٰ تم سے عذاب کو دور کردیں تو لوگ اس بچہ کو تلاش کرنے نکل پڑے جب اس کو پہاڑ پر دیکھا تو اس کو پکڑنے کے لئے دوڑے تو اللہ تعالیٰ نے پہاڑ کو حکم دیا تو وہ اس بچہ کو لے کر آسمان کی طرف اتنا بلند ہوگیا کہ وہاں تک پر نے بھی نہ پہنچ سکتے تھے تو صالح (علیہ السلام) بھی وہاں پہنچ گئے۔ جب اس بچہ نے صالح (علیہ السلام) کو دیکھا تو رونے لگا اور اس کے آنسو بہنے لگے پھر اس نے تین دفعہ آواز نکالی، پھر پہاڑ پھٹا اور وہ اس میں چلا گیا۔ حضرت صالح (علیہ السلام) فرمانے لگے کہ ہر آواز ایک دن کی مہلت ہے تو تم اپنے گھروں میں تین دن تک نفع اٹھا لو یہ وعدہ جھوٹا نہیں ہے۔ یہ ان لوگوں نے ہفتے کے ایام کے نام رکھے ہوئے تھے اتوار کا اول، سوموار کا اھون، منگل کا دبار، بدھ کا جبار، جمعرات کا مئونس، جمعہ کا عروبہ اور ہفتے کا نام شبا رکھا ہوا تھا۔ انہوں نے اونٹنی کو بدھ کے دن قتل کیا تو صالح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ جمعرات کی صبح تمہارے چہرے زرد ہوں گے اور عروبہ یعنی جمعہ کی صبح سرخ ہوں گے اور شبار یعنی ہفتے کی صبح سیاہ ہوں گے۔ پھر اتوار کے دن تمہارے پاس عذاب آئے گا۔ جب صالح (علیہ السلام) نے یہ بات کہی تو وہ نو افراد جنہوں نے اونٹنی کو قتل کیا تھا کہنے لگے آئو صالح (علیہ السلام) کو بھی قتل کردیں۔ اگر یہ سچے ہیں تو ان کو ہم اپنے سے پہلے بھیج دیتے ہیں اور اگر جھوٹے ہیں تو ان کو ان کی اونٹنی کے پاس بھیج دیتے ہیں۔ یہ لوگ رات کو صالح (علیہ السلام) کو قتل کرنے گئے کہ ان کو قتل کر کے رات سکون سے اپنے گھر گزاریں گے تو فرشتوں نے ان کو پتھروں سے کچل دیا وہ اپنے ساتھیوں کے پاس نہ پہنچے تو انہوں نے آ کر دیکھا کہ ان کے سر کچلے پڑے ہیں تو صالح (علیہ السلام) کو قتل کرنے گئے کہ ان کو قتل کر کے رات سکون سے اپنے گھر گزاریں گے تو فرشتوں نے ان کو پتھروں سے کچل دیا وہ اپنے ساتھیوں کے پاس نہ پہنچے تو انہوں نے آ کر دیکھا کہ ان کے سر کچلے پڑے ہیں تو صالح (علیہ السلام) کو کہنے لگے کہ آپ نے ان کو قتل کیا ہے تو صالح (علیہ السلام) کو قتل کرنے لگے تو آپ (علیہ السلام) کا قبیلہ ہتھیار لے کر آپ (علیہ السلام) کے دفاع کے لئے آگیا اور ان کو کہا کہ اللہ کی قسم تم ان کو کبھی قتل نہ کرسکو گے، انہوں نے تم سے وعدہ کیا ہے کہ تین دن میں تم پر عذاب آئے گا ۔ اگر یہ سچے ہیں تو ان کو قتل کر کے تم اپنے رب کو مزید ناراض کر دو گے اور اگر یہ جھوٹے ہیں تو اپنا مقصد پورا کرلینا تو وہ چلے گئے تو جب جمعرات کی صبح آئی تو ان سب کے چہرے زرد ہوگئے، چھوٹے بڑے مرد و عورت سب کے۔ ایسا لگتا تھا کہ خلوف بوٹی ان پر مل دی گئی ہے تو اس وقت ان کو عذاب اور صالح (علیہ السلام) کے سچا ہونے کا یقین ہوگیا تو صالح (علیہ السلام) کو قتل کرنے کے لئے تلاش کرنے لگے، صالح (علیہ السلام) اس جگہ سے چلے گئے اور ثمود کی ایک شا خ بنو غنم کے پاس آگئے اور ان کے سردار نفل جس کی کنیت ابوھدب تھی کے مہمان ہوئے اس نے آپ (علیہ السلام) کو چھپا دیا۔ وہ آپ (علیہ السلام) کے قتل پر قادر نہ ہو سکے۔ یہ شخص مشرک تھا وہ حضرت صالح (علیہ السلام) کے ساتھیوں کو تکلیفیں دینے لگے تاکہ وہ آپ (علیہ السلام) کا پتہ بتادیں تو صالح (علیہ السلام) کے ایک ساتھی نے ان سے آ کر پوچھا کہ وہ ہمیں آپ (علیہ السلام) کے بارے میں پوچھنے کے لئے تکلیف دے رہے ہیں، کیا آپ (علیہ السلام) کا پتہ بتادیں تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا ہاں تو انہوں نے بتادیا وہ ابو ھدب کے پاس آئے۔ اس نے کہا ہاں صالح (علیہ السلام) میرے پاس ہیں لیکن تم ان کو کچھ نہیں کہہ سکتے تو یہ لوگ چلے گئے اور پھر ان کو اپنی پڑگئی۔ ایک دوسرے کے چہرے کی زردی دیکھ کر پریشان ہوتے تھے اور چیختے تھے۔ دوسرے دن چہرے سرخ ہوگئے۔ گویا کہ ان کو خون سے رنگ دیا گیا ہے تو رونے اور چیخنے چلانے لگے کہ عذاب کا ایک دن گزر گیا ہے۔ تیسرے دن کی صبح چہرے اتنے ایسے سیاہ ہوگئے جیسے ان پر تارکول چڑھا دیا گیا ہو اب وہ چیخنے لگے کہ عذاب آگیا۔ صالح (علیہ السلام) اپنے مسلمان ساتھیوں کو لے کر شام کی طرف چل پڑے اور ملتہ فلسطین کے علاقہ میں پڑائو ڈالا۔ اتوار کی صبح قوم ثمود نے کفن پہنے خوشبو لگائو اور زمین پر گرگئے اور کبھی آسمان کی طرف دیکھتے اور کبھی زمین کی طرف کہ کس طرف سے عذاب آئے گا جب اتوار کے دن چاشت کا وقت ہوگیا تو آسمان سے ایک چیخ آئی جس میں بجلی وغیرہ کی کڑک اور زمین کی ہر آواز والی چیز کی آاز تھی۔ اس آواز نے ان کے دل پھاڑ دیئے، ان میں سے کوئی چھوٹا یا بڑا زندہ نہ رہا سوائے ایک اپاہج لڑکی کے اس کا نام ذریعہ بنت سالف تھا یہ صالح (علیہ السلام) سے شدید دشمنی رکھنے والی کافرہ تھی۔ اللہ تعالیٰ نے عذاب کے وقت اس کی ٹانگیں ٹھیک کردیں تو یہ بڑی تیزی سے اس جگہ سے اور حجاز اور شام کے درمیان وادی قزح تک پہنچ گئی وہاں کے لوگوں کو بتایا کہ میں نے قوم ثمود کے عذاب کا خود مشاہدہ کیا ہے پھر پانی مانگا، انہوں نے پانی پلایا تو پیتے ہی مرگئی۔ سدی نے قتل ناقہ کے سلسلہ میں بیان کیا ہے کہ اللہ نے حضرت صالح (علیہ السلام) کے پاس کے وحی بھیجی تیری قوم عنقریب اونٹنی کو قتل کر دے گی۔ حضرت نے یوم سے یہی بات کہہ دی قوم والوں نے کہا ہم ہرگز ایسا نہیں کرسکتے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے فرمایا اس مہینہ میں ایک لڑکا پیدا ہوگا اور آئندہ وہ قتل کرے گا اور اسی کے سبب سے تمہاری ہلاکت ہوگی کہنے لگے اس مہینہ میں ہمارا جو رنگ والا بچہ بچ گیا اور اس کا بڑھائو بہت تیزی سے ہوا۔ مقتول بچوں کے باپ جب اس کو دیکھتے تو کہتے ہمارے بچے بھی اگر زندہ ہوتے تو ایسے ہی ہوتے، یہ سوچ سوچ کر ان کو حضرت صالح (علیہ السلام) پر غصہ آیا کہ یہ ہی شخص ہمارے بچوں کے قتل کا سبب ہے۔ پھر انہوں نے قسم کھا کر باہم معاہدہ کرلیا کہ ہم رات کو جا کر اس کو اور اس کے گھر والوں کو ضرور مار ڈالیں گے۔ پھر مشورہ ہوا کہ ہم کو بستی سے نکل جانا چاہیے لوگ ہم کو جاتے دیکھ کر خیال کریں گے کہ ہم سفر کو جا رہے ہیں۔ ہم باہر جا کر کہیں غار میں چھپ جائیں گے اور صالح جس وقت (رات کو) مسجد کو جائیں گے ہم آ کر ان کو قتل کردیں گے۔ پھر لوٹ کر غار میں چلے جائیں گے پھر (صبح کو) گھروں کو واپس آجائیں گے اور کہیں گے ہم تو قتل کے وقت موجود بھی نہ تھے لوگ ہم کو سچا سمجھیں گے۔ کیونکہ ان کا تو یہی خیال ہوگا کہ ہم سفر کو گئے ہوئے تھے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کے ساتھ بستی میں نہیں سوتے تھے بلکہ اپنی مسجد میں جس کو مسجد صالح کہا جاتا تھا جا کر رات گزارتے تھے اور صبح کو آ کر لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے تھے شام ہوتی تو پھر مسجد کو جا کر رات کو وہیں رہتے غرض وہ لوگ جن کے بچے قتل ہوئے تھے۔ بستی سے باہر جا کر ایک غار میں گھس گئے اور اللہ کے حکم سے غار ان پر گرپڑا اور سب مرگئے۔ اسی کو اللہ نے فرمایا ہے فمکروا مکرا و مکرنا مکر اوہم لایشعرون کچھ لوگ جو اس بات سے واقف تھے نکل کر گئے جا کر دیکھا کہ سب لوگ کچلے پڑے ہیں۔ انہوں نے بستی میں آ کر شور مچا دیا اللہ کے بندو ! صالح نے بچوں کے قتل پر ہی بس نہیں کیا۔ بلکہ ان لوگوں کو بھی مار ڈالا یہ سن کر بستی والے اونٹنی کو قتل کرنے پر متفق ہوگئے۔ ابن اسحاق نے کہا اونٹنی کو قتل کرنے کے بعد ان نو آدمیوں نے شب خون مار کر حضرت صالح کو قتل کرنے کا معاہدہ کیا تھا۔ یعنی قتل ناقہ کا واقعہ حضرت صالح کو قتل کرنے کے معاہدہ سے پہلے ہوچکا تھا۔ سدی وغیرہ کا بیان ہے دسواں بچہ قذار جب قتل ہونے سے بچ گیا تو تیزی سے بڑھنے لگا ایک دن میں اتنا بڑھ جاتا جتنا دوسرے بچے ایک ہفتہ میں بڑھتے ہیں اور ایک ماہ میں اتنا بڑھ جاتا دوسرے بچے ایک سال میں بڑھتے ہیں جب بڑا ہوگیا تو لوگوں کے ساتھ ایک روز شراب پینے بیٹھا اور شراب بنانے کے لئے پانی کی ضرورت ہوئی اور چونکہ وہ دن اونٹنی کے پانی پینے کا تھا۔ اس لئے پانی کا نہیں ملا۔ یہ بات ان لوگوں کو بہت کھلی اور کہنعے لگے ہم دودھ کا کیا کریں ہمیں تو اس پانی کی ضرورت ہے جو یہ اونٹنی پی جاتی ہے تاکہ مویشیوں کو پلائیں اور کھیتیاں سینچیں۔ قذار بولا کیا میں تمہارے لئے اس اونٹنی کو قتل کر دوں۔ اہل مجلس نے کہا ہاں ! چناچہ سب نے اونٹنی کو قتل کردیا۔ ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے غزوہ تبوک کے سفر میں مقام حجر پر پڑائو ڈالا تو حکم دیا کہ اس کنوئیں سے کوئی پانی نہ پئے اور نہ جانوروں کو پلائیں تو صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کہ ہم نے اس پانی سے آٹا گوندھا ہے اور مشکینروں میں پانی بھرا ہے تو آپ (علیہ السلام) نے حکم دیا کہ وہ آٹا پھینک دو اور وہ پانی گرا دو ۔ ابو الزبیر نے حضرت جابر ؓ کا قول نقل کیا کہ جب غزوہ تبوک میں رسول اللہ ﷺ کا گزر حجر سے ہوا تو صحابہ کو حکم دیا تم میں سے کوئی اس (ویران) بستی میں نہ جاتے نہ ان کا پانی پیو ان عذاب یافتہ لوگوں کی طرف سے گزرو تو روتے ہوئے ڈرتے ڈرتے کہیں تم پر بھی وہی عذاب نہ آجائے جو ان پر آیا تھا پھر فرمایا تم اپنے رسول سے معجزات نہ طلب کرو۔ یہ صالح کی قوم تھی جس نے اپنے رسلو سے معجز طلب کیا تھا تو اللہ نے ایک اونٹنی برآمد کردی جو اس پہاڑی راستہ سے پانی پر جاتی اور (پانی پی کر) اس راستہ سے واپس آتی تھی اور اپنی لوگوں کو ہلاک کردیا جو اس سر زمین میں مشرق سے مغرب لے کر مغرب تک آسمان کے خیمہ کے نیچے رہتے تھے صرف ایک آدمی بچا جس کو ابو رغال کہا جاتا تھا یہ قبیلہ ثقیف کا مورث اعلیٰ تھا یہ اس وقت جرم کے اندر تھا اور حرم میں ہونے کی وجہ سے اللہ کے عذاب سے بچ گیا لیکن جب حرم سے باہر نکلا تو اس پر بھی وہی عذاب آیا جو دوسروں پر آیا تھا اور وہیں دفن ہوگیا۔ دفن ہونے کے وقت اس کے پاس سونے کی ایک سلاخ بھی تھی جو اسی کے ساتھ زمین میں دب گئی۔ حضور ﷺ نے صحابہ کو ابو رغال کی قبر بھی دکھائی اور لوگوں نے تلواروں سے (کرید کر) زمین کھود کر سونے کی وہ ڈنڈی برآمد کرلی۔ قوم ثمود میں سے جو لوگ حضرت صالح پر ایمان لائے تھے ان کی تعداد چار ہزار تھی۔ حضرت صالح ان لوگوں کو لے کر حضرت موت چلے گئے۔ حضر ت موت میں پہنچ کر آپ کی وفات ہوگئی۔ اسی لئے اس بستی کا نام حضرت موت ہوگیا پھر ان لوگوں نے ایک بستی بسائی جس کا نام حاصورا ہوا۔ بعض علماء روایت کا قول ہے کہ حضرت صالح کی وفات مکہ میں ہوئی۔ وفات کے وقت آپ کی عمر 58 سال کی تھی آپ صرف بیس سال اپنی قوم میں رہے تھے۔
Top