Tafseer-e-Usmani - Al-A'raaf : 79
فَتَوَلّٰى عَنْهُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَكُمْ وَ لٰكِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِیْنَ
فَتَوَلّٰى : پھر منہ پھیرا عَنْهُمْ : ان سے وَقَالَ : اور کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ : تحقیق میں تمہیں پہنچا دیا رِسَالَةَ : پیغام رَبِّيْ : اپنا رب وَنَصَحْتُ : اور خیر خواہی کی لَكُمْ : تمہاری وَلٰكِنْ : اور لیکن لَّا تُحِبُّوْنَ : تم پسند نہیں کرتے النّٰصِحِيْنَ : خیر خواہ (جمع)
پھر صالح الٹا پھرا ان سے اور بولا اے میری قوم میں پہنچا چکا تم کو پیغام اپنے رب کا اور خیرخواہی کی تمہاری لیکن تم کو محبت نہیں خیرخواہوں سے5
5 کہتے کہ حضرت صالح قوم کی ہلاکت کے بعد مکہ معظمہ یا ملک شام کی طرف چلے گئے اور جاتے ہوئے ان لاشوں کے انبار دیکھ کر یہ خطاب فرمایا، یا تو اسی طرح جیسے آنحضرت نے مقتولین بدر کو فرمایا تھا اور یا محض بطور تحسر فرضی خطاب تھا۔ جیسے شعراء دیارو اطلال (کھنڈرات) وغیرہ کو خطاب کرتے ہیں۔ اور بعض نے کہا کہ یہ خطاب ہلاکت سے پہلے تھا اس صورت میں بیان میں ترتیب واقعات مرعی نہ ہوگی۔ بہرحال اس خطاب میں دوسروں کو سنانا تھا کہ اپنے معتبر خیر خواہوں کی بات ماننی چاہیے۔ جب کوئی شخص خیر خواہوں کی قدر نہیں کرتا تو ایسا نتیجہ دیکھنا پڑتا ہے۔
Top