Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 79
فَتَوَلّٰى عَنْهُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَكُمْ وَ لٰكِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِیْنَ
فَتَوَلّٰى : پھر منہ پھیرا عَنْهُمْ : ان سے وَقَالَ : اور کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ : تحقیق میں تمہیں پہنچا دیا رِسَالَةَ : پیغام رَبِّيْ : اپنا رب وَنَصَحْتُ : اور خیر خواہی کی لَكُمْ : تمہاری وَلٰكِنْ : اور لیکن لَّا تُحِبُّوْنَ : تم پسند نہیں کرتے النّٰصِحِيْنَ : خیر خواہ (جمع)
تو وہ ان کو چھور کر یہ کہہ کر چل دیا کہ اے میری قوم کے لوگو ؟ میں نے تمہیں اپنے رب کا پیام پہنچا دیا اور تمہاری خیر خواہی کردی لیکن تم خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے
فَتَوَلّٰى عَنْهُمْ وَقَالَ يٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّيْ وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلٰكِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِيْنَ۔ یہ قوم سے حضرت صالح کا آخری خطاب ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ انہوں نے عذاب آنے سے پہلے اس وقت فرمایا ہے جب قوم نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ کر عذاب کے بند کو گویا توڑ دیا ہے۔ یہی وداعی فقرہ کہہ کر انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہجرت فرمائی ہوگی۔ اس لیے کہ رسولوں کے باب میں سنت الٰہی یہ ہے کہ عذاب آنے سے پہلے، اللہ کے حکم سے، وہ علاقہ عذاب سے ہجرت کرجاتے ہیں۔ قرآن میں دوسری جگہ تصریح کہ اونٹنی کے قتل کے بعد صرف تین دن کی قوم کو مہلت ملی۔ اس تین دن کی مہلت میں جہاں بعض دوسری مصلحتیں تھیں وہاں یہ مصلحت بھی ہوگی کہ اس اثنا میں حضرت صالح اور ان کے ساتھی علاقہ سے اتنے دور نکل جائیں کہ عذاب کا کوئی جھونکا ان کو نہ چھو سکے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ترتیب بیان میں اس بات کو عذاب کے ذکر کے بعد کیوں کردیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ترتیب میں یہ تقدیم و تاخیر تقاضائے بلاغت سے ہوئی ہے۔ ارتکاب جرم اور اس کے نتیجہ کے فوری ظہور کو نمایاں کرنے کے لیے یہاں عذاب کو قتل ناقہ کے ساتھ متصل کردیا اور حضرت صالح کی ہجرت کے ذکر کو پیچھے کردیا۔ گویا جوں ہی انہوں نے ناقہ کو گزند پہنچا کر خدا کو چیلنج کیا عذاب آ دھمکا۔ عذاب کی یہ سبقت و مبادرت اچھی طرح ظاہر نہ ہوسکتی اگر اسبیچ میں کوئی اور بات ذکر میں آجاتی۔ قرآن میں اس اسلوب مبادرت کی مثالیں بہت ہیں۔ آگے قوم شعیب کی سرگزشت میں بھی اس کی مثال ہے۔ سورة ہود میں، حضرت نوح کی سرگزشت کے سلسلہ میں آیات 43۔ 45 ملاحظہ ہوں، نہایت واضح اور بلیغ مثال اس اسلوب کی موجود ہے۔ يٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ الایۃ سے ایک حقیقت یہ بھی واضح ہوتی ہے کہ ان انبیاء کے خطاب میں یا قوم، یا قوم کا لفظ جو بار بار آتا ہے یہ محض دلداری اور استماملت کی نوع کی کوئی چیز نہی ہے بلکہ جس طرح ہر شخص پر اس کے اپنے وجود، اپنے اہل و عیال اور اپنے خاندان کا ایک حق ہوتا ہے اسی طرح اپنی قوم اور اپنے وطن کا بھی اس پر ایک حق ہوتا ہے جس کتقاضا یہ ہے کہ وہ پورے اخلاص، پوری دل سوزی اور پوری جاں بازی کے ساتھ اس کی خیر خواہی کرے۔ اس کے بغیر کوئی شخص اپنی قوم کے حق سے سبکدوش نہیں ہوتا۔ جو شخص یہ حق ادا کرچکتا ہے وہ اللہ کے نزدیک سرخ رو ہے، اس سے اس باب میں کوئی پرسش نہیں ہوگی کہ قوم تباہی کی راہ پر کیوں گئی، ہدایت کی راہ پر کیوں نہ چلی ؟ لیکن جنہوں نے یہ حق ادا نہیں کیا ہے وہ اس حق کے باب میں عنداللہ لازما مسئول ہوں گے۔ وَلٰكِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِيْنَ محض اظہار حسرت کا کلمہ نہیں بلکہ حقیقت نفس الامری کا بیان ہے۔ قوم کے قومی مزاج کے بگاڑ کا ایک درجہ و مرحلہ وہ بھی ہوتا ہے جب تمام پیمانے اس طرح تلپٹ اور تمام اقدار اس درجہ متغیر ہوجاتے ہیں کہ خیر خواہی کا کلمہ کہنا جان جوکھوں کا کام بن جاتا ہے۔ جو لوگ عذاب الٰہی کے بند کو توڑتے ہیں وہ قوم کے لیڈر اور ہیرو بن جاتے ہیں۔ قومی فساد مزاج کی یہی وہ حد ہے جہاں پہنچ کر لازما قوم تباہی سے دوچار ہوتی ہے۔ اس کی وجہ واضح ہے کہ جب کسی مریض کا یہ حال ہوجائے کہ اسے معالجوں اور طبیبوں سے دشمنی ہوجائے اور صرف انہی کے مشورے اسے پسند آئیں جو اس کے مرض میں اضافہ کے خواہشمند ہوں تو موت کے سوا اب اس کے لیے کیا چیز باقی رہ گئی ہے۔
Top